اُصولوں کی پاسداری یا سمجھوتہ

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 13 فروری 2019
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

یہ سنہ 2001ء کی بات ہے اور ابھی تازہ تازہ نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا ۔افغانستان میں ملا عمرکی قیادت میں طالبان کی حکومت رائج تھی ۔امریکا نے القاعدہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا اور ملا عمر سے مطالبہ کر ڈالا کہ اسامہ بن لادن کوجو اُس وقت تک افغانستان میں موجود تھا اُس کے حوالے کیاجائے۔ لیکن ایسا کرنے سے صاف صاف انکارکرتے ہوئے ملا عمر نے اسامہ کو براہ راست امریکا کے حوالے کرنے کی بجائے ایک تیسرے غیر جانبدار ملک کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تاکہ اگر وہ مجرم ہے تو اُس کے ساتھ مکمل انصاف کیا جاسکے۔

انھوں نے امریکا سے مزید کہا کہ اُسامہ ہمارا مہمان ہے اور ہم اپنے مہمان کو اُس کے دشمن کے حوالے نہیں کرسکتے ۔ اِدھر امریکا نے پاکستان کی فوجی حکومت پر بھی ساتھ ساتھ دباؤ بڑھانا شروع کردیا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ملا عمرکو ایسا کرنے پر مجبور کرے ۔ ہمارے اُس وقت کے غیر جمہوری حکمران جنرل پرویز مشرف نے اِس حکم کے بجا آوری میں ملاعمرکو براہ راست اور بالواستہ طور پر حالات کی سنگینی کا احساس دلانا شروع کردیا اورہم خیال مذہبی جماعتوں کے ایک وفد کوکابل روانہ کیا تاکہ وہ ملا عمر اُن کی بات کو رد نہ کرسکے۔

وفد میں شامل افراد نے ملا عمرکو بہت سمجھانے کی کوشش کی اورانھیں انکار کے صورت میں سنگین نتائج بھگتنے سے متننبہ بھی کیا ، مگر ملا عمر نے اُس وفد کو بھی یہ کہہ کر انکار کردیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کے بعد بھی کیا امریکا ہمیں معاف کردے گا۔ نہیں وہ ہمیں پھر بھی نہیں چھوڑیں گے، پھر ہم اپنے مہمان کو اپنے ہاتھوں سے اُس کے حوالے کیوں کریں ۔

عالمی طاقتوں کی سیاست اور نفسیات کو سمجھنے والا یہ شخص کوئی بہت بڑا مفکر اور فلاسفی نہیں تھا۔ وہ ایک سادہ سا دیندار منکسر المزاج شخص تھا ۔اُسے اپنے اقتدار سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ وہ اِسے اللہ کی طرف سے دی گئی صرف ایک ذمے داری سمجھ رہا تھا۔اُسے اقتدارکی خواہش اور طلب ہرگز نہ تھی۔اُسے معلوم تھا کہ امریکا کی نافرمانی کی صورت میںاُس کا حشرکیا ہوگا، لیکن اُس نے ظلم اور زیادتی کے آگے سرجھکانے سے انکارکردیا۔ اُس نے اپنے اقتدار کو داؤ پر لگاکر اپنے مہمان اُسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے صاف صاف انکارکردیا، پھر جوکچھ ہوا اُسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اِس کے برعکس جب ہم اپنے کردار اور اپنے طرز عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم خود کو ملا عمر کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور نیچا تصورکرتے ہیں ۔ ہم نے امریکا کے حکم برداری میں اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کردیا ۔غیر ملکی مہمان توکجا ہم نے اپنے لوگ بھی امریکا کے سپرد کردیے۔

شرم اور حیا کا مقام ہے کہ ہم نے ایک یا دو نہیں سیکڑوں پاکستانی اُس کے ایک حکم پر نہ صرف اُس کے حوالے کردیے بلکہ اِس کام کے بدلے ہزاروں ڈالرز بھی وصول کیے اور اِس بے غیرتی کا برملا اعتراف بھی ہم بڑی شان وشوکت سے اپنی کتابوں میں بھی درج کرتے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی غیر ملکی بحیثیت قوم ہمارا تمسخر اُڑاتے ہیںکہ ’’پاکستانی تو بوقت ضرورت اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔‘‘ جنرل مشرف نے اپنی قوم کو پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلاکرایسے ایسے کارنامے کیے کہ جن کا تذکرہ کرتے ہوئے ہماری نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔

ہمارے یہاں اقتدارکی خواہش اور طلب رکھنے والے سیاستداں اُس کی بے وقعتی اور بے ثباتی کو جانتے ہوئے بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کی آخر دم تک کوشش کرتے رہتے ہیں۔وہ اپنے تما م اُصول اور ضابطے صرف اقتدار کو بچانے کے لیے قربان کردیتے ہیںمگر اقتدار پھر بھی اُن کے ہاتھوں سے چھین لیاجاتا ہے۔ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی برسراقتدار آنے سے پہلے بہت بااُصول اور با وضع تصورکیے جاتے تھے۔اُن کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اپنے قول کے مطابق اقتدارکو بچانے کے لیے کبھی اُصولوں پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اُن کا عمران خان بہت ہی نڈر ، باضمیر اور بااُصول شخص ہوگا۔ مگر افسوس کہ اُن سے متعلق یہ ساری خوش گمانیاں چند مہینوں میں ہی زائل ہوگئیں۔

خان صاحب نے اپنے اقتدار کو پانے اور بچانے کے لیے پہلے دن ہی سے تمام اُصول اورضابطے ایک طرف رکھ دیے۔ غیر ممالک سے قرضے اور امداد مانگنے کی بجائے خود کشی کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے جس دریوزہ گری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اِن سے پہلے آنے والے حکمراں تو صرف ایک یا دو دوست ممالک سے امداد لے لیاکرتے تھے لیکن اِنہوں نے تو کسی بھی دوست ملک کو نہیں چھوڑا ، جس کسی نے ذرا سی نظر التفات ڈالی یہ فوراً امداد مانگے اُس کے در پر پہنچ گئے۔

ہمارے خیال میںاسلامی ممالک میں سے اب صرف ایک واحد امیر ملک ایسا باقی رہ گیا ہے جن پر اُن کی نگاہیں ابھی تک نہیں پڑی ہیںاور وہ ہے دارالاسلام برونائی۔لگتا ہے وہ ابھی تک اُن کے ریڈار پر نہیں آیا ہے ورنہ کیا مجال کہ دوستی اور محبت کے ایسے رشتے اُس سے بھی استوار نہ کیے جاتے۔

خان صاحب اقتدار سنبھالے ابھی صرف چھ ماہ ہی گزرے ہیں ۔ انھوں نے جتنے قرضے ابھی تک لے لیے ہیں وہ ہماری معاشی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا بھی نہیں چاہتے اور محاذآرائی پر مسلسل آمادہ بھی ہیں ، مگر نادیدہ قوتوں کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ پس پردہ کسی نرمی اورڈھیل سے بھی خوفزدہ ہیں۔اِس لیے وہ اوراُن کے ساتھی صبح وشام کسی متوقع این آر او کے خلاف بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔خان صاحب جس طرح اپنے ماضی میں دیے گئے بیانوں سے یو ٹرن لیتے رہے ہیں کوئی بعید نہیں کہ این آر او کے خلاف اپنے حالیہ بیانوں سے بھی وہ عنقریب یوٹرن لیتے دکھائی دیں ۔

عوام یہ سمجھنے میں یقینا حق بجانب ہیں کہ خان صاحب کی کسی بات اورکسی بیان کو سنجیدہ نہ لیاجائے۔ وہ کب اپنے پچھلے بیان سے منحرف ہوکر اپنے نئے مؤقف کے حق میں دلائل اور فضائل بیان کرنا شروع کردیں۔ سیاست میں ویسے بھی کوئی شے آخری اور حتمی نہیں ہوا کرتی ۔یہاں حالات اور واقعات کے مطابق اُصول اور نظریات بھی بدل جاتے ہیں۔ ملا عمر جیسے حکمراں بہت کم کم ہی نظر آتے ہیں جنھیں اقتدارسے کوئی لگاؤ اور محبت نہ ہو۔ یہاں تو ساری جدوجہد اور لڑائی ہی اقتدارواختیار کے حصول کے لیے ہواکرتی ہے اور وہ جب ایک بار مل جائے تو پھر آسانی سے چھوڑا بھی نہیں جاتا ۔خان صاحب آنے والے دنوں میں اور بھی یوٹرن لیں گے۔میاں صاحب کو عدالت نے نااہل قراردیا تھا اوراب عدالت ہی سے انھیں ریلیف بھی ملے گا، اِسے آپ خواہ این آر او کا نام دیں یا کوئی ڈیل یا ڈھیل قرار دیں اور یہ سب کچھ خان صاحب کی نظروں کے سامنے ہی ہوگا۔( واللہ اعلم بالصواب)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔