وقت کی ضرورت ، لیاری ضلع کا قیام

شبیر احمد ارمان  بدھ 13 فروری 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

لیاری کو آباد ہوئے تین سو سال سے زائدکا عرصہ گزر چکا ہے ، لیاری کوکراچی کی ماں کا رتبہ حاصل ہے، قومی مردم شماری 2017ء کے مطابق لیاری سب ڈویژن کی آبادی 662816 ہے جب کہ قومی مردم شماری 1998ء کے مطابق لیاری ٹاؤن کی آبادی 594966 شمار کی جاتی رہی ہے۔لیاری منی پاکستان ہے جہاں تمام قومیت کے لوگ امن و بھائی چارگی کی فضاء میں رہتے ہیں۔

لیاری میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں ۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی واحد نشست پاکستان تحریک انصاف نے اورصوبائی نشستوں میں ایک نشست مجلس عمل اور ایک نشست تحریک لبیک نے جیتی ہے،جو اب ایم این اے اور ایم پی ایزکہلاتے ہیں۔ لیاری میں چار تھانے ہیں جن میں کلاکوٹ، چاکیواڑہ، بغدادی اورکلری تھانہ شامل ہیں۔

لیاری میں ایک یونیورسٹی، لڑکے اور لڑکیوں کے لیے کالجز ، اسکولز، لائبریریزاور پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ اور میڈیکل کالج بھی ہیں۔ لیاری میں سندھ حکومت کا ایک جنرل اسپتال، نرسنگ انسٹیٹیوٹ، ایک جنرل پاکستان پوسٹ (ڈاک خانہ) ، ڈی ایم سی ساؤتھ اور نجی سطح پر میٹرینٹی ہومز، اسپتال وکلینک، نجی اسکولز،ایک ٹیلی فون ایکسیج، ڈومیسائل دفتر، لیز دفتر، فٹبال اسٹیڈیم، فٹبال گراؤنڈز، بچوں کے پارک ،لیاری سب ڈویژن دفتر، واٹر اینڈ سیوریج پمپنگ اسٹیشنز اپنا وجود رکھتے ہیں اور حکومتیں دعویدار بھی رہی ہیں کہ ہم نے لیاری میں ترقیاتی کام کیے ہیں۔ پھر آخرکیا وجہ ہے کہ لیاری کے لوگ ہمیشہ حکومتوں سے شاکی رہے ہیں کہ لیاری مسائلستان ہے؟

عرض یہ ہے کہ لیاری گنجان آبادی پر مشتمل علاقہ ہے یہاں تنگ وتاریک گلیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے گھر و مکان چھوٹے چھوٹے پلاٹ پر تعمیر ہیں جہاں دوسے چھ خاندان مشترکہ بسنے پر مجبور ہیں، جب کہ فلیٹ سسٹم بھی ہے جو دس دس بارہ بارہ منزلوں پر مشتمل ہیں جب کہ لیاری میں 1970ء کی دہائی سے دومنزلہ عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد ہے،اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی اور ناقص انتظامی معاملات کی وجہ سے علاقے میں پینے کے پانی کی کمیابی کی شکایت رہتی ہے۔

سیوریج پائپ لائن پھٹ جاتی ہیں پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے اور یہ گندہ پانی، پینے کے پانی کی لائنز میں شامل ہوجا تا ہے، سیوریج لائن کے مین ہولز کیوں بند ہوجاتے ہیں اس کا ایک سبب عملے کی بددیانتی بھی ہے جو ان مین ہولز میں بوری، پتھر،ٹین ڈبے، پلاسٹک کی تیلیاں ڈال کر بند کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے گھروں کی سیوریج لائن بند ہوجا ئیں، ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ لوگ انھیں کھلوانے کے لیے انھیں ہی طلب کرتے ہیں جس کا وہ الگ سے معاوضہ لیتے ہیں۔

پہلے ہی سے لیاری بھر میں صفائی کے عملے کی کمی کی وجہ سے صفائی ستھرائی کی صورت حال تسلی بخش نہیں تھی اب صفائی کی ذمے داری ڈی ایم سی ساؤ تھ سے لے کر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی سپرد کردی گئی ہے جو ٹھیک طرح سے اپنی ذمے داری نبھانے سے قاصر ہے جس سے منتخب بلدیاتی نمایندے بھی نالا ںہیں اس پر طرہ یہ کہ سندھ حکومت نے کچرہ اٹھانے کی ذمے داری ایک چینی کمپنی کو دے رکھی ہے جس نے ہر مقام پر کچرے کے ڈسٹ بن لگا رکھے ہیں کہ لوگ ان میں کچرا ڈالا کریں دیکھتے ہی دیکھتے یہ ڈبے کچرے سے بھر جاتے ہیں باقی کچرا سڑک اور گلیوں پر پڑا رہتا ہے جب کہ کچروں کے ان بھرے ڈبوں کو چینی کمپنی کی گاڑیاں ہر روز ایک مرتبہ صبح کے وقت اٹھا کر لے جاتے ہیں اس طرح باقی ماندہ کچرا سڑکوں اور گلیوں میں پھیلے رہتا ہے، جس سے پورا ماحول خراب ہوتا رہتا ہے ۔

ایک دن سڑکیں اورگلیاں تعمیرکی جاتی ہیںتو دوسرے تیسرے روز پانی، سیوریج،گیس اور ٹیلی فون لائنز بچھانے کے لیے کھدائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ایسے میں علاقے کے لوگ بھی بغیر اجازت کے اپنی طرف سے سڑکوں اور گلیوں میں کھدائیاں کرتے ہیں اور بلاوجہ کے اسپیڈ بریکرز بناتے ہیں،جس وجہ سے یہ سڑکیں کھنڈر نما بن جاتی ہیں۔ شروع میں مذکورہ بالا جن عمارتوں،اداروں اور مقامات کا ذکرکیا گیا ہے وہ اپنا وجود تو رکھتے ہیں لیکن ناقص انتظامی امور اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بربادی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔

تعلیم کا رجحان تو ہے لیکن حوصلہ افزاء نہیں ہے، غریب کا بچہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہے جہاں ایک ہی عمارت کے اندر دو سے چھ اسکول بھی پائے جاتے ہیں، تعلیمی معیارکا فقدان ہے اور پھر ان اسکولوں کے اپنے بھی بنیادی مسائل ہیں، مالی استطاعت رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ لیاری میں بیروزگاری اپنی انتہاکو چھو رہی ہے جس سے بچنے کے لیے حالت سے گھبرائے ہوئے کچھ نوجوان منفی راہوں میں گامزن ہوجاتے ہیں اور کچھ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے موٹے کاروبارکرکے زندگی کی گاڑی کو کھیچ رہے ہیں۔

لیاری میں منشیات کا کاروبار بھی ایک سماجی مسئلہ ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کے خاتمے کے لیے ایک سماجی تحریک کی ضرورت ہے، کیونکہ منشیات فروشوں کو زبردست پشت پناہی اورسہولیات میسر ہیںیہی وجہ ہے کہ لیاری کے بہت سے نوجوان نشے کے لت میں پڑکر اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اب لیاری میں تعلیم یافتہ نوجوانوں میں شعوروآگہی کی ایک لہر اٹھی ہوئی ہے جو اپنی دنیا آپ بسانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں جس سے امید بندھتی ہے کہ لیاری کا مستقبل بالکل تاریک بھی نہیں ہے بلکہ صبح کا تارا نکلنے والا ہے۔

یادش بخیر ! 5جنوری 1994ء کو میرا ایک کالم بعنوان لیاری کا مقدمہ شایع ہوا تھا جس میں لیاری کی گزشتہ تین سو سالہ تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے اس وقت کی پی پی پی حکومت کو لیاری کو الگ ضلع بنانے اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لانے کی تجویز دی تھی بعد ازاں اس وقت کی صوبائی حکومت نے ایل ڈی اے کا قیام عمل میں لایا، اس کے بعد پرویزمشرف حکومت نے اپنا نیا نظام لاکر ایل ڈی اے کی صورت اس قدر مسخ کردی کہ ایل ڈی اے لیاری کے حوالے سے صرف نام کا ہوکر رہ گیا، یعنی اس میں لیاری کے ترقیاتی کاموں کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ صورت حال آج بھی قائم ہے جس پر موجودہ پی پی پی پی سندھ حکومت غور و فکر کرتے ہوئے ایل ڈی اے کو اپنی اصل صورت میں بحال کرے ۔ 15دسمبر 1994ء کو حکومت سندھ کراچی میں ساحلی علاقوں پر مشتمل کوسٹل ضلع کا باقاعدہ اعلان کرنے والی تھی لیکن شاید سیاسی وجوہات کی بناء پر یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا، اس نئے ضلع میں پورٹ قاسم، ابراہیم حیدری، ڈیفنس ،کیماڑی سمیت متعدد علاقے شامل تھے مجوزہ ضلع میں جنوبی (لیاری) ضلع غربی اور ضلع شرقی کے کچھ علاقے کاٹ کر شامل کیے جانے تھے۔اس وقت راقم نے مجوزہ لیاری ضلع کے نام کی تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کی سندھ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مجوزہ ضلع کا نام کوسٹل ضلع کے بجائے ملیر ضلع کی طرح میرٹ کی بنیاد پر علاقے کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے لیاری ضلع ہی رکھ دیا جائے۔

مگر افسوس ! ایسا نہ ہوسکا ، البتہ گزشتہ پی پی پی پی سندھ حکومت نے اپنے سیاسی گڑھ لیاری کو نظر انداز کرتے ہوئے کراچی کے علاقے کورنگی کو چھٹے ضلع کا درجہ دیدیا۔ اب جب کہ ایک مرتبہ پھر سندھ میں پی پی پی کی ہی حکومت ہے اس کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ لیاری میں کھویا ہوا اپنا مقام پانے کے لیے لیاری ضلع کا قیام عمل میں لائے اس طرح لیاری پھر پیپلزپارٹی کا سیاسی گڑھ بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔