یہ تبدیلی چھوٹی نہیں

جاوید چوہدری  منگل 12 فروری 2019
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

آپ علیم خان کی گرفتاری کے بارے میں تین تھیوریاں ملاحظہ کیجیے۔

پہلی تھیوری کا ماخذ وزیراعلیٰ ہائوس پنجاب کا ایک ویٹر ہے‘ ویٹر نے یہ بات اپنے ساتھیوں کو سنائی‘ ساتھیوں نے یہ بات پورے لاہور میں پھیلا دی اور یہ وہاں سے ملک کے تمام مقتدر حلقوں تک پہنچ گئی‘ ویٹر کے بقول 3فروری کووزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ون آن ون ملاقات چل رہی تھی‘ میں چائے دینے کے لیے اندر گیا۔

میں نے سنا عثمان بزدار عمران خان سے کہہ رہے تھے‘ یہ دو لوگ مجھے چلنے نہیں دے رہے‘ یہ میرے سامنے بھی میری مخالفت کرتے ہیں اور پیچھے بھی‘ یہ میڈیا کو بھی میرے بارے میں مواد دیتے رہتے ہیں اور یہ بیورو کریٹس کوبھی اکساتے رہتے ہیں‘ عمران خان نے یہ سن کر وزیراعلیٰ کو تسلی دی اور صبر کی تلقین کی‘ ملاقات کے دو دن بعد 6 فروری کو نیب نے علیم خان کو گرفتار کر لیا اور یوں عثمان بزدار کے راستے کا پہلا کانٹا نکل گیا۔

دوسرا کانٹا کب نکلتا ہے لوگ اب اس کا انتظار کر رہے ہیں‘ یہ پہلی تھیوری تھی‘ آپ اب دوسری تھیوری بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ تھیوری لاہور کے اعلیٰ بقراطی حلقوں میں گردش کر رہی ہے‘ لاہوری بقراط کہتے ہیں عثمان بزدار نے پورے ملک کے چھکے چھڑا دیے‘ پنجاب میں چھ ماہ میں مکمل ریورس گیئر لگ چکا ہے‘ دھیلے کا کام نہیں ہوا‘ پنجاب حکومت اورنج لائن ٹرین اور پی کے ایل آئی تک نہیں چلا سکی۔

یہ صورت حال ملک کے مقتدر حلقوں کے لیے قابل قبول نہیں‘ ان کا خیال ہے یہ حالات اگر مزید چھ ماہ جاری رہے تو پنجاب پورے ملک کو لے کر بیٹھ جائے گا چنانچہ ان حلقوں نے وزیراعظم پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا‘ یہ عثمان بزدار کو ہٹوا کر علیم خان کو وزیراعلیٰ بنوانا چاہتے تھے‘ چوہدری صاحبان اور ن لیگ بھی درپردہ علیم خان کے حق میں تھی‘ وزیراعظم کا خیال تھا وقت کے ساتھ ساتھ اس دبائو میں اضافہ ہو گا لہٰذا علیم خان گرفتار ہو گئے اور یوں مضبوط کانٹا نکل گیا‘ یہ دوسری تھیوری تھی اور آپ اب تیسری تھیوری بھی ملاحظہ کیجیے۔

حکومتی وزراء کا خیال ہے علیم خان کی گرفتاری ’’بیلنسنگ ایکٹ‘‘ ہے‘ اپوزیشن بار بار نیب کو حکومت کا ان ہولی الائنس (غیر مقدس اتحاد) قرار دیتی تھی‘ یہ لوگ یہ بھی کہتے تھے نیب پاکستان تحریک انصاف کی لانڈری اور بی ٹیم ہے چنانچہ نیب نے یہ الزامات دھونے اور احتساب کے عمل کو متوازن کرنے کے لیے حکومت کے سینئر وزیر کو بھی گرفتار کر لیاجس کے بعد اپوزیشن اب نیب کو جانبدار قرار نہیں دے سکتی۔

دوسرا نیب چند بڑی شخصیات کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے‘ یہ لوگ بہت جلد گرفتار ہوجائیں گے‘ ان میں آصف علی زرداری‘ فریال تالپور‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ شاہد خاقان عباسی‘ رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب شامل ہیں‘ نیب نے ان گرفتاریوں سے پہلے حکومت کے سینئر وزیر کو حراست میں لے کر بھی توازن قائم کر دیا۔

یہ تینوں تھیوریاں اس وقت مارکیٹ میں موجود ہیں اور ان تینوں کے ٹھیک ٹھاک سپورٹر بھی ہیں لیکن میں ان تینوں سے اتفاق نہیں کرتا‘ میں سمجھتا ہوں یہ تھیوریز اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے حکومت وقت کا سینئر وزیراس وقت نیب کی حراست میں ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں‘ نیب کا ادارہ اس وقت گرم پانیوں میں پھنسا ہوا ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی ہو‘پاکستان مسلم لیگ ن ہو یا پھر حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہو یہ تمام جماعتیں نیب پر دبائو بھی ڈال رہی ہیں اور یہ نیب کے قوانین میں ترمیم بھی کرنا چاہتی ہیں۔

ملک کی تینوں پارٹیوں میں اس وقت نیب کے خلاف خفیہ گٹھ جوڑ چل رہا ہے‘ اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے نیب کے اچھے کام بھی ڈسٹ بن کی نظر ہو جاتے ہیں‘ یہ اس وقت بہت بڑا المیہ ہے‘ میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوںعمران خان اور میاں نواز شریف دونوں نیب قوانین میں ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔

عمران خان تمام چوروں کو جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ یہ نیب لاز کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف کا خیال ہے’’ میرا جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے‘ میں جیل بھی جا چکا ہوں‘ میری حکومت بھی ختم ہو چکی ہے‘ میں ڈس کوالی فائی بھی ہو چکا ہوں اور میں اپنی اہلیہ کو بھی کھو چکا ہوں‘ یہ لوگ مجھے مزید کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں چنانچہ میں چاہتا ہوں یہ لوگ بھی اب نیب کی چکی کے نیچے سے گزریں‘ یہ بھی مزہ چکھیں‘‘ میاں نواز شریف اور عمران خان کی سوچ اور آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے اعتراضات کی وجہ سے نیب کا کردار دھندلا ہو گیا اور ہم اب اسے اس کاجائز حق بھی نہیں دے رہے۔

چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاویداقبال کی اچھائیاں اور کامیابیاں بھی اس سیاست بازی کی نذر ہو رہی ہیں‘ ہم جس دن ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ چند حقائق دیکھیں گے تو ہمیں نیب اتنا برا نہیں لگے گا جتنا ہم اسے اس وقت محسوس کر رہے ہیں‘ مثلاً ہمیں ماننا ہو گا کرپشن ہمارے پورے سسٹم کی نسوں کا حصہ ہے‘ آپ کو اوپر سے لے کر نیچے تک پورا سسٹم کرپٹ ملے گا‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں لوگوں نے قرآن مجید چھاپنے کے نام پر لوگوں کو لوٹ لیا تھا‘ جس میں مفتی صاحبان نے لال مسجد کا نام لے کر مضاربہ بنایا اور یہ نمازیوں کے اربوں روپے کھا گئے‘ جس میں ڈبل شاہ جیسے شخص نے چھ شہروں کو کنگال کر دیا اور جس میں انور مجید جیسے کاریگر ریگولربینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرتے رہے۔

ہم اس وقت دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہیں جن کے شیڈولڈ بینک منی لانڈرنگ میں ملوث نکل آئے ہیں‘ جس ملک میں کرپشن کا یہ لیول ہو‘ جس میں لوگ مسجدوں سے جوتے اور پنکھے چوری کر لیتے ہوں اور حاجیوں کے حج کی رقم کھا جاتے ہوں آپ فیصلہ کیجیے اس میں اگر نیب جیسا ادارہ بھی نہ ہو تو صورتحال کیا ہو گی؟ جس ملک میں سیکریٹری خزانہ کے گھر سے 65 کروڑ روپے نکل آئیں اور ایمبیسیاں جعلی پاسپورٹس بنانے کے دھندے میں ملوث ہوں وہاں اگر جسٹس(ر) جاوید اقبال بھی نہیں ہوگا تو حالات کہاں تک چلے جائیں گے؟

ہمیں ماننا ہوگا ہمارے ملک میں کرپشن بھی ہے اور اس کرپشن میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے چنانچہ میں دل سے سمجھتا ہوں نیب جیسے ادارے قائم بھی رہنے چاہئیں اور ان کے قوانین بھی سخت ہونے چاہئیں ‘ تاہم سسٹم میں چند تبدیلیاں بھی ضروری ہیں‘ مثلاً نیب جب تک اپنی تفتیش مکمل نہ کر لے‘یہ ریفرنس تیار نہ کر لے یہ ملزم کو گرفتار نہ کرے‘ چیئرمین کے پاس حراست کا اختیار بھی نہیں ہونا چاہیے اور نیب کو بزنس مینوں اور بیورو کریٹس کو بھی اس وقت تک گرفتار نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود نہ ہوں۔

ہمیں ماننا ہوگا کمزور ثبوتوں کی وجہ سے معاشی مارکیٹ میں بھی انتشار پھیلتا ہے اور بیورو کریسی کا مورال بھی ڈائون ہوتا ہے اور اس کا ملک کو نقصان پہنچتا ہے‘ نیب کو باعزت پیشوں مثلاً محکمہ تعلیم‘ صحت اور مذہب سے منسلک سینئر عہدیداروں کا احترام بھی کرنا چاہیے‘ پروفیسر گناہ گار بھی ہو سکتے ہیں اور کرپٹ بھی لیکن آپ جب ان کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کریں گے یا پھر ان کو گندے سیلز میں رکھیں گے تو اس سے معاشرے میں استاد کی تذلیل ہو گی اور یہ رجحان ٹھیک نہیں‘ کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ باعزت پیشوں کا احترام بھی ہماری ذمے داری ہے اور ہمیں خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دینا چاہیے‘ نیب کے قوانین میں یہ تبدیلیاں ہونی چاہئیں‘ اس سے کرپشن فری پاکستان ممکن ہو سکے گا۔

میں یہاں چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال کی تعریف بھی کرنا چاہتا ہوں‘ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں مضاربہ اسکینڈل میں چار ہزار ایک سو 56 لوگوں نے شکایت کی‘ جسٹس جاوید اقبال نے ذاتی دلچسپی لے کر نہ صرف 44 بااثر ملزم گرفتار کرائے بلکہ ان سے 616 ملین روپے اور 6 ہزار کنال زمین ریکور کرا کر متاثرین کے حوالے کی‘ یہ بظاہر ایک چھوٹی سی نیکی تھی‘ یہ نیکی چار ہزار خاندانوں کی زندگی ثابت ہوئی۔

جسٹس جاوید اقبال اب تک ہائوسنگ اسکیموں کے ڈسے ہوئے ہزاروں لوگوں کو بھی ریلیف دے چکے ہیں‘یہ لوگ جھولی پھیلا پھیلا کر انھیں دعائیں دیتے ہیں اور یہ بھی شاید ہم سب کے لیے انکشاف ہو گا جسٹس(ر) جاوید اقبال نے پہلی بار اسلام آباد میں فرانزک لیب بنوائی‘ اس لیب میں فنانشل کرپشن کے ثبوتوں کا فزانزک ٹیسٹ بھی ہوتا ہے اور دستاویزات کی پڑتال بھی اور فنگر پرنٹس کی میچنگ بھی۔

نیب نے پچھلے13 ماہ میں 3919 ملین روپے کی ریکوری کی‘561 ملزمان گرفتار کیے‘2125 شکایات کی تصدیق‘ 1059کی انکوئری ‘302 شکایات کی تفتیش اور مختلف احتساب عدالتوں میں 590 ریفرنسز دائرکیے ‘اس وقت احتساب عدالتوں میں 900 ارب روپے کے 1280 ریفرنسززیرسماعت ہیں‘ یہ بڑی اچیومنٹس ہیں لیکن یہ اچیومنٹس سیاسی گرد میں چھپ کر رہ گئی ہیں اور ہم نیب کے خلاف پراپیگنڈے میں اس ادارے کی یہ خوبصورتیاں اور یہ کامیابیاں فراموش کر بیٹھے ہیں‘ ہم خواہ کچھ بھی کر لیں ہم علیم خان کی گرفتاری کو کسی کے کھاتے میں بھی ڈال دیں لیکن پھر بھی یہ حقیقت حقیقت ہی رہے گی نیب نے بہرحال پنجاب کے سینئر وزیر کو عین اس وقت گرفتار کیا جب اس کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر چمک رہا تھا۔

جب پوری دنیا اسے پارٹی کی اے ٹی ایم قرار دے رہی تھی‘ یہ سینئر وزیر اس وقت نیب کی حراست میں ہے جب اس کی پارٹی تین صوبوں اور وفاق میں حکمران ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں‘ پاکستان جیسے ملکوں میں یہ کب اور کہاں ہوتا ہے‘ نیب میں اس وقت ایک صدر اور پانچ وزرائے اعظم کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں اور یہ لوگ عدالتوں میں بھی بلوائے جاتے ہیں‘ یہ تبدیلی بھی چھوٹی نہیں‘ ہمیں اس تبدیلی کو بھی تسلیم کرنا ہو گا اور نیب جیسے اداروں کا احترام بھی تاہم تبدیلی‘ توسیع اور ترقی کی گنجائش ہر وقت اور ہر جگہ موجود رہتی ہے‘ نیب کے سسٹم میں بھی امپروومنٹ کی ضرورت ہے لیکن صرف سیاست کی وجہ سے یہ ادارہ بند نہیں ہونا چاہیے‘ یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔