گالی

شاہد سردار  اتوار 10 فروری 2019

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ گالی ازل سے موجود رہی ہے، ہمارے معاشرے میں، ہماری سوسائٹی میں اور ابد تک رہے گی، مگر یہ ہمیشہ ایک محدود طبقے تک محدود رہتی ہے اور اس کا زیادہ استعمال ’’ محروم طبقے‘‘ میں ہوتا ہے جو اپنی محرومیوں کا غصہ گالی دے کر نکال لیتے ہیں ۔ پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے لوگ بھی گالی دیتے ہیں مگر وہ عموماً ایک محدود دائرے میں رہتی ہے۔ ہمارے درمیان یہ طبقہ کب پیدا ہوا جس کا اوڑھنا بچھونا ہی گالی ہے؟ ان کو کسی کی ماں، بہن اور بیٹی کی حرمت کا خیال تک نہیں آتا۔

ہم نے اپنے بچپن میں گلی محلے کے ننگ دھڑنگ بچوں کو گالیاں دیتے سنا اور دیکھا ہے، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ان کی ووکیبلری بہت محدود تھی۔ ان کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر اندر سے ننگے جس ’’ کلاس ‘‘ کے افراد کی گالیاں پڑھتے ہیں اور جنسی مسائل پر جس طرح کا مواد وہ منتقل کرتے ہیں تو یہ سب پڑھ کر سوچتے ہیں کہ گلی محلوں کے بچوں کو ان کی صحبت نصیب نہیں ہوئی ورنہ ان کی گالیوں کا دائرہ اتنا محدود نہ ہوتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گالی اب ہمارا کلچر بن چکی ہے ۔

گالی کے بارے میں ایک تسلیم شدہ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسے ہرکوئی برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے اپنی زبان سے کسی کو دیتا ہے۔ گالی کا ردعمل بعض اوقات فوری نکلتا ہے اور بہت ہی بڑے جھگڑے کی ابتدا اور انتہا بن جاتا ہے۔ یہ بھی سنا یا دیکھا گیا ہے کہ ماں یا بہن کی گالی کھانے یا سننے پر لوگ گالی دینے والے کو جان سے مار دیتے ہیں ۔ شاید اس لیے بھی کہ گالی انسانی احترام سے انکارکا اعلان ہوتی ہے۔گالی تذلیل اور دھمکی کا ایسا امتزاج ہے جس سے معاشرے میں تشدد کا اصول جواز پاتا ہے اور تشدد مہذب معاشرے کو جنگل سے الگ کرنے والی بنیادی لکیر ہے۔

گالی کمینے آدمی کا ہتھیار ہمیشہ سے سمجھی جاتی ہے اورگالی کمزور لوگوں کے ہتھیار کے طور پر بھی خاصی معروف رہی ہے۔ دیکھا جائے توگالی اور ریوالورکی گولی میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ گولی جسم میں سوراخ کرتی ہے اورگالی روح میں ۔ ایک احساس اور روح کو زخمی کرتی ہے اور دوسری جسم کو ۔گالی کے حوالے سے یہ بھی حقیقت ہے کہ گالی کا جواب دینا بہادری نہیں ہوتا ۔ عالم اور فاضل حضرات کے بقول گالی پر مسکرا دینا بہادری ہوتا ہے۔ جس طرح تاریخ کے کچھ باب ہمیشہ بہت اذیت ناک ہوتے ہیں جو ہر لمحہ وطن کی توقیر اور سربلندی کے خواہاں لوگوں کے احساسات کو مجروح کرتے رہتے ہیں، اسی طرح حساس لوگ کسی اپنے کی دی ہوئی گالیوں کو سن کر اندر ہی اندر کٹتے رہتے ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ’’سالا‘‘ اور ’’سالی‘‘ بیوی کے بھائی اور بہن کو ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے اور بیوی کے سگے بھائی اور بہن کا حوالہ یا رشتہ ہے اس کے شوہر کے لیے۔ لیکن اگر کسی دوسرے کو سالا اور سالی کہہ دیا جائے تو اسے بھی ہمارے ہاں گالی سمجھا جاتا ہے جسے سن کر لوگ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ عام طور پر رشتوں سے تنگ یا اپنے گرد و پیش سے سخت نالاں لوگ بھی گالیاں دیتے ہیں اور پھر نفسیاتی امر ایک یہ بھی ہے کہ تڑپنے والے کے منہ سے بد دعا نہ نکلے تو گالی ضرور نکلتی ہے، معدودے چند افراد ہی ایسے ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں جو ہر زیادتی، اپنوں کے ہر ستم پر منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتے اور سب کچھ اپنی جان پر ہی سہہ جاتے ہیں، واقعی بعض باتیں بھی کیا باتیں ہوتی ہیں اگر کہہ دی جائیں تو رشتے مر جاتے ہیں اور اگر دل میں رکھی لی جائیں تو انسان مر جاتا ہے ۔ افسوس ہم سبھی ایسے معاشرے کے شہری ہیں جہاں سچ بولنے یا کھرا سچ کہنے یا بولنے سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر ہمارا معاشرتی چلن بھی اب کچھ ایسا بن چکا ہے کہ آج کے لوگ دعاؤں میں کم اور غیبت میں زیادہ یاد رکھے جاتے ہیں۔

اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے، ہمارے سسٹم کے وہ لوگ جو توہین، بے عزتی، ہتک یا تھوڑی بہت ذلالت برداشت کرنے کی اپنے اندر سکت محسوس کرتے ہیں وہ ہائی بلڈ پریشر ، فالج ، دماغ کی رگ پھٹ جانے یا دل کے دورے جیسے عارضوں سے محفوظ رہتے اور شاید خوش و خرم زندگی بھی گزارتے ہیں ، لیکن انتہائی معقول ، شریف اور حساس لوگوں کے لیے گالی تیزاب کی مانند ہوتی ہے۔ گالی اورگولی بنیادی طور پر دونوں ہی قتل کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔گالی میں گولی کی سی کاٹ اور اذیت ہوتی ہے۔

لیکن گالی میں جو دلی اور ذہنی اذیت شامل ہوتی ہے وہ شاید گولی میں نہیں ہوتی کیونکہ گولی کا اثر محدود مدت کے لیے ہوتا ہے اور گالی کا اثر جب تک انسان زندہ رہتا ہے اس کے شعور اور اس کے احساس میں عجیب سے کرب کی صورت میں باقی رہتا ہے۔ اسی لیے مہذب اور باشعور ہر ذی ہوش گالی کا جواب گالی کی صورت میں دینے سے گریزکرتا ہے کیونکہ وہ خود کوکسی ایسی سطح پر نہیں لے جاسکتا جہاں کسی کی بھی تذلیل کی جاسکے۔

مشاہدے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ کبھی کبھار ایک شریف النفس اور پڑھا لکھا انسان بھی گالی بک دیتا ہے اور اس کی وجہ وہ ہوتی ہے جب سامنے والا اس کی مرضی ومنشا کے بغیرکام کرتا ہے یا پھرکوئی اپنے کسی عزیز، رشتے دارکوکسی کام سے منع کرے اور وہ نہ مانے تو بھی انسان گالی دینے پر مجبور ہوجاتا ہے، لیکن ہماری دانست میں انسان گالی دینے پر یوں اترتا ہے کہ وہ اپنے مصائب و آلام سے حد درجہ چڑچڑا اور بدظن ہوچکا ہے لہٰذا معمولی سا بھی اس کی مرضی کے خلاف کیا گیا کوئی کام اسے مشتعل کردیتا ہے اور وہ اپنی دانست میں اپنی ساری فرسٹریشن گالی کی شکل میں نکال دیتا ہے۔

اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ملک ہمارے معاشرے میں احترام انسانیت، رواداری اور برداشت کا حامل شہری اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اس کے برعکس غیر منطقی اور جذبات سے بھرے ہوئے افراد ہر جگہ پائے جاتے ہیں (ان سے بس ذرا سا بھڑ کر دیکھ لیں) ہم میں سے اکثریت درست سوال کرنے یا سوچنے اور اہم قومی اور گھریلو معاملات پر پر مغز بحث کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں دلیل یا منطق سے کسی کو قائل کرنے یا درمیانی راستہ نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔ ہر طرف اشتعال کی آندھی ہے، بپھرے ہوئے رویوں کے بگولے ہیں، تعصبات اور اختلافات کی سنگلاخ دیواریں ہیں، لیکن باوجود ان سب چیزوں کے حقیقت پھر بھی یہی ہے کہ نفرت یا عدم برداشت کی آگ معقولیت کو بھسم کردیتی ہے۔

کوئی بھی اس کے راستے میں کوئی جواز نہیں رکھ سکتا۔ اگر آپ خود اس کے راستے میں آئیں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اگر آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں یہ کیفیت پائی جاتی ہے تو یقین جانیں زندگی کے لیے اس سے زیادہ زہر ناک مقام کوئی نہیں۔ اور کوئی یہ تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن تکلیف دہ سچائی اس حوالے سے یہی ہے کہ بحث، تنقید اور منطق و دلیل کا گلا گھونٹنے کی مشق ہمارے ملک میں کئی عشروں سے جاری و ساری ہے اور یہ بات تاریخی طور پر درست ہے کہ ہم ایک فراخ دل،کھرا اور لبرل معاشرہ کبھی بن ہی نہیں سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔