تقسیم

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 14 فروری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

دنیا کی مجموعی آبادی لگ بھگ سات ارب ہے یہ  آبادی مذہب، قومیت، رنگ، نسل، زبان جیسے مختلف حوالوں سے بٹی ہوئی ہے، اگر اس تقسیم کو صرف انسانوں کی پہچان تک محدود رکھا جاتا تو کوئی حرج تھا نہ کوئی قابل اعتراض بات تھی نہ اس تقسیم سے انسانوں کا کوئی نقصان ہوتا، لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا  پڑ رہا ہے کہ انسانوں کی یہ تقسیم انسانوں کی تباہی و بربادی اور ایک دوسرے سے نفرتوں، عداوتوں اور دشمنیوں کا باعث بن گئی۔

تقسیم کے ان حوالوں سے اب تک کروڑوں انسان انتہائی وحشیانہ انداز میں قتل ہوتے رہے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ، جو اس تقسیم کے مضمرات کو سمجھتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان باخبر لوگوں نے جن میں اہل علم ہیں، اہل دانش ہیں، مفکر ہیں، عالم و فاضل ہیں، اس انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے والی تقسیم کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی۔

اس حوالے سے میں نے ایک افسانہ ’’ سسٹر تارا‘‘ کے نام سے لکھا تھا، اس افسانے کا مرکزی کردار ایک معصوم بچی ہے جو ایک فرقہ وارانہ فساد میں ماں باپ سے بچھڑجاتی ہے، اسے ایک نرس اٹھا کر اپنے گھر لے آتی ہے۔ بچی جب نرس کے گھر پل کر جوان ہوتی ہے تو نرس اسے نرسنگ کی ٹریننگ دے کر اپنے ہی اسپتال میں ملازم کرا دیتی ہے۔ ایک بار شہر میں ایک فرقہ وارانہ فساد ہوجاتا ہے جس میں کئی لوگ مارے جاتے ہیں۔ ان مارے جانے والوں کی لاشیں اسی اسپتال میں لائی جاتی ہیں جہاں ان کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ماتھر اور ڈاکٹر سیف فرقہ وارانہ فساد میں مارے جانے والوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ سفید چادروں سے ڈھکی ہوئی ان لاشوں کے قریب بیٹھے ہوئے ڈاکٹر ماتھر اور ڈاکٹر سیف خاموشی سے لاشوں کے قریب بیٹھے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سیف انتہائی دل گرفتہ آواز میں ڈاکٹر ماتھر سے کہتے ہیں:

’’ ڈاکٹر ماتھر! کل تک یہ ہندو تھے مسلمان تھے سکھ تھے، عیسائی تھے آج یہ لاشیں ہیں، ان لاشوں کے اوپر سے یہ سفید کفن ہٹا دیں تو ان کو صرف انسان کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ کل تک ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی بنے ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے اور اپنے اپنے مذہب و ملت کے مطابق زندہ رہنے والے ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے نفرتوں کی انتہا پر پہنچ کر ایک دوسرے کو قتل کرنے والے مذہبی بھید بھاؤ میں الجھ کر ایک دوسرے کو وحشت ناک انداز میں قتل کرنے والے آج ایک سفید چادر اوڑھے پڑے ہیں اب یہ نفرتوں اور عداوتوں سے آزاد ہیں ان میں نہ کوئی ہندو رہا، نہ مسلمان، نہ سکھ رہا نہ عیسائی اب یہ صرف لاشیں ہیں۔‘‘

’’ نہیں ڈاکٹر سیف! یہ لاشیں نہیں، ابھی زندہ انسان ہیں۔ ابھی ان کے کفن دفن کے حوالوں سے زندہ انسان ایک دوسرے کا خون بہا سکتے ہیں انھیں جلانے اور دفن کرنے کے حوالے سے نفرتوں میں ڈوبے ہوئے انسان ایک دوسرے کو قتل کرسکتے ہیں ایک دوسرے کے گھر جلاسکتے ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر ماتھر نے اپنے دوست ڈاکٹر سیف کی طرف اداس نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ ڈاکٹر سیف! ان سادہ لوح انسانوں کو دو مذہب بناکر انھیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے پر اکسانے والے وہ محترم و مکرم لوگ کہاں ہیں؟ کیا کوئی اجنبی ان کپڑوں سے بے نیاز لاشوں کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کی حیثیت سے پہچان سکتا ہے؟‘‘

سسٹر تارا جو ایک فرقہ وارانہ فساد میں یتیم ہوگئی تھی وہ ان دو بچوں کے پاس کھڑی تھی جو آج ہی پیدا ہوئے تھے اور غوں غوں کر رہے تھے، ان کی زبان غوں غوں میں کوئی فرقہ وارانہ منافرت نہیں تھی ، دونوں نومولودوں میں ایک پنڈت ہری پرشاد کا بیٹا تھا اور دوسرا نومولود مولوی احسن کا بیٹا تھا دونوں آکسیجن ٹینٹ میں پڑے ہوئے تھے۔ سسٹر تارا کے ذہن میں نہ جانے کیا آیا اس نے دونوں نومولودوں کو بدل دیا۔

اب پنڈت ہری پرشاد کا بیٹا مولوی احسان کے بیٹے کے بستر پر لیٹا غوں غوں کر رہا تھا اور مولوی احسان کا بیٹا پنڈت ہری پرشاد کے بیٹے کے بستر پر لیٹا غوں غوں کر رہا تھا۔ اب تک یہ دونوں بچوں کی سوائے انسان کے بچوں کے کوئی اور شناخت نہ تھی جب وہ شناخت کے ساتھ بڑے ہوں گے تو کسی فرقہ وارانہ فساد میں قتل ہوسکتے ہیں اور کوئی ڈاکٹر احسن کوئی ڈاکٹر ماتھر ان کا پوسٹ مارٹم کرتا نظر آئے گا اور کوئی سسٹر تارا اپنی دھن میں نومولودوں کو ایک دوسرے سے بدل کر اپنے دل کی آگ بجھا رہی ہوگی۔

1947میں تقسیم ہند کے موقعے پر فرقہ وارانہ فسادات میں کہا جاتا ہے 22 لاکھ انسان انتہائی بے دردی سے قتل کردیے گئے کیونکہ یہ ہندو تھے، مسلمان تھے، کروڑوں ہندو اور مسلمان مہاجر اور شرنارتھی بنے، اب بھی ایک دوسرے سے نفرت کر رہے ہیں۔ نفرت خواہ وہ کسی وجہ سے انسانوں کے دلوں میں پیدا ہو انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ انسانوں کی تقسیم خواہ وہ کسی حوالے سے ہو بذات خود بری نہیں ہوتی اسے برا بنایا جاتا ہے۔ اسے محبت اور بھائی چارے کے راستے سے ہٹا کر نفرت اور عداوت کے راستے پر ڈال دیا جاتا ہے۔

انسانوں کے درمیان ایک اور خطرناک تقسیم ملک و ملت کی ہے یہ اس قدر خطرناک تقسیم ہے کہ اس تقسیم کی آگ میں بھی لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔ آج بھی آپ دنیا کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں، آپ کشمیر میں تقسیم کی اس آگ کو جلتا دیکھیں گے اس آگ میں 70 ہزار کشمیری جل چکے ہیں اس کا الزام کسی پر لگا کسی کو ملزم ٹھہرائیں اصل ملزم تقسیم ہے۔ امریکی، روسی، عرب، اسرائیلی، ہندوستانی، پاکستانی، فلسطینی، چینی، جاپانی یہ تقسیم نفرت پیدا کرتی ہے کیونکہ مفادات بدل جاتے ہیں۔ تقسیم خواہ اس کا حوالہ کوئی ہو بری نہیں جب تک وہ شناخت تک محدود ہوتی ہے لیکن جب سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کی اس تقسیم کو قومی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے تو یہ تقسیم نفرت انگیز اور خون آلود بن کر فلسطین، کشمیر میں ڈریکولا کا کردار ادا کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔