عبدالعلیم خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کو شدید تحفظات

رضوان آصف  بدھ 13 فروری 2019
آج تحریک انصاف جس مقام پر ہے اس کا مرکزی کریڈٹ تو عمران خان کو ہی جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

آج تحریک انصاف جس مقام پر ہے اس کا مرکزی کریڈٹ تو عمران خان کو ہی جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

لاہور: پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرکٹ کے کھیل کی وجہ سے کروڑوں شائقین کے دلوں پر حکومت کرنے والے عمران خان نے 25 اپریل 1996 کو اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا اعلان کیا تھا لیکن کپتان کو اس وقت یہ سمجھ نہیں تھی کہ سیاست کا کھیل کرکٹ کے کھیل سے بالکل مختلف ہے۔

عمران خان نے کرکٹ میں نیوٹرل امپائر متعارف کروا دیئے تھے لیکن سیاست کے کھیل میں امپائر کو ملائے بغیر جیت کس قدر مشکل ہوتی ہے اس کا اندازہ اسے طویل عرصہ بعد ہوا ۔ 30 اکتوبر2011 ء کو تحریک انصاف نے مینار پاکستان لاہور میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کیا۔اس جلسہ نے صرف تحریک انصاف کو ٹیک آف فراہم نہیں کیا بلکہ ملکی سیاست کاانداز ہی بدل کر رکھ ڈالا۔

آج تحریک انصاف جس مقام پر ہے اس کا مرکزی کریڈٹ تو عمران خان کو ہی جاتا ہے لیکن بعض ایسے لوگ ہیں جن کی دن رات کی محنت اور پارٹی کیلئے لامحدود مالی وسائل کی قربانی نے کپتان کو وزیر اعظم بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا، انہی میں سے ایک عبدالعلیم خان ہیں، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 30 اکتوبر2011 کے مینار پاکستان جلسہ کے انتظامی معاملات کی کمان عمران خان نے عبدالعلیم خان کو سونپ رکھی تھی اور جس وقت عمران خان اس جلسہ سے اپنا تاریخی خطاب کر رہے تھے اس وقت عبدالعلیم خان، فراز چوہدری اور شعیب صدیقی مینار پاکستان گراونڈ کے سامنے ایک مکان کی چھت پر بیٹھے خطاب سن رہے اور جلسہ دیکھ رہے تھے۔

اس جلسہ کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے تحریک انصاف کو اپنا اولین سیاسی حریف مان لیا۔ ایسے میں کپتان نے عبدالعلیم خان کو مسلم لیگ(ن) کا مضبوط ترین سیاسی قلعہ سمجھے جانے والے’’لاہور‘‘ کو تحریک انصاف کی گرفت میں لانے کا ٹاسک سونپا۔

عبدالعلیم خان کو سب سے بڑا چیلنج خود تحریک انصاف کے اندر سے درپیش تھا خود کو تحریک انصاف کا ’’وار لارڈ‘‘ سمجھنے والے رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کے خلاف ایک ایسا محاذ کھول دیا جس کا کوئی جواز ہی نہیں تھا لیکن ان رہنماؤں کو درحقیقت اپنی برسوں کی ناکامیاں اور چالاکیاں ایکسپوز ہونے کا خطرہ تھا۔

علیم خان نے پارٹی پر بلا مبالغہ اربوں روپے کے مالی وسائل خرچ کیئے، دن رات پارٹی کیلئے کام کیا،اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ لاہور میں جب بھی تحریک انصاف نے کوئی کال دی تو وہ کامیاب ہوئی، مینار پاکستان پر جلسے ہوں یا لاک ڈاون، لانگ مارچ کا آغاز ہو یا ممبر سازی مہم، ہر ایونٹ بہت کامیاب رہا۔

عبدالعلیم خان نے شہباز شریف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،2013 ء کے الیکشن میں عمران خان اپنی پارٹی کے’’وار لارڈز‘‘ کے نرغے میں پھنس گئے تو عبدالعلیم خان نے کپتان کی مشکل آسان کرتے ہوئے خود ہی رضاکارانہ طور پر پیشکش کردی کہ وہ الیکشن نہیں لڑیں گے، بعد ازاں این اے122 کا ضمنی الیکشن آیا تو بڑے بڑے پارٹی رہنما وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے ہوتے ہوئے لاہور کے اس سیاسی معرکہ میں حصہ لینے سے بھاگ گئے تب عمران خان نے علیم خان کو میدان میں اتارا تو علیم خان نے اس ضمنی الیکشن کو ملکی تاریخ کا ابتک کا سب سے بڑا ضمنی الیکشن بنا دیا، میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے خود میدان میں آنا پڑا۔

اسی ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے علیم خان کے خلاف نیب میں درخواستیں دلوائیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ 10 برس تک پنجاب میں شہنشائیت نما حکمرانی کرنے والے شہبازشریف بھرپور کوشش کے باوجود علیم خان کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابل تصدیق شواہد پیش نہیں کر سکے۔2018 کے الیکشن میں فتح کے بعد جب علیم خان کو وزیر اعلی بنایا جانے لگا تو ’’کاریگروں‘‘ نے نیب کو متحرک کردیا،عمران خان نے علیم خان کو پنجاب کا سینئر وزیر بنایا تو اس کی کارکردگی کابینہ میں سر فہرست دکھائی دینے لگی۔

نیب کے طریقہ کار اور لامحدود اختیارات پر تمام سیاسی جماعتوں کی رائے تقریبا یکساں ہے اور اس وقت بھی عبدالعلیم خان کی جس انداز میں گرفتاری ہوئی ہے اس پر خود تحریک انصاف کو تحفظات ہیں۔علیم خان کئی سالوں سے نیب میں پیش ہو رہے تھے،ریکارڈ بھی فراہم کردیا تھا لیکن نیب نے اچانک انہیں گرفتار کر کے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔عمران خان بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ عبدالعلیم خان کے خلاف کیس میں نیب کے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں جبکہ تحریک انصاف بطور جماعت نیب کے اس اقدام کو بیلنسنگ ایکٹ تصور کر رہی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔