ایڈریانو آجاؤ

نادر شاہ عادل  جمعرات 14 فروری 2019

برازیلین فٹبالرایڈریانوکی شہرت ایک بھیڑیے اسٹرائیکرکی ہے۔ اسے برازیل کے ان اسٹارکھلاڑیوں میں شمارکیا جاتا تھا جو مخالف ٹیم کی صفوں میں گھس کر تباہی مچاتا، اس کے جارحانہ کھیل کے اسٹائل پر سوئیڈن کے مایہ ناز کھلاڑی زلاطین ابراہیمووچ کا کہنا تھا کہ وہ جانور ہے، منفرد گیم چینجرکھلاڑی ہے۔

ٹیم کے منیجر اور کوچ ایڈریانوکو اس وقت میدان میں اتارتے جب انھیں اندازہ ہوتا کہ ان کی ٹیم پسپائی اور ہارکے خطرہ سے دوچار ہے، مخالف ٹیم حاوی ہوتی جا رہی ہے ، اس وقت ایڈریانو آتے ہی اپنا جادو جگاتا ، مخالف ٹیم کے دفاع کو تتر بترکرنے کا ہر ہنر آزماتا، اس کی فری کک مثالی ہوتی، رفتار چیتے جیسی،کمر توڑ ڈربلنگ کا شہزادہ ، ہیڈ سے گول کرنے اور ڈینجر زون میں گول کا کوئی موقع ضایع جانے نہ دیتا ۔

قارئین حیران ہونگے کہ گم گشتہ ایڈریانوکا ذکر خیر کیوں؟ کیا عمران خان کی معاشی ٹیم کوکسی ایڈریانوکی ضرورت ہے، کیا پی ٹی آئی کے سارے اقتصادی ماہر،کوچ ، مینیجرز اور ٹیم کپتان ملکی معیشت کے گرداب سے پریشان ہیں، معاشی منظر نامہ بقول اسد عمر اطمینان بخش ہے، تو الجھن کیسی، ادائیگیوں کے بحران کے خاتمہ کی نوید تو آپ کافی عرصہ پہلے دے چکے، وزیراعظم قوم کو باورکرا چکے کہ ملک معاشی طور پر ترقی کی طرف گامزن ہے، باقی جوکچھ میڈیا میں ہے وہ زغوغائے رقیباں ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے امدادی پیشکشیں ہوئیںِ، ملک میں ڈالر آنے شروع ہوئے، اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد آمد ہے، تازہ ترین خبر ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے 12 ارب ڈالرکی اہم سرمایہ کاری ہوگی، بریک تھرو ہوسکتا ہے، سعودی عرب نے بلوچستان میں بھی خطیر سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ حکومتی معاشی ٹیم کی صائب کوشش ہے کہ قوم کو ایک مستحکم معیشت کی خوشخبری دے اور اس تاثرکو بے اثرکرے کہ حکمراں کاسہ گدائی لیے دوست ملکوں کے در دولت پر دستک دے رہے ہیں، بہرحال ملکی معیشت کوکسی کروٹ تو بیٹھنا ہے ، جو حکومتی مشیر تھے وہ عہدہ چھوڑنے کے بعد معیشت میں مضمر خرابیوں کی الگ داستانیں سناتے ہیں، ہاں البتہ اپوزیشن کا فوکس اب آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت معاشی منصوبہ بندی میں ناکام رہی ہے۔ اس سے صورتحال سنبھالے نہیں سنبھل رہی، مزدور کے شب و روز مشکل ترین جب کہ غربت اور مہنگائی نے عوام کو بے بس کردیا ہے۔

ایک مکتب خیال کا استدلال ہے کہ معیشت کے استحکام کی سمت ابھی درست ہونا باقی ہے، ٹیم میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا فرانزک آڈٹ ہوگا تب معلوم ہوگا کہ کپتان اور ان کی اکنامک ٹیم فتحیاب ہوتی ہے یا درمیان میں ایڈریانوکی ضرورت پڑسکتی ہے تاکہ اپوزیشن کو زک پہنچائی جائے۔ کیونکہ حزب اختلاف کی ساری سیاست  حکومت کے معاشی گردش لیل و نہار سے مشروط ہے۔

متحدہ اپوزیشن نے ایک اینٹی IMF ذہنی فضا تیارکی ہے ،اس کا کہنا ہے کہ حکومت گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں، مگر حکومت کے اندر امپلوژن کی توقع اس میں ابھی زندہ ہے۔ دلچسپیوں کی بات چھڑی ہے تو عرض ہے کہ ملکی صورتحال کی سیاسی مابعد الطبیعات کے کیا کہنے، جبھی توکہتے ہیں کہ حکمرانی کے چیلنجزکے حوالے سے پاکستان دنیا کے مشکل ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔

ہماری پارلیمانی جدلیات کی اخلاقی بنیادیں اتنی مضبوط بھی نہیں کہ کچھ ظہور میں لانے کے لیے اپوزیشن مکمل بے دست و پا ہو۔ ہاں پہلی بار ہوا ہے کہ ملک  میں احتساب کا عمل جاری ہے، نیب سے شکایتیں بے شمار اورکرپٹ سیاست دانوں کے جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کے افسانے ہزاروں ہیں۔ ایک نہیں کئی سیاسی اونٹ پہاڑ تلے آچکے ہیں، اربوں کی جائیدادیں بیرون ملک ٹریس ہوچکی ہیں، اسی طرح اربوں ڈالرز کے بیرون ملک غیر قانونی منتقلی کے انکشافات میڈیا کے ریکارڈ پر ہیں، ہائی پرو فائل کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور قوم منتظر ہے کہ کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ۔ جوش ملیح آبادی کہتے ہیں،

گرداب میں جس شخص کو جینا نہیں آتا

اس شخص کا ساحل پہ سفینہ نہیں آتا

حضرت جوش مزید فرماتے ہیں کہ

ٹھیک توکرتے نہیں بنیاد ِناہموارکو

دے رہے ہیں گالیاں گرتی ہوئی دیوارکو

ان اشعارکے سبق آموز سیاق وسباق میں IMF کے بیل آؤٹ پیکیج کی داستان میں سیاست کے کئی اندوہناک راز پنہاں ہیں، جو حکومتی بزرجمہر اٹھتے بیٹھتے سابق حکومتوں کو لعن طعن کرتے ہیں ، انھیں معیشت کے روڈ میپ کے لیے اب تک اپنا ہوم ورک مکمل کرلینا چاہیے تھا، کپتان 92 کے ورلڈ کپ کے سحر سے باہر نکلیں ۔ آپ دیکھ لیں برازیل کا فٹبال کی دنیا میں طوطی بولتا تھا، مگر گزشتہ سے پیوستہ ورلڈ کپ میں جرمنی کے ہاتھوں اسے 7-1 کی جو ذلت آمیز شکست ہوئی اس کے بعد سے برازیل کا وہ مقام نہیں رہا، لیکن سنیے ، وہی فاتح جرمنی 2018 ء کے فیفا ورلڈ کپ سے باہر گیا۔ تو لازم ہے عروج و زوال یاد رہے۔

کون کہتا ہے کہ احتساب نہ ہو، ضرور ہو مگر قوم لب ولہجے کی بد تہذیبی پر مبنی ایک ہی گھسی پٹی قوالی کب تک سنتی رہے گی۔ ایک نامور شاعر اپنی معروف غزل سنا سنا کرکب تک قوم کو اشکبارکرتا رہے گا۔لہذا محترم  اسد عمر کی معاشی ٹیم اقتصادی مشاعرے کی سرکاری بساط لپیٹے، نیا کلام پیش کرے جس میں عوام کے لہوکوگرمانے کا  کچھ سود مند سامان بھی ہو۔ بلوچی زبان کی کہاوت ہے کہ ’’ہشکیں سلام منی کارا نئے‘‘ یعنی خالی خولی سلام دعا کسی کام نہیں آتا ۔

ملکی معیشت کی رگوں میں ڈالرکی گردش رواں ہونی چاہیے۔کسی دانا کا قول ہے کہ آپ ایک صحت مند ماحول کے لیے ملکی معیشت کو تباہ نہیں کرسکتے، معاشی مفکر تسلیم کرتے ہیں کہ ایک مضبوط معیشت کی بنیاد محض سربراہ مملکت یا وزیراعظم کے فیصلوں یا حکومتی اخراجات کی نگرانی پر قائم نہیں ہوتی، اصل بات صنعتی پالیسی کے تحت روزگارکی بہتر بنیادوں پر فراہمی ہے، اسی سے معیشت مستحکم ہوگی۔

کہتے ہیں رونالڈ ریگن مضبوط صدر تھے، مضبوطی ان کی فلاسفی تھی، یعنی مضبوط فوج ، مضبوط معیشت اور مضبوط خاندان۔ ایک شگفتہ مثال ریہم ایمانویل نے دی کہ مڈل کلاس پر مستحکم معیشت کا دارومدار ہوتا ہے، جارج بش نے مڈل کلاس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا اور جان مکین کا یہ پلان رہا کہ  اس گڑھے کو مزید گہرا کر دیا جائے اور وہ بھی بش کے کدال ، بیلچے کے ساتھ۔ سوچیے سابق صدر بارک اوباما نے کیا خوبصورت بات کہی کہ امریکا کانگریس کا نام نہیں ۔امریکا محض واشنگٹن بھی نہیں۔ امریکا ان متحرک تارکین وطن سے عبارت ہے جو بزنس اسٹارٹ کرتے ہیں، یا وہ مائیں جو اپنے بچوں کے بہتر معیار زندگی کے لیے دو دو ملازمتیں کرتی ہیں، امریکا یونین لیڈر ہے، وہ سی ای او ہے جو ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معیشت کو مستحکم کرتا ہے۔

یہ چشم کشا حقائق ہمارے مائل بہ جنگ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیے درس عبرت ہیں۔

معیشت کسی بھی ملک کے عوام کے معیار زندگی کا آئینہ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ جس ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں وہاں کے عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ، روس کے پاس مہلک ہتھیاروں کے انبار لگے تھے جب بھورا ریچھ افغانستان میں گھس آیا تو اس کے آتشیں ہتھیاروں کے اسٹاک یوکرائن اور دیگر وسط ایشائی ریاستوں  کی بیکریوں کے آگے ہیچ ثابت ہوئے، ڈبل روٹی جیت گئی ایٹم بم ہار گیا۔

ایک معاصر دانشور نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’بہت سے لوگ معاشیات کو بنیادی طاقت نہیں مانتے اور سمجھتے ہیں کہ سماجی روایات اور خونی رشتے مادی حقیقتوں سے بالاتر ہوتے ہیں، میں نے تجربہ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ آخرکار معاشی طاقت ہی قوموں کی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔ امریکا اس لیے روس کو شکست دینے میں کامیاب ہوا کہ وہ معاشی لحاظ سے بہت مضبوط تھا۔ معاشی حقیقت  کھل کر سامنے آئی کہ معاشی طاقت ہی روایتی اقدار، سماجی رسوم اور سیاسی چمتکاری سے بالاتر حقیقت ہے، روسی عوام ڈبل روٹی کے لیے قطار میں لگ گئے۔ گورباچوف کہاں سے آیا، اب وہ کہاں ہے۔ ایڈریانو آجاؤ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔