سندھ میں سائبیریا سے مہاجر پرندوں کی آمد میں 70 فیصد کمی

سید اشرف علی  اتوار 10 فروری 2019
مشیر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ، جال لگا کر پرندے پکڑ کر فروخت کرنا اندرون سندھ عام ہے، سماجی کارکن۔ فوٹو: فائل

مشیر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ، جال لگا کر پرندے پکڑ کر فروخت کرنا اندرون سندھ عام ہے، سماجی کارکن۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ میں سائبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کی آمد میں گذشتہ کئی برسوں سے غیرمعمولی کمی آ چکی ہے جب کہ سروے کے مطابق تقریبا ڈیڑھ لاکھ مقامی اور ہجرتی اور مقامی آبی پرندے شمار کیے گئے جو ماضی کے مقابلے میں 70فیصد کم ہیں۔

صوبائی حکومت جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے اور صوبائی محکمہ وائلڈ لائف اسٹاف، گاڑیوں اور فنڈ کی کمی کی وجہ سے عمومی طور پر غیرفعال ادارہ بن کر رہ گیا ہے، اندرون سندھ صرف13مقامات پر شکار کی اجازت ہے اور بقیہ 34 آبی گذرگاہوں جہاں ہجرتی پرندوں کا مسکن ہے وہاں شکار کی ممانعت ہے تاہم رواں سیزن میں ان تمام مقامات پر بے دریغ اور غیرقانونی شکار کھیلا جارہا ہے اور نیٹنگ(جال لگا کر پرندوں کو پکڑنا) کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

کئی چھوٹے بڑے وڈیرے نجی اور سرکاری اراضی پر کمرشل بنیادوں پر شکار کھلوارہے ہیں، تقریباً ایک کلومیٹر ایریا میں ایک مورچہ قائم کیا جاتا ہے جس میں8 شکاری ہوتے ہیں، یہ مورچہ ڈیڑھ لاکھ میں فروخت ہوتا ہے۔

سندھ وائلڈ لائف اور زولوجیکل سروے آف پاکستان نے گزشتہ سال آبی پرندوں کو شمار کرنے کیلیے کراچی کے ساحل سمندر ہاکس بے سمیت اندرون سندھ کی12جھیلوں کا سروے کیا، ان جھیلوں میں ہڈیرو، لنگھ، ڈرگھ، ھمل، منچھر، دیہہ آکڑو، نررڈی، مہرانو، کینجھر اور ہالیجی شامل ہیں، ان مقامات پر64  اقسام کے مقامی اور ہجرتی پرندوں کا شمار کیا گیا ہے، اس پرندہ شماری میں مجموعی طور پر آبی پرندوں کی تعداد 153,916 رہی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان بالخصوص سندھ میں ہجرتی پرندوں میں کمی کی ایک وجہ نہیں ہے، اس میں قدرتی اور انسانی دونوں مداخلت شامل ہیں، آبی پرندوں میں کمی کا سلسلہ 3 عشروں سے بتدریج جاری ہے تاہم اس وقت بے دریغ شکار اور اس سے کہیں زیادہ ہونے والی نیٹنگ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور فطرت دوست شہریوں کو سخت مایوسی کا سامنا ہے جن کا کہنا ہے کہ اب جبکہ آبی پرندے اتنی کم تعداد میں رہ گئے ہیں تو صوبائی حکومت ان کے شکار بالخصوص نیٹنگ پر پابندی عائد کیوں نہیں کرتی اور اس مافیا کے خلاف ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے۔

سندھ وائلڈ لائف کے آفیشل رشید احمد خان کے مطابق افغان وار کی وجہ سے بھی ہجرتی پرندوں میں کمی آئی ہے، اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں کی کمی ہے جن کی وجہ سے چھوٹی آبی گذرگاہیں خشک ہوچکی ہیں ، 4 عشروں سے جاری افغان وار کی وجہ سے ہجرتی پرندوں کا پاکستان روٹ متاثر ہوا ہے اور گذشتہ کئی سال سے ہزاروں ہجرتی پرندے اس روٹ کے بجائے دیگر ہمسایہ ممالک کی طرف جارہے ہیں۔

رشید خان کا کہناہے کہ ملک بھر میں آبی پرندے سب زیادہ سندھ میں آتے ہیں کیونکہ یہاں کھارے اور میٹھے پانی دونوںکے سرچشمے موجود ہیں، یعنی سمندر اور جھیلیں، پاکستان میں 19رمسر سائٹ ہیں جن میں 10رمسر سائٹ سندھ میں ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ(ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان کا کہنا ہے کہ بارشوں کی کمی، آبی گذرگاہوں کا خشک ہونا اور ان مقامات کو زراعت میں تبدیل کرنا ہجرتی پرندوں میں کمی کی بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ غیرقانونی شکار بھی آبی پرندوں کے مسکن کو اجاڑنے کا سبب ہے۔

معظم خان نے کہا کہ کراچی سمیت اندرون سندھ کئی آبی گذرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ان مقامات کو زرعی اراضی اور ماہی پروری کیلیے استعمال کیا جارہا ہے یا پھر مکانات تعمیر کیے جاچکے ہیں ، ہجرتی پرندوں کی آبادی کو بڑھانے کیلیے ان کے قدرتی مسکن کو بہتر بنانا ہوگا۔

سماجی ورکر سلمان بلوچ کا کہناہے کہ سندھ وائلڈ لائف غیر فعال ادارہ ہے، پرندوں کا بے دریغ شکار اور جال لگا کر ہجرتی پرندوں کو پکڑ کر سستے داموں فروخت کرنا اندرون سندھ عام سی بات ہے، شکار سے زیادہ نقصان نیٹنگ سے ہورہا ہے۔

ایک ماہر شکاری جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ان کا کہنا ہے کہ وہ 1984 سے شکار کھیل رہے ہیں اور اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہجرتی پرندے سندھ میں آتے تھے اور اب اس تعداد کا صرف 30فیصد آرہا ہے۔

سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر تاج محمد شیخ کا کہناہے کہ سندھ وائلڈ لائف کے پاس اسٹاف اور گاڑیوں کی کمی کا سامنا ہے تاہم جو دستیاب وسائل ہیں اس کے تحت سندھ کی جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کررہے ہیں ، نیٹنگ ایک غیرقانونی عمل ہے اور جولوگ اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔