امریکا سے دوبارہ دوستی

مزمل سہروردی  بدھ 13 فروری 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے دوبارہ امریکا سے تعلقات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات میں کردار کے عوض امریکا نے پاکستان سے تعلقات بہتر کر لیے ہیں۔ امریکا کی گفتگو میں واضح اور مثبت تبدیلی نظر آرہی ہے۔ یہ وہی امریکا ہے جو چند ماہ قبل پاکستان کا معاشی گلہ دبانے کے لیے تیار تھا، اب پاکستان کو معاشی طور پر سانس لینے کے لیے بہتر اور سازگار مل رہے ہیں۔ یہ سب افغانستان میں امریکا کی مدد کے بدلے میں ہی ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی شرائط مان لی ہیں یا پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لی، یہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ امریکا سے تعلقات میں مثبت تبدیلی کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ چند ماہ قبل جب پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کی کوشش کر رہا تھا تو اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کر دیا تھا کہ ہم پاکستان کو چینی قرضہ واپس کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینے دیں گے۔

بے شک پاکستان اور چین دونوں وضاحت کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج چین کے قرضوں کی واپسی کے لیے استعمال نہیں ہوگا لیکن کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اب حالات تبدیل ہورہے ہیں۔امریکا پاکستان کے ایک بار پھر قریب آرہا ہے ۔

آج جب پاکستان اٖفغانستان میں امریکا لہ فیس سیونگ کے لیے مدد دینے پر تیار ہو گیاہے اور امریکا نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرلیا ہے تو عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اپنی زبان اور رویہ بھی تبدیل کر لیا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات اور متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ محمد کا دورہ پاکستان اسی کا مظہر ہیں ۔

سعودی عرب کے رویے میں بھی پاکستان کے لیے گرمجوشی موجود ہے۔ امریکی رویہ میں تبدیلی پاکستان کے لیے مزید بہتری کا باعث بنی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے قرضہ اور دیگر سہولیات اس کا مظہر ہیں۔ اب موجودہ حالات میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا پاکستان کو فائدہ ہی ہوگا۔

بہرحال اب کچھ بات امریکا کی پالیسی کے بارے میں ہو جائیں ۔ ایک خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا امریکا کی نئی محبت میں ہم چین کو بھول جائیں گے؟ موجودہ حکومت کی سی پیک کے بارے میں باتیں کوئی خفیہ نہیں ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے بعد ہی حکومتی وزراء نے سی پیک کے بارے میں مبہم بیانات دینا شروع کر دیے تھے۔پھر چین سے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی، شاید کہیں نہ کہیں موجودہ حکومت کی طرف چینی خدشات قائم ہیں۔چین امریکا نہیں ہے جس کی ناراضی اس کے بیانات سے ظاہر ہو جائے۔ چینی وزارت خارجہ خاموش ڈپلومیسی پر یقین رکھتی ہے۔ اس لیے چین کو بھولنا نہیں چاہیے۔

پاکستان کی مشکل یہی رہی ہے۔ جب امریکا سے تعلقات کشیدہ ہو جائیں تو ہم باقی دنیاکی طرف دیکھتے ہیں اور جب امریکا سے معاملات طے پا جائیں تو ہم باقی دنیا کو بھول جاتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا ہم روس سے کھلنے والے دروازے بند کر دیں گے؟کیا ہم چین کو ناراض کر دیں گے؟

پاکستان کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ چین نے تب پاکستان کی مدد کی جب کوئی پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ چین نے تب توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی جب پاکستان لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔ کاروباری سرگرمیوں کا پہیہ جام ہو چکا تھا۔ دنیا پاکستان کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہی تھی بلکہ پاکستان کے معاشی طور پر ڈوبنے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اس لیے خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت کہیں سی پیک کو سرد خانہ میں نہ پھینک دے۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔

امریکا اور پاکستان سرد جنگ کے دور سے اتحادی چلے آرہے ہیں۔نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا۔ ہم امریکی لاڈلے  تھے۔ لیکن تب بھی ہم نے امریکا سے سستی ڈیل کی تھی۔ امریکا کو پاکستان سے مفت راستہ فراہم کر دیا گیا تھا۔ واقف حا ل بتاتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے ماہرین نے اس وقت تجویز دی تھی اس راہداری کے مناسب پیسے لیے جائیں۔ لیکن ارباب اقتدار امر یکی محبت میں اس قدر گرفتار تھے کہ یہ کہہ دیا گیا کہ دوستی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اب دوستی میں راہداری کے پیسے بھی لیں۔ پاکستان کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ امریکا نے مقصد نکلنے کے بعد نظریں بدل لیں تھیں بلکہ اب تو کولیش سپورٹ فنڈ کی رقم بھی روک رکھی ہے۔

ہ ساری تاریخ لکھنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اب امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے بہتر سے بہتر ڈیل کی جائے ،کوئی کام مفت میں نہیں کرنا چاہیے۔ ہر کام کا مکمل معاوضہ لینا ہوگا۔ کل امریکا کو افغانستان میں آنے کے لیے پاکستان کی ضرورت تھی۔ آج امریکا کو افغانستان سے جانے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس لیے  یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان سے واپس جانے کے بعد امریکا کے گلے شکوے دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں، پاکستان کو مستقبل کی حکمت عملی کے خدوخال تیار رکھنے چاہیںتاکہ امریکا کی حکمت عملی کا مقابلہ کیا جاسکے۔

ایسے میں چین کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رہنے چاہیں اور روس سے بہت محنت کے بعد جوبرف پگھلی ہے اس کو بھی ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ چین سے فاصلے پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوںگے۔ کوشش تو یہ کرنی چاہیے کہ امریکا سے زیادہ سے زیادہ مفادحاصل کیے جا سکیں، قرضہ معاف نہیں کرائے جاسکتے تو کم از کم قرضے ری شیڈیول ہی کرالیے جائیں۔ نائن الیون کے بعد بھی قرضے ری شیڈول ہوئے تھے۔ اب بھی دوبارہ اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ موقع اچھا ہے، امریکا اس وقت کچھ بھی کرسکتا ہے اور وہ پاکستان کو ریلیف دے سکتا ہے۔

جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تومیں سی پیک میں دیگر ممالک کو شامل کرنے کی مخالفت نہیں کر رہا۔ لیکن ہر معاملے کو بہت احتیاط سے کرنا چاہیے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ہر سرمایہ کاری فائدہ نہیں ہو سکتی۔ ہم ایسی سرمایہ کاری قبول نہیں کر سکتے جو نقصان کا باعث بنے۔ جس کی وجہ سے کل نقصان کا خدشہ ہو۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ چین نے متعدد مواقعے پر پاکستان کے لیے سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔