ڈی آئی خان میں دہشت گردی

ایڈیٹوریل  جمعرات 14 فروری 2019
موٹر سائیکل پر سوار 2 افراد نے پولیس وین اندھا دھند فائرنگ کی، پولیس۔ فوٹو : فائل

موٹر سائیکل پر سوار 2 افراد نے پولیس وین اندھا دھند فائرنگ کی، پولیس۔ فوٹو : فائل

دہشتگردی کے عفریت کے خلاف جنگ پاک فوج کے جوانوں اور عوام نے جیت لی ہے۔ انسانیت کے دشمنوں نے راہ فرار بھی اختیار کرلی ۔ ان کے ماسٹر مائنڈز ایک پڑوسی ملک میں چھپے ہوئے ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتیں کراتے ہیں، ہمارے سیکیورٹی حکام نے پاک افغان بارڈر پر طویل باڑ کی تنصیب کا دشوار کام بھی مکمل کرلیا ہے مگر دہشتگردی سے نمٹنا چونکہ پر خطر اور پر خار راستہ ہے اس لیے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

بادی النظر میں دہشتگردی پیر تسمہ پا کی طرح ہمارے سماجی نظام سے لپٹی ہوئی نظر آتی ہے تاہم آج دہشتگرد صرف سافٹ ٹارگٹ کی تلاش میں رہتے ہیں جیسا منگل کو ہوا، انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل پر حملہ کرکے چار پولیس اہلکار شہید جب کہ ایس ایچ او اور دو راہگیر زخمی کردیے۔

تحصیل پروا کے علاقے ماہڑہ اڈہ کے قریب نامعلوم دہشت گردوں نے گشت میں مصروف ایس ایچ او تھانہ پروا کی گاڑی پراچانک اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے ایس ایچ او طاہر نواز خان، ڈرائیور محمد جاوید، ڈی ایف سی آصف نواز، گن مین کانسٹیبل سرفرار اور کانسٹیبل میرباز شدید زخمی ہوگئے، اس کے باوجود انھوں نے دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور زخمی حالت میں دہشت گردوں پر جوابی فائرنگ جاری رکھی۔

پولیس کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ آدھا گھنٹہ سے زائد جاری رہا۔ بعدازاں ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، گاڑی میں موجود چاروں پولیس اہلکار موقعے پر جام شہادت نوش کرگئے جب کہ ایس ایچ او طاہر نواز اور دو راہگیر یٰسین اور حمید شدید زخمی ہوگئے، بتایا جاتا ہے کہ جنازہ سے قبل جائے وقوعہ سے 45 کلو بارودی مواد سے بھرا چنگ چی رکشہ کو بم ڈسپوزل اسکواڈ نے تباہ کردیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل وین پر حملے کی ذمے داری ملک میں سرگرم شدت پسند تنظیم حزب الاحرار کے ترجمان ڈاکٹر عزیز یوسف زئی نے قبول کی ہے۔

اس الم ناک واقعے سے دہشتگرد نیٹ ورک کی از سر نو فعالیت کی نشاندہی ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خفیہ ہاتھ ملکی سلامتی کے درپے ہیں ، چنانچہ اسی سیاق و سباق میں اگر دیگر وقوع پذیر ہونے والے دہشتگردی اور بدامنی کے واقعات پر غور کیا جائے تو متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے نیو کراچی یو سی دفتر پر 40 سالہ کارکن شکیل انصاری کی ہلاکت اور دوسرے کارکن اعظم ولد ظہور کے زخمی ہونے کا واقعہ کراچی میں بدامنی پھیلانے کی سازش لگتی ہے، دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں ایم کیوایم کے کارکن شکیل انصاری کی ہلاکت اور اعظم ظہور کے زخمی ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متحدہ کے رہنماؤں اور کارکنان نے اسے سندھ میں لاقانونیت اور کھلی دہشت گردی قراردیا ہے۔

ادھر بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے شیخ واصل میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے سے سیکیورٹی فورسز کی گاڑی میں سوار 4اہلکار زخمی ہوئے جنہیں کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ حکام کو فاٹا میں حالات خراب کرنے کے اشارے ملے ہیں ، شمالی وزیرستان کے علاقہ خیسور میں قتل ہونے والے قبائلی رہنما گل شماد خان عرف متورکئی کی غائبانہ نماز جنازہ بنوں کے مرکزی چوک میں ادا کردی گئی، مختلف سیاسی جماعتوں سماجی تاجر تنظیموں اور انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شرکت کی جب کہ کراچی میں قتل کیے جانے والے سیاسی رہنما ارشاد رانجھانی کے قتل کے خلاف مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی، عدالتوں میں ڈسٹرکٹ بار کونسل کی جانب سے بھی عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشتگرد عناصر امن ، سلامتی، عوام کی خوشحالی کے دشمن ہیں، وہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو انگیج کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں، اور اپنے بکھرے اور نیم جان نیٹ ورک کے ذریعہ ’’ہٹ اینڈ رن‘‘ کی وارداتیں کرتے ہیں جن سے مستقل ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی گھناؤنے سازش میں ملوث ہیں۔ڈی آئی خان سانحہ ان کی بزدلانہ کارروائی کا شرمناک ثبوت ہے۔

اس تناظر میں چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کا بیان صائب ہے جو انھوں نے اسلامی فوجی اتحاد کے بارے میں دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط پلیٹ فارم کے حوالہ سے جاری کیا ہے ، انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو مزید تقویت ملی ہے۔چیئرمین سینیٹ سے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کی ۔

اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بتایا کہ اسلامی فوجی اتحاد کے قیام سے دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اتحاد سے مسلم ممالک کے علاوہ دیگر عالمی دنیا بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف فعال کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس اتحاد کے قیام سے امن کے لیے جاری کوششوں کو مزید مربوط بنانے میں مدد ملے گی۔

مزید برآں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود نے کہا ہے کہ پاک فوج نے عوام کے تعاون سے شرپسندوں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے ملک میں امن قائم کر دیا ہے، گنے چنے دہشت گردوں کو بھی جلد ختم کردیا جائے گا، انھوں نے دیر سکاوٹس چھاونی تیمرگرہ میں عمائدین کے گرینڈ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری آپریشن ختم ہو چکا ہے ، عوام سخت وقت سے گزر چکے ہیں ، انھوں نے کہا کہ دشمن افغانستان سے پاکستان میں سازشیں کررہا ہے جن پر پاک فوج کی کڑی نظر ہے۔

بہر حال دہشتگردی سے نمٹنے کا میکنزم مزید موثر اور فالٹ فری ہونا شرط ہے، دہشتگردوں کو کسی بھی ٹارگٹ پر پہنچنے سے پہلے ہوم لینڈ سیکیورٹی طرز کی حکمت عملی سے دبوچ لینا چاہیے تاکہ ان کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچا جاسکے۔

اس ضمن میں کوئٹہ پولیس کی درخواست قابل توجہ ہے جس میں شہر کے مختلف علاقوں میں 18پوسٹیں بنانے کے لیے نفری مانگی گئی ہے جب کہ سیکیورٹی معاملات کو فول پروف بنانے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں 3سال قبل18مختلف مقامات پر پولیس چیک پوسٹیں بنانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر پولیس ذرایع کے مطابق کوئٹہ کے 18مختلف مقامات پر پولیس چیک پوسٹیں بنانے کی ہدایات کے باوجود نفری نہ ہونے کی وجہ سے یہ پوسٹیں تاحال نہیں بن سکیں ، یہ مظالبہ فوری پورا ہونا چاہیے، مذکورہ پوسٹیں جلو گیر موڑ،غازی آباد ،اختر آباد ، مستونگ روڈ ، میاں غنڈی درخشاں ناکہ، سبی کوئٹہ روڈ اور ریڈ کراس سمیت دیگر علاقوںمیں بنائی جانی تھیں ۔ یہی وہ اقدامات ہیں جن سے پہلو تہی کے باعث اکثر المیے جنم لیتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔