ذیشان کا تعلق داعش سے، کئی کارروائیوں میں سہولت کار تھا، سابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی

عمر یعقوب  پير 11 فروری 2019
رائے طاہر جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں مبینہ دہشت گرد ذیشان کی لاہور میں عدم گرفتاری سے متعلق کوئی مناسب جواب نہیں دے سکے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

رائے طاہر جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں مبینہ دہشت گرد ذیشان کی لاہور میں عدم گرفتاری سے متعلق کوئی مناسب جواب نہیں دے سکے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

لاہور: سابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ ذیشان کا تعلق داعش سے تھا اور وہ کئی کارروائیوں میں سہولت کار بھی تھا۔

سانحہ ساہیوال کیلیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے سی ٹی ڈی کے ملوث اہلکاروں اور آپریشن کے دوران فون پر رابطے میں رہنے والے افسران کے بیانات قلمبند کرانے کاسلسلہ جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر جمعرات کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، انھوں نے بتایاکہ ساہیوال آپریشن سے 2 روز قبل 17جنوری کو ذیشان کی گاڑی کا نمبرLEA6683-12 سیف سٹی اتھارٹی کی واچ لسٹ میں شامل کرا دیاگیاتھا۔

انہوں نے بتایا کہ کہ 19جنوری کو صبح 9:30 بجے گاڑی نے مانگا منڈی کو عبور کیا توسیف سٹی کیمروں نے الرٹ جاری کردیا جس پر سیف سٹی انتظامیہ نے سی ٹی ڈی کو گاڑی شہرسے باہرجانے کی اطلاع دی، حکام نے بلاتاخیر لاہورسے ایک ٹیم ایس ایس پی جواد قمرکی سربراہی میں ان کے پیچھے روانہ کی جبکہ دوسری جانب ساہیوال میں بھی سی ٹی ڈی ٹیم کوسفید گاڑی سے متعلق آگاہ کیاگیا، جیسے ہی مشتبہ گاڑی نے ساہیوال ٹول پلازا کراس کیا تو سی ٹی ڈی ساہیوال کی ٹیم نے تعاقب شرو کردیا اور قادرآباد پہنچتے ہی گاڑی روکنے کیلیے ٹائروں پر گولیاں ماریں لیکن اس کے باوجود ذیشان نے گاڑی نہیں روکی۔

سابق ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ آپریشنل ٹیم کو خدشہ تھاکہ گاڑی میں موجود چاروں افراد دہشت گرد ہیں اور وہ تخریب کاری کیلیے خودکش جیکٹس اور دھماکا خیزمواد ساتھ لے جارہے ہیں، گاڑی کے بائیں جانب پچھلے دروازے کے شیشہ پرکالا رنگ ہونے کی وجہ سے اہلکاروں کو بچوں کی موجودگی کاعلم نہ ہوسکا، فائرنگ شروع ہوتے ہی اگلی سیٹ پربیٹھے مہر خلیل نے اپنی بیٹی منیبہ اور پچھلی سیٹ پر اس کی بیوی نبیلہ نے باقی دونوں بچوں عمیر اور ہادیہ کوفوری طورپر اپنے پیروں میں بٹھالیا، ان کے نیچے جھکنے کی وجہ سے آپریشنل ٹیم کو تاثر ملا کہ وہ بارودی مواد کی مددسے حملہ کرنے لگے ہیں جس کے فوری بعد اہلکاروں نے فرنٹ اسکرین پرفائرکیے، 2سے 3گولیاں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ذیشان کولگیں اور گاڑی دیوار سے جاٹکرائی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سی ٹی ڈی ٹیم نے شیشے ٹوٹنے کے بعد بچوں کو دیکھتے ہی فائرنگ روک لی اورانھیں گاڑی سے باہرنکالا، اس دوران اہلکاروں کو پچھلی سیٹ پر زخمی حالت میں بیٹھی اریبہ پرشک ٹھہراکہ اس نے خودکش جیکٹ پہن رکھی ہے، اسی خدشے کی وجہ سے بچوں کوگاڑی سے نکالتے ہی دوبارہ فائرنگ کرنا پڑی جس سے گاڑی میں موجود چاروں افرادکی موت واقع ہوگئی، آپریشن مکمل کرنے کے بعد سی ٹی ڈی ٹیم تینوں بچوں کو ساتھ لے کر اسپتال چھوڑ آئی۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشنل آئی جی رائے طاہر مقتول ذیشان سے متعلق ملنے والی معلومات کی بنیادپر ابھی تک اسے دہشت گرد قرار دے رہے ہیں، ان کادعویٰ ہے کہ ذیشان کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے ہے اور وہ دہشت گردوں کیلیے بطور سہولت کارکئی کارروائیوں میں حصہ لے چکاتھا۔ سی ٹی ڈی کے سابق سربراہ رائے طاہر جے آئی ٹی کو مبینہ دہشت گرد ذیشان کی لاہورمیں عدم گرفتاری سے متعلق کوئی مناسب جواب نہ دے سکے۔

دوسری جانب سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثاکوحساس اداروں کے خلاف استعمال کرنے کی چال کامیاب نہ ہوسکی، خلاف نعرے بازی دیکھ کر احتجاج کیلیے مال روڈ پر آئے متاثرین گھروں کو واپس چلے گئے، مقامی کالج کے پروفیسر اور طالب علم ایک ہفتہ قبل متاثرین کے گھر گئے اور انھیں اتوار کے روز انصاف کے حصول کیلیے مال روڈ پر ریلی نکالنے کا کہا جس پر ورثا تیار ہوگئے۔

واضح رہے کہ طلبا اور پروفیسرز کے اسی گروپ کے چند افراد کے خلاف تھانہ گلبرگ میں حساس اداروںکے خلاف نعرے بازی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مقدمہ بھی درج ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھاکہ ریاستی اداروں کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ، انھوں نے ہمیں استعمال کرنے کی کوشش کی، ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے اور واقعے کی تحقیقات کیلیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔