افغان جنگ خاتمے کے مرحلے میں

ظہیر اختر بیدری  پير 11 فروری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

دور حاضرکے سب سے بڑے جنگ باز ڈونلڈ ٹرمپ نے سی بی ایس کے پروگرام ’’ فیس دی نیشن‘‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ طالبان امن چاہتے ہیں اور ہم بھی اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے بے زار ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ افغان جنگ میں جان و مال کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد اب فریقین اس جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ طالبان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ طالبان امن چاہتے ہیں وہ جنگ سے تھک چکے ہیں بلکہ ہرکوئی تھک چکا ہے ٹرمپ نے کہا کہ ’’ ہم اپنی فوجوں کوگھروں کو واپس لانا چاہتے ہیں، افغانستان میں ہماری انٹیلی جنس رہے گی، اگرکوئی مسئلہ ہوگا تو دیکھ لیں گے۔‘‘

شام کے حوالے سے  ٹرمپ نے کہا کہ ’’ ہم دو ہزار امریکی فوجی وہاں سے نکال لیں گے، تاہم اسرائیل کے تحفظ اور مقاصد کو سامنے رکھا جائے گا۔ ہم عراق میں اپنے اڈے ختم نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایران پر نگرانی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں سے پورے مشرق وسطیٰ پر ہماری نظر رہتی ہے۔‘‘امریکا اور طالبان کے مذاکرات کا دوسرا دور رواں ماہ دوحہ میں ہونے کی توقع ہے۔ آیندہ مرحلے میں افغانستان میں دو عشروں سے ہونے والی جنگ کے خاتمے کی تجاویز پر تفصیلی غورکیا جائے گا ۔

گزشتہ ماہ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں جہاں امید پیدا ہوئی ، وہاں اندیشوں نے بھی جنم لیا ، ان مذاکرات کی بنیاد دو مرکزی نکات تھے ۔ پہلا امریکی افواج کے انخلا کی ٹائم لائن دوسرا یہ کہ مغرب اور دیگر ممالک کے خلاف دہشتگرد گروپ افغان سرزمین کو دوبارہ استعمال نہ کرسکیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ 20 سال سے مستقل لڑی جانے والی جنگ میں جہاں  لاکھوں جانیں ضایع ہوئیں ، متحارب ملکوں کا تھک جانا، ایک فطری بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان جنگ کا آغازکیوں اور کس نے کیا اور افغانستان کی 20 سالہ جنگ میں جو جانی ومالی نقصان ہوا ، اس کا ذمے دار کون ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا، اس لیے ضروری ہے کہ اس جنگ میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے علاوہ اربوں ڈالرکا نقصان بھی ہوا۔

روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا نے پاکستان میں طالبان کی کاشت کی انھیں پاکستان ہی میں فوجی ٹریننگ دی گئی اور پھر انھیں روس کو افغانستان سے نکالنے کی جنگ میں الجھا دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس اگر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ تھا تو روس کو افغانستان سے نکالنے کی ذمے داری امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کی تھی لیکن اس زمانے کے پرامن افغان طالبان کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر افغان جنگ میں روس کے خلاف استعمال کرکے انھیں جنگ کی عملی تربیت دی گئی اور پرامن طالبان کو جنگ سے نہ صرف واقف کرایا گیا بلکہ انھیں جنگ کی عملی ٹریننگ دے کر جنگجو بنادیا گیا۔

کیا روس کے ساتھ طالبان کے اختلافات تھے، ظاہر ہے طالبان کے روس کے ساتھ کوئی اختلافات نہ تھے انھیں مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ امریکا اور مغرب کے فوجی ماہرین جانتے تھے کہ افغانستان جیسے پہاڑی علاقے میں جنگ لڑنا مغربی افواج کے لیے ممکن نہیں ۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر مغرب کے فوجی ماہرین نے افغان طالبان کو استعمال کیا۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے سابق امریکی صدر بش جونیئر نے اس جنگ میں جبری طور پر پاکستان کو بھی گھسیٹا اور اس جنگ میں پاکستان کی شرکت سے طالبان پاکستان کے خلاف ہوگئے اور دہشتگردی کا وہ سلسلہ شروع ہوا ، جس میں 70 ہزار پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پاکستان جیسے غریب ملک کا دو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اب جب کہ افغان جنگ 20 سال کی خونریزی کے بعد ختم ہونے جا رہی ہے اور امریکا طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا طالبان سے اس جنگ کے خاتمے کے حوالے سے جو  مذاکرات کر رہا ہے ان مذاکرات میں دو بنیادی نکات پر گفتگو ہوگی ۔

پہلا نکتہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی ٹائم لائن ، دوسرا یہ کہ مغرب اور دیگر ممالک کے خلاف دہشتگرد گروپ افغان سرزمین کو دوبارہ استعمال نہ کرسکیں۔ یہ دونوں نکات درست ہیں لیکن اصل نکات یہ ہونے چاہئیں کہ افغانستان میں جنگ کا آغازکس نے کیا؟ اس کے مقاصد کیا تھے اور افغانستان جنگ میں پاکستان کو زبردستی کیوں گھسیٹا گیا اور 70 ہزار پاکستانیوں کی جان اور دو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان کا ذمے دارکون ہے؟ اور ذمے دارکوکیا سزا ملنی چاہیے؟

امریکی صدر ٹرمپ نے فرمایا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی انٹیلی جنس رکھیں گے، شام سے نکل جائیں گے لیکن عراق میں رہیں گے۔ امریکا نے عراق پر قبضہ کیا اور قبضے کے دوران عراق کے صدر صدام حسین کو سزائے موت دے کر انھیں پھانسی پر لٹکا دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عراق پر امریکی حملہ اور قبضہ جائز تھا؟ کیا عراق کے سابق صدر صدام حسین کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کا امریکا کو اختیار تھا؟

ٹرمپ کا ارشاد ہے کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں گے لیکن افغانستان میں اپنی انٹیلی جنس رکھیں گے ، تاکہ وہاں سے سارے مشرق وسطیٰ پر نظر رکھی جاسکے ۔ افغان قوم ایک آزاد قوم ہے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے افغانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ،کیا وہ افغانستان میں امریکا کی انٹیلی جنس کو قبول کریں گے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جس کے منصفانہ جوابات پر افغانستان اور دنیا کے امن کا دار و مدار ہے ۔

اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا افغان جنگ کا فریق ہے ،کیا کسی جنگ کے فریق کو یہ اختیار دیا جاسکتا ہے کہ وہ جنگ زدہ ملک میں اپنی انٹیلی جنس رکھ کر وہاں سے پورے مشرق وسطیٰ پر نظر رکھے؟ یہ کام اقوام متحدہ کا ہے ، اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے کہ افغانستان میں امن قائم رکھے،کسی فریق کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ کی نگرانی کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔