- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دیں
کوئٹہ: بلوچستان میں28 جنوری کو تحلیل ہونے والے بلدیاتی اداروں کی مدت میں مزید توسیع کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا جبکہ حکومت بلوچستان نے صوبے میں بلدیاتی الیکشن کیلئے آٹھ ماہ کا وقت مانگا ہے جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کرتے ہوئے بلدیاتی الیکشن وقت پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
سابق میئر کوئٹہ کا یہ موقف ہے کہ اُنہوں نے18 فروری کو حلف لیا تھا اس طرح2017-18 کا جو بلدیاتی اداروں کیلئے بجٹ منظور ہوا تھا اسے وقت سے قبل سیز کردیا گیا تھا جو کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے اسی لئے اُنہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
حکومت بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اصلاحات اور ترامیم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت سے رجوع کیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وسائل کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں میں بڑھتے ہوئے ترقیاتی عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کا قیام ضروری ہے اسی طرح صوبے کے18 اضلاع میں قحط سالی کے سبب ایمرجنسی نافذ ہے لہٰذا صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت بلوچستان کا یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل140 اے اور الیکشن ایکٹ217 کے سیکشن(4)29 کے مطابق120دن کے اندر انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد بلوچستان میں سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے شروع کردیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے تمام سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتیں زور لگائیں گی جبکہ کئی سیاسی اتحاد بھی تشکیل پائیں گے ۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات میں ماضی کی طرح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی میدان سجے گا کیونکہ یہ انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پر ہونگے اس لئے میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں سر توڑ کوششیں کریں گی۔ وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے تو کوئٹہ میں اپنا ہوم ورک بھی شروع کردیا ہے ان کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تو گذشتہ چند دنوں سے کوئٹہ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں کے طوفانی دورے کررہے ہیں۔
تحریک انصاف بلوچستان کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں بھی خیبر پختونخوا کی طرز کا بلدیاتی نظام لانے کے خواہاں ہیں اس کے علاوہ تحریک انصاف بلوچستان کا یہ دعویٰ ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کا اگلا میئر ان کا ہوگا جس کیلئے وہ اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کر رہی ہے۔
دوسری طرف پشتونخواملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بی این پی (عوامی)، جمعیت علماء اسلام (ف)، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی بلدیاتی انتخابات کیلئے حکمت عملی بنانا اور رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔
ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی جو کہ ابھی نئی نئی ہے کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم ان تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومت بی اے پی کی ہے تو توقع ہے کہ وہ ماضی کی حکمران پارٹیوں کی طرز پر اپنے کارکنوں تک رسائی حاصل کرکے اس شارٹ پیریڈ میں کافی حد تک کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اپنی ادھوری تنظیم سازی بھی مکمل کرے گی۔
گو کہ بعض سینئر کارکن اور عہدیداران نئی سیاسی جماعت کی موجودہ حکمت عملی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں لیکن پارٹی کے سربراہ جام کمال جوکہ صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ بی اے پی واحد سیاسی جماعت ہے جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کے حقوق کا تحفظ اور گڈ گورننس کا قیام ہے کیونکہ بلوچستان مزید خامیوں اور بدانتظامی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی اے پی بڑے قلیل عرصے میں آگے آئی اور نہ صرف صوبے میں حکومت بنائی بلکہ سینیٹ میں بھی چیئرمین شپ پر کامیابی حاصل کی جو کہ بی اے پی کیلئے قابل ستائش ہے حالانکہ ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو کہ15 سال سے سیاست میں ہیں لیکن حکومت نہیں بناسکیں۔ بی اے پی اپنے منشور کے مطابق کئے گئے وعدوں کو پورا کرے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔