سائبیریا سے مہمان پرندوں کی آمد میں 70 فیصد کمی

سید اشرف علی  منگل 12 فروری 2019
زولوجیکل سروے اور سندھ وائلڈ لائف کے مطابق سندھ کی جھیلوں تک آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

زولوجیکل سروے اور سندھ وائلڈ لائف کے مطابق سندھ کی جھیلوں تک آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

 کراچی: سائبیریا اور دیگر سرد خطوں سے پاکستانی آبی ذخائر پر آنے والے پرندوں کی تعداد میں تشویشناک کمی ہوئی ہے۔ موسمِ سرما کی پرندہ شماری کے مطابق پاکستان کی 12 بڑی آب گاہوں ، جھیلوں اور دیگر مقامات پر اس سال صرف 150,000 مقامی اور مہمان پرندے دیکھے گئے اور سال 2017 سے 2018 کے درمیان ان کی تعداد 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی آمد کا سلسلہ اگست کے اختتام تک شروع ہوتا ہے اور فروری میں وہ اپنے گھروں کو واپسی کے لیے اڑان بھرتے ہیں اور مارچ تک یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے۔

سائبیریا میں درجہ حرارت اگر منفی 30 درجے سینٹی گریڈ  تک گرجائے تو پرندے گرم علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ پرندے جس راہ سے پاکستان آتے ہیں اسے ’فلائی وے فور‘ یا ’گرین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ سائبیریا سے افغانستان اور پھر پاکستان آتے ہیں اور دریا سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف کے گیم افسر رشید احمد نے بتایا کہ پورے پاکستان میں 19 مقامات پر پرندے اترتے ہیں جن میں سے 10 سندھ میں واقع ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے پرندے ٹھٹھہ، رن آف کچ اور تھر کے ساحلی علاقوں تک جاتے ہیں۔ وہاں سے دھیرے دھیرے جھیلوں کا رخ کرتے ہیں۔ کئی پرندے ہالیجی، کینجھر اور ہڈبرو جھیل میں رکتے ہیں۔ اسی طرح لاڑکانہ میں واقع لنگھ، ڈرگھ جھیلوں اور ضلع قمبر کی حمل جھیل کو یہ پرندے اپنا عارضی گھر بناتے ہیں۔ اس طرح سندھ کے زیریں اور بالائی علاقوں میں ان کا مسکن اور کھانا ہوتا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ اور زولوجیکل سروے آف پاکستان کے ماہرین نے ہاکس بے سمیت سندھ کی 12 اہم جھیلوں کا سروے کیا جن میں کینجھر، ہالیجی، ہڈیرو، لنگھ، حمل، منچھر، ڈیہائی آکڑو اور نراردی مہرانو کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں 64 مقامی اور مہمان انواع نوٹ کی گئیں جن کی تعداد لگ بھگ 153,916 شمارکی گئی۔

ماہرین نے پرندوں کی تعداد میں ہوش ربا کمی کی کئی وجوہ بتائی ہیں۔ ورلڈ وائلڈلائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے سینیئرمشیر معظم خان نے کہا بدین میں میٹھے پانی کی دو اہم جھیلیں بری طرح تباہ ہوچکی ہیں۔ سونامی کی وجہ سے جھابو اور ناردری کا پانی کھارا ہوچکا ہے۔ ان جھیلوں میں پانی کا معیار بدلنے سے پودے اور آبی جاندار شدید متاثر ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدین کی دونوں جھیلیں برباد ہونے سے اب ناردری پر صرف 4,601 پرندے ہی آئے ہیں اور یہ کبھی پرندوں کے لیے بہترین جھیل ہوا کرتی تھی۔ معظم خان نے کہا کہ پانی کے راستوں کو میٹھے پانی سے بھرنا ضروری ہے تاکہ جھیلوں کو تباہی سے بچایا جاسکے۔

ضلع بدین کے گیم انسپیکٹر علی محمد نظامانی کے مطابق کم بارش، ندیوں میں پانی کی کمی، جھیلوں میں زہریلی ادویہ کے چھڑکاؤ اور دیگر وجوہ کی بنا پر مہمان پرندے پڑوسی ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔

انسانی مداخلت

معظم خان نے مزید کہا کہ سندھ کی آب گاہوں پر انسانوں کا راج ہے جہاں مکانات بنائے گئے ہیں یا وہاں زراعت یا مچھلی فارم بنادیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پرندوں کے جال اور بے دریغ شکار بھی پرندوں میں کمی کی اہم وجوہ میں شامل ہے۔

صرف 13 مقامات پر شکار کی اجازت دی گئی ہے جبکہ 34 مقامات پر مہمان پرندوں کی وجہ سے شکار سختی سے ممنوع ہے لیکن گزشتہ 3 ماہ سے اس کی خلاف ورزی جاری ہے اور بے دریغ شکار کیا جارہا ہے۔

ایک شکاری کا اعتراف

پرندوں کے ایک ماہر شکاری نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ 1984 میں پرندوں کی بڑی تعداد سندھ میں آتی تھی اور اس کے بعد شکار شروع ہوگیا۔ پہلے چند مقامات پر شکار ہوتا تھا اب شکار ہر جگہ جاری ہے۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ ایک عشرے سے ٹنڈوآدم خان، سجاول، کینجھر جھیل اور دیگر مقامات پر سرمایہ دار اور طاقتور وڈیرے شکار کھیلتےہیں۔ اس کے لیے ایک کلومیٹر پر خاص بنکر بنائی جاتی ہیں۔ ایک کچھار کو پانچ سے آٹھ شکاری استعمال کرتے ہیں جبکہ ایک مورچہ 150, 000 روپے میں فروخت ہوتا ہے اور اکثر شکاری نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو مارتے ہیں۔

ایک سماجی کارکن سلمان بلوچ نے کہا کہ جال لگانے کا عمل شکار سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بدین ٹھٹھہ، سجاول سمیت دیگر علاقوں میں لوگوں نے مچھلی کے فارم بنارکھے ہیں اور وہاں آنے والے پرندے جال لگا کر پکڑے جارہے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے کنزرویٹو تاج محمد شیخ نے اسٹاف اور ٹرانسپورٹ کی کمی کو اس کی اہم وجہ بتائی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مہمان پرندوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جارہا ہے۔ جال لگانے یا نیٹنگ کا عمل غیرقانونی ہے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔ اسی طرح ناجائز شکار کے خلاف بھی شخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔