پولیس اورعام شہری

کشور زہرا  اتوار 28 جولائی 2013

بدلتے موسموں کے ساتھ بازارِ رشوت کے داموں میں بھی اتارچڑھائو آتے ہیں، جیسے رمضان میں ایمان کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ رشوت کے تخمینے بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں جسے ’’High peak‘‘کا دور کہا جا سکتا ہے جب کہ عید کا ہفتہ اس سے بھی چار ہاتھ آگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے یا پھر اس منفی عمل کی کڑیاں سپاہی سے لے کر افسران بالا تک پہنچی ہوئی ہیں۔

جس کی سزا اس کاریگر اور مزدورکومل رہی ہے جو صبح رومال میں روٹی باندھ کر روزی کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور کسی بھی چوراہے پر اس کا استقبال کرنے والے قانون کے یہ محافظ کبھی ٹریفک پولیس، کبھی سندھ پولیس کا سپاہی اور کبھی ریسکیو پولیس کی ٹیم منکرو نکیر کی مانند کھڑے نظر آتے ہیں،جن کے سوال جواب کے سامنے وہ عام سادہ لوح بے گناہ شہری کسی مجرم کی طرح گڑگڑاتا دکھائی دیتا ہے ،جس کے ذہن میں یہاں رکنے کے سبب کام پر دیر سے پہنچنے کا خوف، اورساتھ ہی اس بات کا خدشہ کہ سامنے کھڑے محافظ کی بے جا تفتیش اتنی نہ بڑھ جائے کہ اُسے تھانے کا رُخ کرنا پڑے،سو وہ جیب میں پڑی متاع سے ان کی طلب پوری کر کے اپنی راہ لینے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر کام پر نہ پہنچ پایا تو رات کی روٹی کا کیا ہو گا؟

پاکستان کے معاشی حب کراچی میں کئی برسوں سے بڑھتی ہوئی غیرقانونی کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے پولیس کی ذمے داریاں بظاہربڑھی ہوئی مگر عملاً قانون پر عملداری نہ ہونے کے سبب جرائم میں اضافہ ہی نظر آتا ہے، منفی عناصر تو مہارت سے جل دے کر نکل جاتے ہیںجب کہ ان کے جرائم کی بیخ کنی کے لیے ڈبل سواری بند کروانے کا قانون اگر سزا دے رہا ہے تو اس معصوم شہری کوجسے گھر سے روزگار پر جانے کے لیے سرکاری بس نصیب نہیں، قسطوں پر خریدی گئی موٹر سائیکل کے پیٹرول کے لیے پیسے مہیا کرنا ہی اس کی ذمے داری نہیں بلکہ راستوں اور چوراہوں پر کھڑے قانون کے محافظوں کی جیبیں گرم کرنے کے لیے بھی رقم ساتھ رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ شام کی روٹی کے لیے پیسے۔اسی طرح سی این جی کی عدم دستیابی کے سبب بس اور کوچ کے اسٹاپ پر کھڑے سیکڑوں بے بس افراد میں سے اگر موٹر سائیکل والا کسی کو ساتھ بٹھا لے تو اس کا جُرم دُگنا ،اور یہ سب روزانہ صبح وشام کی کہانی ہے جسے ہم سب راستوں سے گزرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

سرِ عام سڑک پر چلنے والا رشوت کا یہ بازار اب کسی شرم و حیا اور جھجک کا بھی محتاج نہیں رہا، ڈبل سواری پر پابندی کے قانون کا فائدہ اس رشوت خور طبقے کو ہی پہنچتا نظر آرہا ہے،ڈبل سواری پابندی کے باوجود اب بھی نظر آرہی ہے کیونکہ جس نے پیسے دے دیے وہ دو تو کیا چار سواریوں کے ساتھ بھی قانون سے بالاتر ہو گیا ۔ کیا کہیے ایسے قوانین کا جو صرف غریب کے اوپر لاگو ہو رہے ہیں ،دوسری جانب جاری جرائم پر قابو نہ پانے کے باعث شہر کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں معدوم ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہاں عملاً جرائم پیشہ گروہوں کا راج قائم ہے جب کہ ڈبل سواری پر پابندی عوام کے لیے سود مند ہونے کے بجائے پولیس کی اضافی کمائی کا ذریعہ ہے۔

جرائم پیشہ افراد انتہائی فعال اور منظم انداز میں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، شہر میں ہونے والے پے درپے واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پولیس اپنا کام موثر انداز میں نہیں کر رہی کیونکہ اس کی مصروفیات کا ذکر مندرجہ بالا سطروں میں کیا گیا ہے، جب کہ سندھ پولیس کا بجٹ کم ہونے کے بجائے ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے، سندھ پولیس کے وہ افسران جن پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے انھیں عوام کی حالتِ زار کو محسوس کرتے ہوئے اس کے تدارک کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا اور عمل کرنا ہو گا،اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ خاموشی اور عدم توجہی بھی انھیں ظالموں کی صف میں کھڑا کر دے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں ’’راشی دہشت گردوں‘‘ کا قلع قمع کیا جائے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو، اور یہی فلاحی معاشرے کی پہچان ہے چہ جائیکہ محافظ کو دیکھ کر لرزہ طاری ہو اور خوف آنے لگے، جو اس وقت ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔