پاکستان میں کھیلوں کا فروغ کس طرح ممکن ہے؟

محمد عاطف جمیل  جمعرات 14 فروری 2019
حکومت ایک صحتمند اور فعال معاشرے کی تشکیل کےلیے اسپورٹس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ (فوٹو: پی ایس ایل آفیشل)

حکومت ایک صحتمند اور فعال معاشرے کی تشکیل کےلیے اسپورٹس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ (فوٹو: پی ایس ایل آفیشل)

کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں اسپورٹس کا کردار غیر محسوس لیکن نہایت اہم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم، فنون لطیفہ اور ہنرمند افرادی قوت اور نوجوانوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں فعال شمولیت ایک لازمی جزو ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کھیلوں کا سنہری دور 1990 کی دہائی کا تھا جب پاکستان 1994 میں کرکٹ، ہاکی اور اسکواش کا عالمی چیمپئن تھا، اس وقت پاکستان کے نامور کھلاڑیوں نے ملک و قوم کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ لیکن اس وقت کے بعد ہمارا کھیلوں سے وہ رشتہ کیوں ماند پڑگیا؟

ہاکی کا زوال سب کو معلوم ہے، پے در پے شکستوں نے قوم کا ہاکی پراعتماد ختم کردیا۔ اسکواش میں بھی جہانگیر خان کے بعد کوئی بڑا کھلاڑی پیدا نہیں ہوسکا۔ باقی انفرادی کھیلوں میں بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے۔ اولمپکس اور دولت مشترکہ کھیلوں میں ہمارے ملک کے نام کے آگے خال ہی خال کوئی میڈل دکھائی دیتا ہے۔ کبڈی میں وہ دم نہیں رہا، لے دے کر ہمارے دلوں کی دھڑکنوں کو جوش دلانے اور لہو گرمائے رکھنے کو صرف کرکٹ رہ گئی ہے۔ لیکن اس میں بھی ہماری کارگردگی مستقل مزاجی والی نہیں۔ البتہ 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، 2017 میں چیمپئنز ٹرافی اور پاکستان سپرلیگ نے شائقین کرکٹ کوایک نیا ولولہ دیا ہے۔ اب اس ملک کے تمام عمر کے لوگ ہماری کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کا فروغ چاہتے ہیں، کہ ان کے اپنے ملک میں سبھی کھیلوں کے مقابلے ہوں، وہ انہیں دیکھ سکیں، اور کھیلوں میں ہمارے نئے ہیروز سامنے آسکیں۔

بھارت میں پچھلی ایک دہائی سے کھیلوں کے فروغ میں خاطرخواہ اضافہ ہواہے۔ ان کے کھلاڑی نہ صرف کرکٹ بلکہ کبڈی، بیڈمنٹن، ریسلنگ، نشانہ بازی، اور دوڑ جیسے کھیلوں میں بہترین کارگردگی دکھا رہے ہیں؛ اور ملکی سطح کے ساتھ ساتھ دولت مشترکہ اور اولمپکس مقابلوں میں بھی اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ کھیلوں میں آسٹریلیا نے دنیا بھر میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے بھی کرکٹ کے ساتھ ساتھ دوسرے انفرادی کھیلوں میں بھی خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وہ کونسے عوامل ہیں جن سے انہوں نے کھیلوں میں اتنی ترقی کی ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک صحتمند اور فعال معاشرے کی تشکیل کےلیے اسپورٹس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے، اس کےلیے فنڈ مختص کرے اور نوجوانوں کےلیے ایسے مواقع پیدا کرے کہ نئے باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئیں؛ اورملکی سطح کے بعد بین الاقوامی سطح پر بھی کامیابیاں حاصل کریں۔ بھارت میں پچھلے دو سال سے ’’کھیلو انڈیا‘‘ کے نام سے کھیلوں کے فروغ کا قومی پروگرام جاری ہے جس میں ہائی اسکولوں تک کے طالب علم کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان گیمز میں نمایاں کارگردگی کا مظاہرہ کرنے والے طالب علموں کو حکومت 7 لاکھ تک کے وظائف دیتی ہے، انہیں گروم کرتی ہے تاکہ وہ مستقبل میں بین الاقوامی سطح پر قومی نمائندگی کرسکیں۔ اس کےلیے انہیں اپنے ملک میں ہی مناسب مواقع ملتے ہیں تاکہ وہ عالمی مقابلوں میں دوسرے ملکوں کے بہترین کھلاڑیوں سے اچھا مقابلہ کرسکیں۔

ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی کھلاڑی رہے ہیں، انہیں یقیناً کھیلوں کی اہمیت کا احساس ہوگا لیکن اس کےلیے وژن کی ضرورت ہے؛ اور اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کےلیے ریاضت، ماہرین کی رائے اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے جس پر جلد سے جلد کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کرکٹ میں ہم کبھی مستقل مزاج نہیں رہے، کبھی ہار جاتے ہیں، کبھی جیت جاتے ہیں، کبھی مشکل میچ جیت لیتے ہیں، کبھی آسان میچ ہار جاتے ہیں، کبھی کسی ٹورنامنٹ میں ابتدائی میچ میں خراب کارگردگی کے باوجود اہم میچوں میں بازی پلٹ دیتے ہیں، کبھی ابتدائی کامیابیوں کے بعد آخری اہم میچوں میں آسانی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس غیر مستقل مزاجی کی آخر کوئی وجہ تو ہوگی؟ اس کی وجہ ڈومیسٹک کرکٹ کا پست معیار اور کھلاڑیوں کی سہل پسندی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ جنوبی افریقا میں تینوں فارمیٹس یعنی ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی ہارنا بہت سے سوال کو جنم دیتا ہے، کہ ہمارے کھلاڑی مشکل کنڈیشنزمیں کیوںکر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ وہ اصلاحات کیا ہیں؟

پاکستان میں زیادہ تر کرکٹ خشک میدانی علاقوں لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی میں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، پاکستان میں تمام اقسام کے موسم اور علاقے پائے جاتے ہیں۔ جب جیکب آباد میں پارہ 50 ڈگری ہوتا ہے تو پاکستان کے قدرتی نظاروں سے مالا مال شمالی علاقوں میں ٹمپریچر 5 سے 10 ڈگری ہوتا ہے۔ ایسے علاقے ایبٹ آباد، مانسہرہ، سوات اور آزاد کشمیر میں مظفرآباد اور میرپور ہیں۔ گرمیوں میں، جب ہمارے میدانی علاقوں میں ٹمپریچر بہت زیادہ ہوتا ہے، تب شمالی علاقوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے، جس میں کھیلوں والی جسمانی مشقت آسانی کی جاسکتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں میدانی علاقوں میں کرکٹ ہوتی ہے، تب کے درجہ حرارت اور شمالی علاقوں میں گرمیوں کے درجہ حرارت میں مماثلت ہے۔ اگر سردیوں کے موسم میں میدانی علاقوں میں کھیل ممکن ہے تو گرمیوں میں شمالی علاقوں میں بھی (جب وہاں موسم دلکش اور خوشگوار ہوتا ہے) کرکٹ اور دوسرے کھیل ممکن ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ جو مالی طور پر ایک خود مختار ادارہ ہے، اگر وہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے اور گرمیوں کے موسم میں شمالی علاقوں کے بڑے شہروں میں ڈومیسٹک کرکٹ کا انعقاد کرنے کےلیے اقدامات کرے، وہاں پر گراؤنڈز کو اپ گریڈ کرے، سہولیات جیسے کرکٹ اکیڈمیوں اور تعمیرات وغیرہ کو بہتر بنائے تو صورتِ حال میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اور ہاں! ضروری نہیں کہ وہاں میلبورن اور کولکتہ جیساہی گراؤنڈ بنایا جائے، آپ نیوزی لینڈ جیسے سادہ اور کم خرچ اسٹیڈیم بھی بنواسکتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ پورا سال جاری رہے گی۔

آپ سردیوں میں میدانی علاقوں میں قائداعظم ٹرافی اور گرمیوں میں بھی فرسٹ کلاس ایونٹ کرا سکتے ہیں۔ اسی طرح مختصر طرز کے مقابلے بھی ممکن ہیں جن سے کھلاڑیوں کو شمالی علاقوں میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا اور انگلینڈ جیسی کنڈیشنز میسر آئیں گی، جبکہ سردیوں میں ایشیا میں روایتی پچوں پر پریکٹس ہوتی رہے گی؛ اور ایسی کنڈیشنز جہاں ہمارے بیٹسمین جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان کی اپنے ملک میں ہی اچھی پریکٹس ہونے سے پرفارمنس بہتر ہوگی جبکہ مشکل کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونا بھی آسانی سے ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح شمالی علاقوں میں گرمیوں کے موسم میں ہم ایشز سیریز کی طرح مقامی کھلاڑیوں کے گروپ بنا کر پانچ ٹیسٹ، آسٹریلیا کی ’’وی بی سیریز‘‘ (VB Series) کی طرز پر ون ڈے سیریز، اور ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد کرکے کھلاڑیوں کو مکمل فٹ، سہل پسندی سے آزاد اور مشکل کنڈیشنز سے ہم آہنگ اور مضبوط ایتھلیٹ بنا کر بین الاقوامی مقابلوں کےلیے بہتر طور پر تیار کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس سے مقامی اور غیرملکی سیاحت میں بھی خاطرخواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عاطف جمیل

محمد عاطف جمیل

بلاگر نے ورچوئل یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ سیاست، معیشت، بین الاقوامی تعلقات، نوجوانوں کی ترقی، اسپورٹس اور سماجی تبدیلی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔