مدنی فلاحی ریاست

عبدالقادر حسن  ہفتہ 9 فروری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

حکمرانوں سے اپنے محکوموں یعنی عوام کی فلاح و بہبود کے کام کبھی کبھار ہی سرزد ہوتے ہیںعوام کے لیے ایسے کاموں کی سرزردگی کیسے ہو جاتی ہے یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا لیکن حکمرانوں میں بھی کچھ خدا ترس اور عوام کا دکھ درد سمجھنے اور جاننے والی شخصیات موجود ہوتی ہیں جن کو اس بات کاادراک ہوتا ہے کہ عوام کس حال میں ہیں اور ان کی مشکلات کیا ہیں۔

ایسے ہی کسی دردمند حکمران کی نظر کرم جب عوام پر پڑ جائے تو کسی نہ کسی حد تک عوام کے مسائل کے حل کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے ۔ عموماًیہ دیکھا گیا ہے کہ برسہا برس سے مسائل کا انبار جوںکا توں موجود ہے کئی حکمران آئے اور گزر گئے مگر کسی نے اس انبار کو ذرا ساچھیڑنے کی زحمت بھی نہ کی بلکہ اگر اس سے کچھ ہو سکا تو اپنی آسانی کے لیے عوام کے مسائل کے انبار میں مزید کچھ اضافہ کر گیا۔

عوام کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندیاں جاری رہتی ہیں ہمارے بابو ان منصوبہ بندیوں میں پیش پیش رہتے ہیں مگر جب ان منصوبوں پر عملدر آمد کا وقت آتاہے تو یہ منصوبے فنڈز کی کمی کا بہانا بنا کر فائلوں میں ہی بند سکتے رہ جاتے ہیں یعنی میٹنگوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بھلے وقتوں میں عوام کے لیے راشن کارڈ جاری کیے جاتے تھے جن پر ہر مہینے عوام کو ایک مخصوص مقدار میں چینی ، آٹے اور دوسری روز مرہ استعمال کی اشیاء حکومت کی جانب سے ارزاں نرخوں پر فراہم کی جاتی تھیں ۔

عوام کو حکومت کی جانب سے ارزاں نرخوں پر روز مرہ استعمال کی اشیاء کی فراہمی کچھ مدت تک تو جاری رہی لیکن بعد میں نئے زمانے کے تقاضے کے تحت عوام کو لائنوں میں لگانے کی بجائے حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹیشن قائم کر دئے گئے جنہوں نے اپنے آغاز میں عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی اور حقیقت میں عوام کو سہولت ملنے بھی لگی لیکن ہماری قسمت ہی اتنی خراب ہے کہ سہولتوں کی فراہمی کو ہم اپنے ہاتھوں ہی ختم کر دیتے ہیں رفتہ رفتہ ان بڑے اسٹوروں کے منتظموں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور یہ عوامی سہولت اب ختم ہو چکی ہے اگر کہیں پر یہ اسٹور موجود بھی ہیں تو وہ اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔

گزشتہ سے پیوستہ ہماری پارٹی کی حکومت نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نام پر عوام کے لیے انکم سپورٹ کے نام سے ایک کارڈ کا اجراء کیا جو کہ ابھی تک جاری ہے اس کارڈ کے تحت ہر ماہ مستحق افراد کو ایک مخصوص رقم فراہم کی جاتی ہے میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ میرے گائوں میں بھی مستحق افراد اس سہولت سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں یہ ایک اچھی کوشش تھی جو نہ جانے پارٹی کے کار پردازوں سے کیسے سرزد ہو گئی وہ تو لانچوںمیں روپے بھر بھر کر بیرون ملک منتقل کرتے رہے لیکن حکومت کے خزانے سے عوام پر بھی مہربانی کر گئے۔ اس اسکیم میں کئی بے ضابطگیاں بھی ضرور ہوئی ہوں گی لیکن مجموعی طور پر مستحق افراد کے لیے یہ ایک اچھی اسکیم ہے جس کے اجرا کا فائدہ پارٹی کو ضرور پہنچ رہا ہوگا اور غریب افراد محترمہ بے نظیر شہید کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہوں گے۔

پاکستان کے عوام کے کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا حل عوام کے اپنے پاس نہیں بلکہ حکومت کے پاس ہے ان میں سر فہرست صحت، تعلیم اور مہنگائی ہے، ایک عام پاکستانی جیسے تیسے کر کے زندگی کی روز مرہ کی ضروریات بمشکل پوری کر رہا ہے۔

بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلاناوالدین کی خواہش ہوتی ہے ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت سب کے سامنے ہے یہی سرکاری اسکول ایک زمانے میں اپنے وقت کے بہترین دماغ پیدا کرتے تھے اور انھی سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلبا ملک کی انتظامیہ اور دوسرے شعبوں میں اپنی ذمے داریاں سر انجام دیتے رہے لیکن زمانہ کے تغیر کے ساتھ نہ صرف ان سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی حالت دگرگوں ہو گئی بلکہ نجی شعبے میں کئی اسکول کھل گئے جنہوں نے اپنے تعلیمی معیار کی بدولت عوام میں مقبولیت اختیار کر لی اور یہ مقبولیت اس حد تک پہنچ گئی کہ شروع میں ان نجی تعلیمی اداروں میں صرف صاحب حیثیت ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے تھے لیکن رفتہ رفتہ مڈل کلاس نے بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کی غرض سے ان نجی اسکولوں کی بڑھتی ہوئی ناقابل برداشت فیسوں کے باوجودتعلیم کے لیے ان کا انتخاب کیا چونکہ سرکاری اسکولوں کا معیار گر گیا ہے اور اب نوجوان ذہنوں کی سرکاری اسکولوں میں وہ تربیت نہیں ہو پاتی جو ان اسکولوں کا خاصہ تھی شائد وہ استاد اب نہیں رہے جو بچوں کو اپنے بچے اور مستقبل کے معمار سمجھ کر تعلیم و تربیت دیتے تھے اس لیے اگر دیکھا جائے تو تعلیم کے شعبے میں سنگین بحران ابھی بھی برقرار ہے قوم کے مستقبل کے لیے اس جانب فوری توجہ دی جانے چاہیے ۔

حکومت نے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے صحت کارڈ جاری کرنے کا خوش آئند اعلان کیا ہے وزیراعظم عمران خان کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کے عوام کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جو ایک اسلامی فلاحی ریاست کا بنیادی جزو ہیں اس لیے وہ بار بار مدینہ کی فلاحی ریاست کا ذکر کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ اسلامی فلاحی ریاست کے اصول ان کو یاد بھی ہوں گے اسی لیے وہ پاکستان کے عوام کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہ رہے ہیں جو ایک فلاحی ریاست کے عوام کو حاصل ہوتا ہے، اس سلسلے میں آغاز عوام کو صحت کی سہولت کے لیے حکومت کی جانب سے صحت کارڈ کا اجرا کر کے کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں علاج معالجے کی جو صورتحال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، غریب آدمی کو علاج کی سہولت صرف اس حد تک حاصل ہے کہ سرکاری اسپتال میں اس کو ڈاکٹر دیکھ لیتے ہیں اور دوائیں تجویز کر دیتے ہیں لیکن یہ دوائیں اس قدر مہنگی ہوتی ہیں کہ غریبوں کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ بھی ان کی استعداد نہیں رکھتا جب کہ پرائیویٹ اسپتالوں کے قریب سے گزر بھی ہوجائے تو وہ فیس وصول کر لیتے ہیں ۔

حکومت نے صحت کے متعلق اسکیم جاری کر کے عوام کی فلاح کے لیے نہایت خوش آئند قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس نیک کام میں اگر حکومت کو کسی مالی مدد کی ضرورت ہو تو ہمارے ملک میں اتنے مخیر حضرات موجود ہیں جو کہ اپنی زکوٰۃ ہی دے دیں تو کام چل جائے گا اور مجھے امید ہے کہ یہ حضرات اس فلاحی کام میں پیچھے نہیں رہیں گے۔بہر حال حکومت کو مدینہ کی فلاحی ریاست کی جانب پہلا قدم مبارک ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔