ہائیبرڈ وار: پاکستان کو کیا کرنا چاہیے

اکرام سہگل  جمعـء 15 فروری 2019

ایک جانب جہاں عالمگیریت کی بنیاد پر دنیا کے مختلف لوگوں کو یکجا کیا گیا ، وہیں مختلف ممالک نے اسی تصور کے تحت گروہ بندی کرکے دنیا پر اپنی بالادستی جمانے کے لیے اس تصور کا بے دریغ استعمال کیا۔ شام، عراق، افغانستان اور یمن میں ہم طاقت کے لیے کھینچ تان کو اس کی مثال کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اکثر اب روایتی جنگیں ’’ہائبرڈ جنگ‘‘ کے ساتھ نہیں چل پاتیں اور اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

ہائبرڈ وارفیئر کی حکمت عملی میں اقتصادی، سیاسی اور سفارتی حربوں کا استعمال ہوتاہے، جن کے تحت پابندیاں اور کسی ملک کے سیاسی عمل میں مداخلت شامل ہے۔ اسی طرح روایتی جنگی حربوں کے ساتھ اس کا امتزاج تیار کرنے کے لیے حزب اختلاف کے گروہوں کو مسلح کیا جاتا ہے، سائبر حملے اور دیگر ہتھیار بھی اس حکمت عملی میں شامل ہوتے ہیں۔ خبروں میں جعل سازی، مسخ شدہ خبریں، سوشل میڈیا اور خفیہ اداروں کی کارروائیاں بھی اس کے اہم ہتھیار ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے مختلف مقاصد کے لیے ان ہتھیاروں کو یکجا کرکے استعمال کرنا آسان ہوگیا ہے، بیک وقت مختلف حربے استعمال کیے جاسکتے ہیں اور درپیش صورت حال سے ان کی مطابقت بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے اس میں بالخصوص یہ خطرہ ہے کہ یہاں دہشتگردی کو اس جنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اسامہ بن لادن القاعدہ کے عفریت کو پیدا کرنے والوں کے قابو سے باہر ہونے سے پہلے سوویت یونین کے خلاف مغرب کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوا۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ عراق پر امریکی جارحیت کے لیے جعلی خبروں کو بنیاد بنایا گیا جس کے نتیجے میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور داعش جیسی تنظیم کھڑی کی گئی۔

خفیہ مداخلت جنگی حربوں میں کوئی نیا طریقہ نہیں۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ کی مدد سے حاصل ہونے والی کثیر معلومات کے ذریعے پروفائلنگ اور صارفین کی پسندو ناپسند تک رسائی کے بعد اس کی رفتار میں اضافہ ہوا۔ اس معلومات  سے استعمال کنندگان کا سیاسی رجحان معلوم کرنا اب مشکل نہیں۔

پاکستان کو 1980ء سے ہائیبرڈ جنگ کا سامنا ہے لیکن بظاہر ہم نے اس کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں؛ بنیادی ترین وجہ تو یہ ہے کہ برصغیر میں سمجھ بوجھ کا استعمال کرنے کے بجائے افواہوں اور افسانوں پر کان دھرنے کا رجحان عام ہے، اس کے ساتھ ہمارے ہاں عوام میں آگاہی کی بہت کمی ہے، وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، خزانہ و خارجہ کی وزارتوں وغیرہ جیسے سرکاری اداروں اور مناصب کی عوام مفاد سے متعلق اہمیت کا ادارک نہیں رکھتے۔

پاکستان کی جانب سے کسی بھی دہشتگردی سے خود کو دور رکھنے اور افغانستان میں امن عمل کی حمایت کے فیصلے نے ہمارے لیے عالمی برادری میں بہتر تعلقات کے لیے نئے در وا کیے۔ اس مثبت پیشرفت کے باوجود ہائبرڈ جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں بلکہ اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر ان جنگی حربوں کے ذریعے ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے باقاعدہ حکمت عملی ترتیب دینی پڑے گی۔ مگر یہ کیسے ممکن ہوگا؟

ظاہر ہے کہ سب سے پہلے سرکاری اداروں اور عوامی سطح پر ہائبرڈ وارفیئر سے متعلق آگاہی عام کی جائے۔ یہ جنگ صرف فوج یا قومی سلامتی کے ادارے تنہا نہیں لڑ سکتے، اس کے لیے اجتماعی آگاہی اور اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے حکومت کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے اور میڈیا کو تصدیق شدہ معلومات کی فراہمی یقینی بنانا چاہیے۔ جھوٹ اور اشتعال انگیزی کو بے نقاب کرنے اور اس پر فوری سزاؤں میں کوئی رعایت نہیں دینا چاہیے۔

سرکاری اور ریاستی اداروں کو خطرات اور انسدادی حکمت عملی سے متعلق آگاہ رکھا جائے۔ اگر کسی ایسے کمپیوٹر وائرس کی تشخیص ہوجائے جو نجی معلومات یا اداروں کے پروگرامز کو متاثر کرسکتے ہوں، یا کرنسی کی قدر میں ردوبدل کے لیے کی جانے والی خفیہ چالبازی سے متعلق معلومات حاصل ہوں تو انھیں عوام کے سامنے لانا چاہیے، اس کے لیے نہ صرف انتباہ جاری ہو بلکہ انسداد کے لیے حکمت عملی بھی وضع کی جائے۔

اس انداز میں ردعمل سے جوابی کارروائی کی رفتار اور قوت میں بھی اضافہ ہوگا۔ لیکن اس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عوام کو حکومت، سلامتی کے اداروں اور فوج پر مکمل اعتماد ہو۔ عوام پر واضح کیا جائے کہ دشمن نہ صرف اخلاقی اقدار سے عاری ہے بلکہ انتہائی سفاک بھی ہے، اس لیے کوئی اس خیال میں نہ رہے کہ اس سے کوئی وقتی فائدہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائے گا۔

ہائیبرڈ وار کے خطرناک ہتھیاروں میں میڈیا اور معلومات بھی شامل ہیں۔ شہریوں تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پہنچنے والی معلومات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس میں انٹیلی جینس کی بنیاد پر نفسیاتی جنگ کے حربوں کی تشخیص بھی لازم ہوچکی ہے۔

دشمن دل و دماغ خریدنا جانتا ہے۔ دشمن اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے دھونس دھمکی ، ترغیب ، رشوت سمیت ہر حربہ استعمال کرکے اپنے اور ہمارے لوگوں پر اثر انداز ہونے میں مصروف ہے۔ آزادیٔ اظہار کے درپردہ ریاست اور اداروں کے خلاف جو جی چاہے کہنے کا لائسنس نہیں دیا جاسکتا ہے۔

حال ہی میں کراچی میں ہونے والے ’’ادب فیسٹول‘‘ کے شرکاء کی اکثریت نے ادب پر بات کرنے سے زیادہ  ریاست کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا اور حکومتی سطح پر ان باتوں کا جواب بھی سننے میں نہیں آیا۔ معلومات ، چاہے جعلی ہوں یا حقیقی اس کا اثر اس وقت نہیں ہوتا جب تک اسے درست تسلیم نہیں کرلیا جاتا، یہی جعلی خبروں اور جھوٹے پراپیگنڈے کے زہر کا تریاق ہے۔

جب کھیل کی نوعیت اس تیزی سے تبدیل ہورہی ہو تو تنہائی، کم ہمتی اور نقصان سے بچنے کے لیے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کرلینی چاہیے۔ طاقت ور لیڈرشپ اور اداروں کے مابین ہم آہنگی سے سول ملٹری تعاون کو مستحکم کیا جاسکتا ہے جس کی شاید آج سے پہلے اتنی ضرورت کبھی نہیں تھی۔

معیشت ہائیبرڈ وار کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے، اس لیے سب سے پہلے ملک کو معاشی مشکلات سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اصلاحات اور اقدامات سے پس ماندہ علاقوں اور طبقات کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ سقم ہیں جن کا دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اہل دانش، اکیڈیمیا، سیاست دانوں اور حکمت کاروں کو ملکی سلامتی اور نفاذ قانون کی پالیسیوں کی تشکیل میں شامل مشاورت کرنا چاہیے۔

ملکی سلامتی کے محاذ پر ابھرتے ہوئے داخلی و خارجی خطرات سے نمٹنے کے لیے جنگی حکمت عملی میں مؤثر اور فوری تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں (بالخصوص لسانیت و قومیت سے متعلق حساسیتوں اور شہری حقوق جیسے) پریشر پوائنٹس پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے کیوںکہ بیرونی دشمن انھی کا بہ آسانی استعمال کرتا ہے۔

اداروں کی باہم ہم آہنگی آج ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ناگزیر ہوچکی ہے اور ’’سیاست‘‘ کا کھیل بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سلامتی سے متعلق سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ عسکری قیادت کے ہائبرڈ وار فیئر کے بارے میں ادارک پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا ہے، سیاسی قیادت کو بھی اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کاوشوں میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ معاشرے کے ہر طبقے کو مل کر اس کثیر الجہات خطرے کے مقابلے کے لیے مشترکہ اقدامات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ نگار ہیں ، یہ تحریر حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد (ISSI) میں کی گئی تقریر سے مقتبس ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔