کھیت کا نظر بٹو

سعد اللہ جان برق  جمعـء 15 فروری 2019
barq@email.com

[email protected]

معلوم نہیں اس ’’ڈمی‘‘ کو کیاکہتے ہیں جو کسان لوگ اپنے کھیتوں میں لکڑی کا کراس باندھ کر اسے انسان کا کرتا پہنادیتے ہیں ۔کہیں کہیں اس میں سوکھی گھاس بھی بھری جاتی ہے اور کسی ہانڈی یا گھڑے کو اس کا سر بھی بنادیاجاتاہے۔

یہ دو اغراض کے لیے ہوتاہے، ایک تو پرندے بھگانا مقصود ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر اچھی فصل کو نظربد سے بچانے کے لیے بھی بنائے جاتے ہیں۔ اور جب سے ہم نے اخبار میں نظربٹو یا ڈمی کارٹون دیکھاہے، غصے کے مارے کانپ رہے ہیں، وہ تو اچھا ہے کہ ہم آج کل ذرا کاہل ہورہے ہیں خاص طور پر پشاور جانا تو ایسا لگتاہے جیسے اچھا بھلا انسان کیکروں کے جنگل میں گھس جائے یا گھمسان کے رن میں کود پڑے یا خود ہی اپنا گلہ چاقو چھریوں سے لڑائے۔ورنہ جاکر اس کارٹونسٹ کو کچا چباڈالتے، بے شک ہمارے وزیراعلیٰ کچھ زیادہ متحرک نہیں ہیں لیکن اتنے بھی سست نہیں کہ کھیت میں کھڑا کرکے پرانا کرتا پہنایا جائے، ٹھیک ہے اس پر سی ایم کا ٹیگ بھی لگادیا۔لیکن یہ پھبتی کسناکہ میں ’’سخت کارروائی کروں گا‘‘ یہ بہت ناانصافی ہے۔

اول تو اس قسم کی کھیت والی ڈمی کچھ بولتی نہیں ہے اور اگر بالفرض بولے بھی تو پرندوں سے بولے گی۔اور یہ کہ میں سخت کارروائی کروں گا بلکہ یہ بولے گی کہ دیکھو ذرا میری لاج رکھنا۔دور دور چگتے رہو، میرے نیچے آکر تو مت چگو۔مالک آئے گا تو کیا کہے گا یا یہ کہ

پاس نہیں آئیو ہاتھ نہ لگائیو

کیجیے نظارہ دور دور سے

اور پھر وہاں دور دور جب کوئی نہیں تو کس سے کہاجا رہا ہے کہ میں سخت کارروائی کروں گا۔سوچنے والی بات ہے۔

ہم نے آپ کو شاید کبھی پہلے بھی بتایا ہو کہ ایک ہندی چینل پر ایک فلمی ڈائریکٹر کا انٹرویو ہو رہا تھا۔ ڈائریکٹر موٹا سا گول مٹول آدمی تھا۔ کمپیئر نے اس سے پوچھا، سنا ہے آپ ورزش کے سخت خلاف ہیں اور ہمیشہ پڑے رہتے ہیں؟

ڈائریکٹر نے کہا ہاں۔گھوڑا تیز دوڑتا ہے اور اس کی عمر بیس سال تک بھی نہیں پہنچتی لیکن سانپ ہمیشہ پڑا رہتاہے، اس لیے ہزار ہزار سال تک جی لیتاہے۔

اب اس بات پر ہم اپنی تحقیق کا ٹٹو نہیں چلائیں گے کہ سانپ ہندیوں کا دیوتاہے، اس لیے اس سے بہت کچھ وابستہ کرتے ہیں ورنہ سانپ کی عمر گھوڑے سے بھی کم ہوتی ہے، یہ ہزار سال کے بعد ’’جن‘‘ یا اچھا دھاری بننا سب مفروضات ہیں۔

لیکن عقیدہ توعقیدہ ہوتاہے، اگر کسی کو ورزش پسند نہیں ہے اور لیٹنے کو زیادہ ترجیح دیتاہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتاہے کہ وہ سی ایم بننے کے قابل نہیں ہے۔

اس کارٹون کے بعد ہم اپنے وزیراعلیٰ کے طرفداروں میں شامل ہوچکے ہیں اور ان کا دفاع کریں گے۔لیکن اب ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان تک بھی یہ بات پہنچائیں کہ جس طرح خود شانت ہیں اسی طرح اپنی زبان کو بھی شانت رکھ لیجیے روزانہ دوچار بیانات دینے کا کسی ڈاکٹر نے نسخے میں نہیں لکھاہے مثلًا گزشتہ روز ہی کے اخبار میں ان کا یہ فرمودہ آیا ہے کہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ صرف مالاکنڈ نہیں پورے صوبے کا وزیراعلیٰ ہوں۔

معلوم نہیں یہ کس نے کب کہاہے کہ وہ مالاکنڈ کے وزیراعلیٰ ہیں۔کیونکہ جہاں تک ہم نے سنا ہے وہ ابھی پشاور بلکہ سی ایم ہاوس کے بھی وزیراعلیٰ نہیں بلکہ بنی گالاکے ہیں۔ خیریہ کوئی بات نہیں انسان کہیں سے بھی شروع کر سکتا ہے۔

بستی بسانا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

نہیں داغؔؔ یاروں سے کہہ دو۔کہ آتی ہے’’اردو زباں‘‘آتے آتے

دراصل لوگ ان کا موازنہ پرویز خٹک سے کرتے ہیں، وہ تو ایک جینئس یا محیرالعقول قسم کا آدمی تھا۔ ڈیڑھ پسلی کا وجود تھا، ساری ساری رات جاگتارہتاتھا اور دوسروں کو بھی جگائے رکھتاتھا نہ تھکتاتھا نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔ اور شاید ان کی یہی عادت ہی بنی گالا کو پسند نہیں آئی۔ کہ ’’چھوٹے میاں‘‘ بڑے میاں سے بھی زیادہ’’سبحان اللہ‘‘ ہوجائے اور ایسا ہوناہی تھا، اس لیے اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔

جہاں تک ہمارے موجودہ وزیراعلیٰ کا تعلق ہے تو وہ سیاست اور وزارت سے نہیں بلکہ افسری سے آئے ہیں۔اب افسری کا تو اپنا پروسیجر ہوتاہے، دھیرے دھیرے سب کچھ ہوتاہے۔ یوں کہیے کہ کچھوے اور خرگوش والی بات ہوتی ہے۔ ہوجائے گا سب کچھ۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟

ہمیں ڈر اگر ہے تو یہ ہے کہ کہیں میکاولی والا معاملہ نہ ہوجائے۔میکاولی نے اپنی کتاب دی پرنس میں ایک واقعہ لکھاہے کہ ایک بادشاہ کی سلطنت کا ایک صوبہ بڑا ہی شورہ پشت تھا۔ گورنر نے بادشاہ کی ہدایت پر ویسا ہی کیا۔ وسیع پیمانے پرظلم وستم کا بازار گرم کردیا۔لوگ چیخ اٹھے۔اور یہ چیخ بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اس نے اعلان کیا کہ وہ بہ نفس نفیس اس علاقے میں جائیں گے، تحقیق و تفتیش کریں گے اور عوام کی دادرسی کریں گے۔بادشاہ نے بہ نفس نفیس پہنچ کر دربار منعقد کیا جس میں لوگوں نے گورنر کے خلاف شکایتوں کے ڈھیر لگادیے۔ گورنر مطمئن تھا کہ اس نے سب کچھ بادشاہ کی ہدایت کے مطابق تو کیاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔