بھارت کے برفانی پہاڑ میں چھپی موت

سید عاصم محمود  اتوار 10 فروری 2019
بیسویں صدی میں دنیائے جاسوسی کی ایک بڑی مہم۔ فوٹو: فائل

بیسویں صدی میں دنیائے جاسوسی کی ایک بڑی مہم۔ فوٹو: فائل

یہ 1964ء کی بات ہے، تب پاکستان میں صدر ایوب خان کی حکومت تھی جو امریکا اور نیٹو ممالک سے تعلقات بڑھانے کے حامی تھے۔ ان کی کوششوں سے ہی پاکستانی افواج کو جدید امریکی اسلحہ ملنے لگا اور وہ  مضبوط پوزیشن میں آگئیں۔ تاہم امریکی حکمران پاکستان کے کٹر دشمن، بھارت سے بھی چوری چھپے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف رہے۔ وجہ 1962ء میں چین اور بھارت میں انجام پائی جنگ تھی۔

امریکی حکمرانوں کی تب بھی کوشش تھی کہ بھارت اور کمیونسٹ چین کو حریف بنادیا جائے۔ یوں وہ چینی حکمرانوں کے لیے مسائل کھڑے کرنا چاہتے تھے۔شمالی کوریا، تائیوان اور ویت نام  کے معاملے پر امریکا سے اختلافات نے چینی حکومت کو احساس دلایا کہ اسے اپنا دفاع مضبوط بنانے کی خاطر ایٹمی ہتھیار بنانے چاہئیں۔ چنانچہ 1960ء سے چین ایٹم بم بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس سلسلے میں سنکیانگ صوبے میں تجربہ گاہ قائم کئی گئی۔ جب 1962ء میں بھارت سے جنگ ہوئی، تو چین نے تجربہ گاہ میں کام کی رفتار بڑھادی تاکہ جلد از جلد ایٹم بم بنایا جا  جاسکے۔

اوائل میں سویت یونین نے چین کو ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی اور تکنیکی معلومات فراہم کی تھی۔ تاہم 1958ء کے بعد چین اور سویت یونین کے تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ اہم وجہ یہ تھی کہ بھارت تبت میں دلائی لاما کی بغاوت کا حمایتی بن گیا۔ یہی نہیں، اس نے دلائی لاما کو پناہ بھی دے دی۔ اس دوران سویت یونین نے بھارت پر یہ دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ تبت میں باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہوجائے۔ سویت حکومت کی بے پروائی نے چینی حکمران، ماؤزے تنگ کو طیش دلادیا۔ لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔

چین کے سائنس داں اور انجینئر اب اپنی کوششوں سے ایٹم بم بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرنے لگے۔ امریکی حکمرانوں کو یقین تھا کہ سویت یونین کے ہاتھ کھینچ لینے سے چینی ایٹمی پروگرام کو شدید دھچکا لگا ہے۔ امریکی حکمران سمجھتے تھے کہ چینی ایک نہ ایک دن ایٹم بم ضرور بنالیں گے مگر اس منزل تک پہنچتے ہوئے انہیں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب 16 اکتوبر 1964ء کو چین نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا، تو امریکی حکومت بھونچکا رہ گئی۔چین نے پہلے ایٹمی تجربے میں 22 کلو ٹن طاقت رکھنے والے ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ یہ جاپانی شہر، ناگاساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بم جیسی طاقت کا حامل تھا۔ اس تجربے نے ثابت کردیا کہ چین کا ایٹمی پروگرام بہت آگے بڑھ چکا ۔انھوں نے سنکیانگ  میں واقع تجربہ گاہ میں ایٹمی تحقیق و تجربات جاری رکھے۔اب وہ نت نئے ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے تھے۔

امریکی حکمرانوں نے چین کے ایٹمی پروگرام پر نظر  رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ مقصد پانے کی خاطر انہوں نے بھارتی حکمرانوں سے رابطہ کرلیا۔ چین چونکہ امریکا اور بھارت کا مشترکہ حریف تھا، اسی لیے اس کے مقابلے میں دونوں ممالک یکجاہوگئے۔ امریکا چاہتا تھا کہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر حساس (سینسنگ) آلات نصب کردیئے جائیں تاکہ وہ ہر قسم کے چینی ایٹمی تجربات کو نوٹ کرکے متعلقہ معلومات امریکی ماہرین تک پہنچاسکیں۔ یوں امریکا چین کے ایٹمی پروگرام کی پیش رفت سے آگاہ رہتا۔جب چین نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا تو بھارت میں لال بہادر شاستری وزیراعظم بن چکے تھے۔ انہوں نے فوج کے جرنیلوں سے صلاح مشورے کے بعد امریکا کو ہمالیہ کے پہاڑی علاقے میں حساس آلات نصب کرنے کی اجازت دے دی۔

چنانچہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے بھارتی خفیہ ادارے، آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کے تعاون سے آلات نصب کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔یہ ایک خطرناک مہم تھی۔ وجہ یہ کہ حساس آلات کو ایک جنریٹر نے بجلی فراہم کرنی تھی جبکہ اس جنریٹر کا ایندھن پلوٹونیم تھا۔ یہ  ایک خطرناک مادہ ہے جو  دو لحاظ سے انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اول اس کے ذرات زہریلے ہوتے ہیں۔ دوم یہ ذرات خطرناک تاب کار ( radioactive) شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ انتہائی خطرناک ہونے کے باعث ہی ماہرین ہمیشہ خصوصی حفاظتی لباس پہن کر اسے پکڑتے ہیں۔ تب ان کا سارا بدن ڈھکا ہوتا ہے۔

پلوٹونیم کی چھ اقسام ہیں۔ ان میں سے پی یو۔ 239 اورپی یو۔ 240انشقاقی (fissile) ہیں، یعنی ان سے ایٹم بم بن سکتا ہے۔ بقیہ اقسام عام طور پر بطور ایندھن استعمال ہوتی ہیں۔ پلوٹونیم کے ذریعے دنیا کا پہلا ایٹم بم امریکا نے تیار کیا تھا۔ یہی ایٹم بم اگست 1945ء میں جاپانی شہر، ناگاساکی پر گرایا گیا۔امریکا اور بھارت نے مل کر ہمالیہ کے پہاڑی علاقے میں جو حساس آلات نصب کرنے تھے، ان کا وزن 56 کلو تھا۔بھارتی ہمالیہ پہاڑوں میں نندا دیوی سب سے اونچا پہاڑ تھا۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ اس پر ہی 24 ہزار فٹ کی بلندی پہ حساس آلات نصب کردیئے جائیں۔اب یہ آلات لے جانے کے لیے تیاری شروع ہوئی۔ سب سے پہلے سی آئی اے اور بھارتی آئی بی نے قابل بھروسا کوہ پیماؤں کا انتخاب کیا۔ انہیں پھر امریکا اور پھر بھارت میں حساس آلات لے جانے کی تربیت دی گئی۔ یہ تربیت دوماہ جاری رہی۔

اس پورے منصوبے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔حتی کہ کوہ پیماؤں کو اس امر کی بھی اجازت نہیں تھی کہ منصوبے کی معلومات اپنے بیوی بچوں کو بتا دیں۔ اس مہم میں جان بھی جاسکتی تھی، اس لیے صرف وہی کوہ پیما بھرتی کیے گئے جو ملک و قوم کی خاطر زندگی دان کر دینے پر آمادہ تھے۔حقیقت میں یہ خودکش حملے کے مترادف نہایت خطرناک مہم تھی۔ اول نندا دیوی کی سطح نہایت عمودی ہے۔ اسی لیے کے ٹو کے بعد اس پہاڑ  پر کوہ پیمائی کرنا مشکل ترین مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ کوہ پیماؤں کو خطرناک مادہ پلوٹونیم لے کر جانا تھا۔ ذرا سی بداحتیاطی انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیتی۔

ناگا ساکی پر گرائے امریکی ایٹم بم میں 14 پاؤنڈ (6.4 کلو) پلوٹونیم موجود تھا۔ اب امریکی و بھارتی کوہ پیماؤں کو 7 پاؤنڈ (3.17 کلو) پلوٹونیم لے کر نندا دیوی پر چڑھنا تھا۔ یہ مادہ نہایت مضبوط اسٹیل سے بنے سلنڈر نما ڈبوں میں بند تھا۔انھیں پھر خصوصی دھاتوں سے بنے کنٹینر میں رکھا گیا ۔ اس خطرناک مادے کو بحفاظت 24 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچانے کے لیے پونے دو سو سے زیادہ مدد گار بھرتی کیے گئے۔ یوں یہ افرادی قوت کے لحاظ سے بیسویں صدی میں انجام پائی دنیائے جاسوسی کی سب سے بڑی مہم بن گئی۔اس ٹیم کا لیڈر ایک بھارتی کوہ پیما،منموہن سنگھ کوہلی کو بنایا گیا۔یہ نو بھارتی کوہ پیماؤں پہ مشتمل اس ٹیم کا بھی قائد تھا جس نے حال ہی میں (جون 1965ء) ماؤنٹ ایورسٹ پہلی بار سر کی تھی۔کوہلی پہلے بھارتی بحریہ کا افسر تھا،پھر کوہ پیمائی کا جنون اسے بھارتی تبتی سرحدی پولیس میں لے آیا۔یہ فورس خفیہ ایجنسی آئی بی کے ماتحت تھی۔

حساس آلات اور پلوٹونیم لیے بھارتی و امریکی کوہ پیماؤں کی ٹیم 16اکتوبر 1965ء کو سخت حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نندا دیوی کی چوبیس ہزار فٹ بلندی پہ پہنچ گئی۔وہاں ایک کیمپ قائم کر دیا گیامگر جلد ہی ایک زبردست برفانی طوفان نے ٹیم کو آن دبوچا۔اگر پونے دو سو افراد وہاں مزید کچھ عرصہ قیام کرتے تو یقینی تھا کہ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے سبھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ سارا سامان کیمپ میں چھوڑ کر واپسی کی راہ اختیار کی جائے تاکہ سبھی کی جانیں بچ سکیں۔امریکی و بھارتی کوہ پیما کچھ عرصہ بعد واپس پہنچ کر آلات مقررہ جگہ نصب کرنا چاہتے تھے۔

چناں چہ ٹیم سارا سامان کیمپ میں رکھ کر نیچے اتر آئی۔موسم مگر بہتر  نہ ہو سکا۔جلد ہی سردیاں شروع ہونے کے باعث نندا دیوی پر بکثرت برفانی طوفان آنے لگے ۔اب اس پہاڑ پر چڑھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ منموہن سنگھ کوہلی کی قیادت ہی میں دوسری ٹیم مئی 1966ء میں نندا دیوی کے اس مقام پر پہنچی جہاں ایک کیمپ میں حساس آلات اورپلوٹونیم کا کنٹینر رکھا گیاتھا۔مگر یہ دیکھ کر سبھی لوگ حیران پریشان ہو گئے کہ کیمپ کا نام ونشان نہ تھا۔لگتا تھا کہ کیمپ مع سامان کسی برفانی طوفان کی نذر ہو گیا۔

امریکی کوہ پیماؤں کو حساس آلات ضائع ہونے کا زیادہ افسوس نہیں تھا،انھیں اصل فکر یہ تھی کہ خطرناک مادہ  پلوٹونیم کسی نہ کسی طرح مل جائے۔انھیں یقین تھا کہ سارا سامان برف کی کئی فٹ تہہ تلے دب چکا۔انھوں نے کیمپ کے مقام پہ کھدائی کی مگر سامان نہیں ملا۔لگتا تھا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔جب ٹیم نے واپس پہنچ کر امریکی و بھارتی حکمرانوں کو اطلاع دی کہ آلات مع پلوٹونیم گمشدہ ہو چکے تو وہ سراسیمہ ہو گئے۔امریکیوں کو فکر تھی کہ یہ گمشدگی میڈیا میں اسکینڈل بن سکتی ہے۔

بھارتی حکمران زیادہ تشویش میں مبتلا ہوئے۔انھوں نے جلدبازی سے اور بے سوچے سمجھے امریکیوں کی جاسوسی مہم میں شامل ہو کر اپنے لاکھوں شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔خطرے کی وجہ پلوٹونیم مادہ تھا۔ دراصل نندا دیوی پر واقع گلیشیر گرمیوں میں پگھل کر دریائے گنگا کے معاون دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔یہ پانی پھر کئی اعتبار سے کروڑوں بھارتیوں کے زیراستعمال آتا ہے۔یہ عین ممکن تھا کہ کسی طرح نندا دیوی کی برف میں دبے پلوٹونیم کے ذرات گنگا کے پانی میں داخل ہوں اور پھر لاکھوں بھارتیوں کے جسمانی نظام میں پہنچ جائیں۔تب وہ رفتہ رفتہ شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے۔

بھارتی حکمرانوں نے سب سے پہلے نندا دیوی پہ کوہ پیمائی کرنے پر پابندی لگا دی۔اس کے بعد 1968ء تک منموہن سنگھ کوہلی کی زیرقیادت سات ٹیمیں اس جگہ بھجوائی گئیں جہاں آلات اور پلوٹونیم گم ہوئے تھے۔ان ٹیموں کے ارکان کوشش کے باوجود مادہ نہیں ڈھونڈ سکے۔اس سارے معاملے کو ’’قومی سلامتی کا معاملہ‘‘اور ’’ٹاپ سیکرٹ ‘‘قرار دے کر انتہائی خفیہ رکھا گیا۔وجہ صاف ظاہر ہے۔بھارتی کانگریسی لیڈروں کو یقین تھا کہ اگر یہ بات سامنے آ ئی کہ حکومت نے امریکیوں کو نندا پہاڑی پہ خطرناک مادہ ،پلوٹونیم لے جانے کی اجازت دی تھی تو اپوزیشن معاملے کو اسکینڈل بنا دیتی۔حزب اختلاف کے لیڈر عوام کے سامنے یہ دہائی مچا دیتے کہ کانگریسی حکومت کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔اس نے لوگوں کی صحت وسلامتی مدنظر نہیں رکھی اور اپنے مفاد کی خاطر امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔

اب نندا پہ پلوٹونیم گمشدہ ہونے سے لاکھوں بھارتی عوام کی زندگیاں خطرے میں ہیں کیونکہ اس مادے کے ذرات پانی کا حصہ بن کر انسانی جسم کے اندر پہنچ سکتے ہیں۔یہ اسکینڈل عوام میں کانگریسی حکومت کو انتہائی مقبول بنا دیتا۔یہ بھی ممکن تھا کہ عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت بیٹھ جاتی۔کئی ٹیمیں بھجوانے کے بعد بھی پلوٹونیم نہیں ملا تو بھارتی حکمرانوں نے ہمت ہار دی۔1978ء میں ایک امریکی رسالے نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا کہ تیرہ برس قبل سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسی،آئی بی نے مل کر نندا پہاڑی پر پلوٹونیم جنریٹر سے چلنے والے حساس آلات نصب کرنا چاہے تھے تاکہ چین کے ایٹمی پروگرام کی جاسوسی ہو سکے۔تاہم یہ مہم ناکام رہی اور سات پاؤنڈ وزنی پلوٹونیم پہاڑ میں گم ہو گیا۔

اس سنسنی خیز انکشاف سے امریکا میں کھلبلی مچ گئی۔ ماحولیات اور انسانی حقوق سے وابستہ ماہرین نے اس امر پہ اظہار تشویش کیا کہ نندا دیوی کی برف میں پوشیدہ پلوٹونیم سے لاکھوں بھارتیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔انھوں نے یہ خفیہ مہم اپنانے پہ امریکی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔امریکی حکمرانوں نے اپنا دامن اجلا رکھنے کی خاطر یہ شوشا چھوڑ دیا کہ پلوٹونیم گم نہیں ہوا بلکہ بھارتی حکومت نے فراڈ کر کے اسے اڑا لیا۔مقصد یہ تھا کہ اسے بھارتی ایٹمی منصوبے میں استعمال کر لیا جائے۔تاہم سبھی امریکی ماہرین نے اپنی حکومت کا یہ پروپیگنڈا مسترد کر دیا۔اُدھر بھارتی فوج کے شدید دباؤ کی وجہ سے بھارت کا میڈیا خفیہ مہم کی خبریں منظر عام پہ نہیں لایا۔دراصل اس زمانے میں بھارت کے سیاسی حالات ہنگامہ خیز ہو چکے تھے۔بھارتی فوج کو ڈر تھا کہ عوام کو علم ہوا کہ دریائے گنگا کے پانی میںپلوٹونیم  شامل ہو سکتا ہے تو ان میں افراتفری پھیل جائے گی۔ اس طرح ملکی حالات مذید خراب ہو جاتے۔

آج دنیا بھر کے ماہرین کو یقین ہے کہ گمشدہ پلوٹونیم نندا کی برف تلے دبا ہوا ہے۔اس مادے کا 80فیصد حصہ پی یو۔238 ہے اوربقیہ 20فیصد حصہ پی یو ۔ 239۔پی یو۔238 تقریباً اسّی سال تک تاب کاری خارج کرتا ہے یعنی پلوٹونیم کی یہ قسم 80 برس بعد انسانی صحت کے لیے خطرناک نہیں رہتی۔مگر  پی یو۔  239چوبیس ہزار تک تاب کاری چھوڑتا رہتا ہے۔لہٰذا یہ قسم انسان کی زندگی کے لیے زیادہ تباہ کن ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ پی یو۔238 بہت زیادہ حرارت خارج کرتا ہے۔نندا دیوی کی برف میں اس مادے کو دبے تقریباً چون سال ہو چکے۔گویا ابھی مزید چھبیس برس یہ تاب کاری اور حرارت خارج کرے گا۔عین ممکن ہے کہ اب تک پی یو۔238 زبردست حدت کی وجہ سے ان دھاتوں کو پگھلا چکا ہو جن میں اسے مقید کیا گیا تھا۔گویا ممکن ہے ، پگھلتی برف اور تیز ہوا کا دباؤ مل کرپلوٹونیم کے ذرات پانی میں شامل کر رہا ہو۔یاعنقریب یہ عجوبہ ظہورپذیر ہو سکتا ہے۔جب بھی اس عمل کا آغاز ہوا،لاکھوں بھارتیوں کے سروں پہ موت کا فرشتہ منڈلانے لگے گا۔

وجہ یہ ہے کہ پی یو 238 اور پی یو  239،دونوں کے ذرات الفا پارٹیکل یا شعاع ریزی (Alpha radiation) خارج کرتے ہیں۔یہ ذرات سانس کے ذریعے یا منہ کے راستے انسانی بدن میں داخل ہوتے ہیں۔پھر وہ پھیپڑوں یا معدے سے ہوتے جگر اور ہڈیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ان ذرات کی الفا شعاع ریزی پھر جگر اور ہڈیاں گھلانے لگتی ہے۔یہ ذرے کئی برس انسانی جسم میں بسیرا کرتے اور اعضائے جسمانی گھلاتے رہتے ہیں۔ان کی وجہ سے پھیپھڑے اور جگر کینسر کا نشانہ بن جاتے ہیں۔جبکہ ہڈیاں گھل گھل کر خستہ ہونے کے باعث ٹوٹنے لگتی ہیں۔سنسنی خیز امر یہ ہے کہ عالمی گرماؤ(گلوبل وارمنگ)کے باعث نندا دیوی اور دیگر ہمالیائی پہاڑوں پر واقع گلیشیر تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔خدانخواستہ یہ پگھلاؤ برف میں دبے پلوٹونیم سے ذرات الگ کر کے پانی میں ملانے لگا تو لاکھوں بھارتی شہری کینسر کا شکار بن جائیں گے۔یاد رہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک پاؤنڈ پلوٹونیم کے ذرات بیس لاکھ انسان مار سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔