بھارتی کاریاں اور بے کاری

محمد عثمان جامعی  اتوار 10 فروری 2019
مودی جی اور ان کی بی جے پی کی سیاست گائے کی کمر پر کھڑی ہے۔ فوٹو: فائل

مودی جی اور ان کی بی جے پی کی سیاست گائے کی کمر پر کھڑی ہے۔ فوٹو: فائل

بھارت اپنی سرکاری سیاہ کاریوں کے ساتھ جن دیگر کاریوں سے پہچانا جاتا ہے ان میں سیاست دانوں کی ریاکاری، بولی وڈ کی اداکاری، گھر گھر بنتی ترکاری اور سرمایہ داروں کی غریبوں کے لیے کارِندارد سرمایہ کاری سرفہرست ہیں، اس فہرست میں اب بے کاری کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

ایک خبر یہ انکشاف کرتی ہے کہ پڑوسی دیش میں گذشتہ سال بے کاری یا بے روزگاری میں 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس حوالے سے اعدادوشمار ایک حکومتی سروے میں سامنے آئے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی جن دعوؤں کے ساتھ راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے تھے ان میں لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ بھی شامل تھا، مگر وہ دلاسے، دھمکیاں، دھوکا اور چنوتیاں دیتے رہے، روزگار نہ دے پائے۔ اب اس برس اپریل تا مئی انتخابات ہونے کو ہیں، اور مودی جی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی پریشان ہیں کہ جنتا کو کیا منہہ دکھائیں گے۔

دوسری طرف جنتا کا کہنا ہے کہ مہاشے مودی! آپ کوئی سا بھی منہہ دکھائیں، یہ آپ کا مسئلہ ہے، ہم نے جب آپ کا موجودہ منہہ گوارا کرلیا تو ہمیں کسی اور منہہ پر کیا اعتراض ہوگا! آپ اپنے منہہ پر ریتھک روشن، رنبیرکپور، کترینہ کیف، کرینہ کپور یا سنی لیون کا منہہ لگالیں تو اس سے آپ منہہ دکھانے کے قابل ضرور ہوجائیں گے لیکن چناؤ کے سمے ہم پھر بھی آپ کو منہہ نہیں لگائیں گے، اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ منہہ دکھانے کے بہ جائے اس منہہ سے جو کہا ہے وہ کردکھائیں۔

جنتا کچھ بھی کہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ مودی سرکار صرف دو ماہ میں بے روزگاری کیسے کم کرسکتی ہے، بے روزگاری کوئی بھارتی مسلمان تو ہے نہیں کہ جب چاہا فسادات کرائے اور کم کردیے، نہ یہ بولی وڈ کی ہیروئنوں کا لباس ہے جو پانچ منٹ کے گانے میں کم ہوتے ہوتے اتنا کم ہوجاتا ہے کہ ’’اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔‘‘ اب کریں تو کیا کریں؟مودی جی جیسے بھی ہیں، ہیں تو ہمارے ہم سائے ملک کے وزیراعظم ناں، اس لیے ہم سے ان کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔ ہم نے سوچا انھیں ایک مشورہ دے دیں جس پر عمل کرکے وہ اپنے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں کمی لاسکتے اور اپنے ووٹ بڑھاسکتے ہیں۔ سو مشورہ پیش ہے:

کبھی یہ تصور پایا جاتا تھا کہ دنیا گائے کے سینگوں پر قائم ہے، یہ تصور غلط سہی مگر یہ حقیقت ہے کہ مودی جی اور ان کی بی جے پی کی سیاست گائے کی کمر پر کھڑی ہے اور سہارے کے لیے اس کی دُم پکڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی اپنی گؤ رکشا کی سیاست کو روزگار کی سہولت کے لیے بھی استعمال کرسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہر گائے کی رکشا کے لیے دو بے روزگار نوجوان بھرتی کرلیے جائیں۔ ایک دن بھر گاؤ کی رکشا کرے دوسرا رات بھر۔ ان سرکاری اہل کاروں کے لیے ’’بچھڑے‘‘ کا نام مناسب رہے گا۔

ہم دوسرے کے معاملے میں سر زیادہ کیوں کھپائیں، یہ سوچ کر ہم نے بس سرسری سی تحقیق کی تو پتا چلا کہ بھارت میں 7 کروڑ 67 لاکھ گؤماتائیں ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ گائیں اپنے الگ ملک یا الگ صوبے کا مطالبہ کر سکتی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ جب ہم اپنا دودھ بیچ کر ایک پورے ملک کی معیشت چلاسکتی ہیں تو اے بھارتیو! تمھیں اپنے کاروبار میں ’’دودھ شریک‘‘ کیوں بنائیں۔ ہوسکتا ہے بھارتی گایوں کے دماغ میں یہ خیال آیا ہو، لیکن کسی عقل مند بیل نے انھیں سمجھایا ہو،’’پگلا گئی ہو کیا! جب بھارت میں مذہبی اقلیتوں سے زیادہ مزے کر رہی ہو تو الگ ملک لینے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

بہ ہرحال یہ گایوں کا معاملہ ہے جو چاہے فیصلہ کریں۔ ہم تو بس اتنا کہہ رہے تھے کہ ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ گؤماتاؤں کی رکشا کے لیے لگ بھگ پندرہ کروڑ بے روزگاروں کو ملازمت دینے سے ملک میں بے کاری کا مسئلہ آناً فاناً حل ہوجائے گا۔ یقیناً بھارتی سرکار اس مشورے پر عمل کرے گی اور اتنا شان دار آئیڈیا دینے پر ہمیں ’’پاکستانی گُڈ گائے‘‘ قرار دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔