چوکوں چھکوں کی برسات کا وقت قریب

سلیم خالق  جمعرات 14 فروری 2019
شائقین بے تاب، پلیئرز پْرجوش،پی ایس ایل کا میلہ آج سجے گا۔ فوٹو: فائل

شائقین بے تاب، پلیئرز پْرجوش،پی ایس ایل کا میلہ آج سجے گا۔ فوٹو: فائل

’’ تم پریشان نہ ہوکتنے ہی چیئرمین پی سی بی آئے اور گئے اب کون انھیں یاد کرتا ہے، یہ لوگ طاقت ملنے پر اونچی ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں مگر ایک دن زمین پر بھی آنا پڑتا ہے یہ بھول جاتے ہیں، دیکھ لینا اگلے سال نجم سیٹھی دور دور تک کہیں موجود نہیں ہوںگے، مگر پی ایس ایل کا میلہ ایسے ہی سجتا رہے گا‘‘

یہ باتیں ایک سابق کرکٹر نے مجھ سے گزشتہ برس کہی تھیں، اس وقت میں کچھ پریشان سا تھا،لیگ شروع ہونے والی تھی، میں نے ٹکٹ، ویزے اور ہوٹل بکنگ سب انتظام کر لیا تھا مگر روانگی سے قبل تک یہ نہیں پتا تھا کہ ایکریڈیشن کارڈ ملے گا یا نہیں، میرے کالمز اورخبروں سے ناراض نجم سیٹھی نے مجھ پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی تھی،خیر میں دبئی گیا جہاں ہوٹل میں مجھے میرے ایک دوست نے افتتاحی تقریب کے پاسز بھی پہنچا دیے، اسے بھی یہ بتایا گیا تھا کہ میرا کارڈ نہیں بنے گا،البتہ پی سی بی کے رضا راشد نے ’’اوپر سے کلیئرنس‘‘ ملنے پر مجھے کارڈ دے دیا، اس وقت سیٹھی صاحب نے مجھے واٹس ایپ پر ایک میسیج بھیجا جس میں ’’آخری وارننگ‘‘ اور مستقبل میں ’’طرز عمل پر نظر رکھنے‘‘ کا لکھا تھا، اب پھر پی ایس ایل آ رہی ہے مگر کل تک اکڑ کر گھومنے والے نجم سیٹھی کسی کو یاد بھی نہیں۔

گزشتہ برس ان کی اجازت کے بغیر بورڈ میں پتا بھی نہیں ہلتا تھا اب ان کا نام تک کوئی نہیں لیتا،ٹویٹر پر ان کے چاہنے والوں کو پی ایس ایل کیلیے ان کی ’’خدمات‘‘ یاد دلانا پڑتی ہیں جس کا وہ شکریہ بھی ادا کرتے ہیں، یہی دنیا کی حقیقت ہے جسے ہم فراموش کر دیتے ہیں، شخصیات نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں، اب پی سی بی میں احسان مانی آ گئے اور پی ایس ایل کے میڈیا رائٹس زیادہ قیمت پر فروخت ہوئے، ٹائٹل اسپانسر شپ سے بھی زیادہ رقم ملی، ملتان سلطانز کو پہلے سے زیادہ بڑی قیمت پر فروخت کیا گیا لیکن اس میں مانی صاحب کا بھی کوئی کمال نہیں، ان کی جگہ کوئی اور چیئرمین بنتا تب بھی ایسا ہی ہوتا۔

دراصل یہ سارا کریڈٹ پی سی بی اور پی ایس ایل کا ہی ہے جو اب ایک برانڈ بن چکی، شائقین کئی ماہ قبل سے ہی اس کا انتظار شروع کر دیتے ہیں، تین سال قبل شروع ہونے والا یہ ایونٹ اب تیزی سے دنیا میں اپنا مقام بناتا چلا جا رہا ہے، اب جمعرات سے دبئی میں چوتھے ایڈیشن کا آغاز ہو گا، اس کیلیے بھی مداحوں میں جوش وخروش عروج پر پہنچ چکا، البتہ یو اے ای میں مسئلہ یہ ہے کہ ابتدا میں لوگ اسٹیڈیم آتے ہیں بعد میں خالی نشستیں کھلاڑیوں کو منہ چڑاتی ہیں، وہاں اب بہت زیادہ کرکٹ ہو رہی ہے اس سے بھی لوگ بیزار ہو جاتے ہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار پاکستان میں8میچز کا انعقاد ہوگا، حالات میں بہتری کے بعد ملکی سیکیورٹی پر اعتماد بھی بڑھ گیااس لیے رواں برس زیادہ غیرملکی کرکٹرز کے آنے کی امید ہے۔

چوتھے ایڈیشن میں تقریباً40 فارن اسٹارز جگمگائیں گے، سب سے اہم اضافہ اے بی ڈی ویلیئرز کا ہے جو ہر طرز کی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے اور لاہور قلندرز کیلیے کافی کارآمد ثابت ہوں گے،اسلام آباد یونائیٹڈ کو گزشتہ سال ٹائٹل جتوانے والے لیوک رونکی کی اس بار بھی خدمات حاصل ہوں گی، آندرے رسل اب دفاعی چیمپئن کی جگہ ملتان سلطانز کیلیے ایکشن میں ہوں گے، کراچی کنگز کو روی بوپارا جیسے اچھے آل راؤنڈر کا ساتھ حاصل ہے،ایونٹ کے سب سے کامیاب بیٹسمین شین واٹسن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا حصہ ہیں، سدا بہارڈیرن سیمی پشاور زلمی کیلیے لازم و ملزوم بن چکے،ان کو کسی مقامی اسٹار سے بھی زیادہ شہرت حاصل ہے۔

اس بار سوائے پشاور زلمی (ڈیرن سیمی) کے تمام ٹیموں نے ملکی اسٹارز کو ہی قیادت سونپی، یہ اچھا رحجان ہے، اپنی لیگ میں اپنے کرکٹرز پر ہی اعتماد کرنا چاہیے، ایونٹ کیلیے پی سی بی نے اینٹی کرپشن کے سخت اقدامات کیے ہیں، ماضی میں لیگ اس حوالے سے داغدار ہو چکی اور اب پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، اسے حوالے سے آئی سی سی نے بھی معاونت فراہم کی ہے۔

چونکہ ہر ٹیم میں کئی اسٹار کرکٹرز شامل ہیں لہذا کسی کو واضح فیورٹ قرار نہیں دیا جا سکتا، اسلام آباد یونائیٹڈ کو ٹرافی اپنے قبضے میں برقرار رکھنے کیلیے رونکی سمیت فہیم اشرف اور شاداب خان جیسے کرکٹرز کا ساتھ حاصل ہوگا، پشاور زلمی کے وہاب ریاض اچھی فارم میں ہیں، حسن علی بھی ٹی ٹوئنٹی طرز کے بہترین بولر ہیں، کامران اکمل گزشتہ پی ایس ایل کے کامیاب بیٹسمین ثابت ہوئے تھے، اس بار مصباح الحق بھی زلمی کا حصہ بن چکے، ان کا تجربہ ٹیم کے خاصے کام آئے گا، کیرون پولارڈ اور سیمی بھی اہم پلیئرز ثابت ہوں گے، کراچی کنگز کی ٹیم بھی بیحد مضبوط دکھائی دیتی ہے جسے مختصر طرز کے بہترین بیٹسمین بابر اعظم سمیت ٹاپ آل راؤنڈر عماد وسیم کا ساتھ حاصل ہے، محمد عامر، کولن منرو، عثمان شنواری بھی اسی ٹیم کا حصہ ہیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی باگ ڈور سرفراز احمد کے ہاتھوں میں ہے جو پاکستانی ٹیم کو بھی نمبر ون بنا چکے،واٹسن اور سہیل تنویر کے ساتھ ڈسپلن کے حوالے سے بدنام مگر باصلاحیت احمد شہزاد اور عمر اکمل بھی اسی ٹیم کا حصہ ہیں، ملتان سلطانز کے مالکان تبدیل ہو چکے مگر قیادت شعیب ملک کے پاس ہی ہے، شاہد آفریدی نے بھی اب ان کو جوائن کر لیا ہے، جنید خان ، عرفان بھی اسی ٹیم میں موجود ہیں،لاہور قلندرز کی ٹیم بھی اس بار خاصی متوازن ہے،محمد حفیظ اور ڈی ویلیئرز کی شمولیت کا اسے خاصا فائدہ ہوگا، ’’پروفیسر‘‘ کو بطور کپتان بھی اپنے تمام نسخے آزمانے کا موقع ملے گا،فخر زمان اور کورے اینڈرسن کے ساتھ کئی باصلاحیت کرکٹرز بھی قلندرز کا حصہ ہیں، لہذا اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گزشتہ تینوں ایڈیشنز کی طرح اس بار بھی یہ ٹیم آخری نمبر پر رہے گی۔

ویسے بھی ٹورنامنٹ ڈبل لیگ کی بنیاد پر ہونا ہے کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے، ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ فلاں ٹائٹل جیت لے گا، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، اہم بات یہ ہے کہ شائقین کو کسی تنازع کے بغیر ایونٹ میں اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے، آغاز ہونے والا ہے افتتاحی تقریب پر پی سی بی کروڑوں روپے بہائے گا، غیرملکی فنکاروں پر بھی ڈالرز کی برسات کر دی گئی، دیکھتے ہیں اس کا بورڈ کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔

مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے مطابق ایسا لیگ کو انٹرنیشنل اسپانسرز کی توجہ دلانے کیلیے کیا، البتہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے گزشتہ ایڈیشنز میں بھی کئی معروف غیرملکی چند منٹ کی پرفارمنس کے کروڑوں روپے لے گئے مگر اب تک ہمیں بہت زیادہ غیرملکی اسپانسرز نہیں ملے، لیگ کو گلوکار نہیں کرکٹرز ہی بڑا بنائیں گے،جتنی اچھی کرکٹ ہوئی شائقین اتنا ہی پی ایس ایل کی جانب راغب ہوں گے، ٹی وی پروڈکشن بھی اعلیٰ معیار کی ہونی چاہیے، امپائرنگ میں گزشتہ برس کئی حیران کن فیصلے آئے تھے، اس بار پی سی بی کو خاص نظر رکھنا ہو گی، ہمیں تنازعات سے بھی بچنے کی ہرممکن کوشش کرنا ہے۔

یاد رکھیں بھارت کو اس لیگ کی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھا رہی، وہ اسے بدنام کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا، ہمارے پلیئرز کو خود محتاط رہنا ہوگا، اینٹی کرپشن آفیسرز بھی پلیئرز سے مرعوب ہوئے بغیر اپنے کام پر توجہ دیں، سیلفیز کے اور مواقع بھی ملیں گے، ڈوپنگ کے حوالے سے بھی ہوشیار رہیں ، سرفراز احمد تنازع کے بعد اب پلیئرز کو اچھا سبق مل گیا امید ہے وہ فقرے بازی کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں گے۔ یو اے ای میں رونقیں بکھیرنے کے بعد پی ایس ایل کا میلہ پاکستان منتقل ہو جائے گا جہاں مقامی شائقین بے چینی سے اس کے منتظر ہیں، البتہ تشویش کی بات نیشنل اسٹیڈیم کراچی کا اب بھی مکمل تیار نہ ہونا ہے، امید ہے پی سی بی طوفانی رفتار سے اس کا کام مکمل کرائے گا۔

کل ہی کی بات لگتی ہے جب پہلا ایڈیشن ہوا تھااب چوتھا ہونے جا رہا ہے، امید ہے پی ایس ایل اسی طرح کامیابیاں حاصل کرتی رہے گی کیونکہ یہ پاکستان سپرلیگ ہے جتنی ترقی کرے اس سے ملک کا ہی نام ہوگا، ہماری نیک تمنائیں بھی ساتھ ہیں۔

پی ایس ایل کے اسکواڈز

اسلام آباد یونائیٹڈ

محمد سمیع(کپتان)، لیوک رونکی، ای این بیل، کیمرون ڈیلپورٹ، وائن پارنیل، شاداب خان، فہیم اشرف، آصف علی، سمت پٹیل،حسین طلعت، فل سالٹ، صاحبزادہ فرحان، ظاہر خان،رومان رئیس، وقاص مقصود، ظفر گوہر، محمد موسیٰ، ناصر نواز، عماد بٹ، رضوان حسین

 پشاور زلمی

ڈیرن سیمی(کپتان)، کیرون پولارڈ، لیام ڈاؤسن، ڈیوڈ میلان،وہاب ریاض، حسن علی، کامران اکمل، وائن میڈسن، آندرے فلیچر،کرس جورڈن، مصباح الحق، صہیب مقصود، عمر امین، عمید آصف، خالد عثمان،جمال انور،ثمین گل،ابتسام شیخ، نبی گل، سمیع اللہ

ملتان سلطانز

شعیب ملک (کپتان)، شاہد آفریدی، آندرے رسل، جیمز ونس، لاری ایوانز، جانسن چارلس، ڈینیئل کرسٹیان، جنید خان، کرس گرین، ٹام مورز، شان مسعود، محمد عرفان، محمد عباس، سعود شکیل، محمد عرفان خان، عمر صدیق، علی شفیق، شکیل انصر، حماد اعظم، محمد الیاس، نعمان علی

لاہور قلندرز

محمد حفیظ(کپتان)، اے بی ڈی ویلیئرز ،کورے اینڈرسن،کارلوس بریتھ ویٹ، اینٹن ڈیوچ، برینڈن ٹیلر، سندیپ لام چینے، فخر زمان، حارث سہیل، یاسر شاہ، شاہین شاہ آفریدی،راحت علی، آغا سلمان، سہیل اختر، عمیر مقصود، حسان خان، سعد علی، اعزاز چیمہ، حارث رؤف، محمد عمران،ہارڈس ولجوئن، ڈیوڈ ویز

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز

سرفراز احمد(کپتان)، شین واٹسن،ڈیوائن اسمتھ،رلی روسو،سنیل نارائن، فواد احمد،ہیری گرنی،عمر اکمل،احمد شہزاد،محمد نواز،سہیل تنویر،سعود شکیل،احسن علی خان،انور علی،دانش عزیز،جلات خان،اعظم خان،محمد عرفان جونیئر،محمد اصغر،غلام مدثر، محمد حسنین

کراچی کنگز

عماد وسیم(کپتان)،بابر اعظم،کولن منرو،کولن انگرام،محمد عامر،عثمان شنواری،محمد رضوان،بین ڈنک،ایرن سمرز، روی بوپارا،لیام لیونگ اسٹون،سہیل خان، عامر یامین،جاہد علی،اویس ضیا،افتخار احمد،عمر خان،اسامہ میر،علی عمران،ابرار احمد

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔