- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو 10 سال بعد بری کردیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفند یار کو 10 سال بعد بری کرتے ہوئے مجسٹریٹ کو 22 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ایسے کیس دیکھ کربہت افسوس ہوتا ہے، جنہوں نے قانون پر عمل کرنا ہے ان سے پوچھنا تو چاہیے، کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی ٹریننگ نہیں ہوتی، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے فیصلہ کرتے وقت قانون کو کیوں نہیں دیکھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے، ملزم اصلی اور شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے ملزم گرفتار ہوا پھر شہادتیں بنائی گئیں اگر ہم بھی آنکھیں بند کر دیں تو قانون کدھر جائے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہا کہ پولیس ملزم تک کیسے پہنچی۔ وکیل نے کہا کہ اطلاع پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا، ملزم کی گرفتاری کے بعد پتا چلا کہ اس نے لاش نہر میں پھینکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گواہ کہتا ہے کہ اس نے چار بندوں کو نہر میں لاش پھینکتے ہوئے دیکھا، دوسرے گواہ کے مطابق دو بندوں نے لاش کو نہر میں پھینکا۔
بعد ازاں عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے ملز کو بری کیا جاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ درست نہیں کی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔ سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفند یار کو 10 سال بعد بری کرتے ہوئے مجسٹریٹ کو 22 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
واضح رہے لاہور کے رہائشی عادل بٹ کو 2009 میں قتل کر کے اس کی لاش کو نہر میں پھینک دیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ نے ملزم اسفندیار کو سزائے موت سنائی جب کہ ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔