مروّجہ جہیز کی قباحتیں

اُم فاطمۃ الزہراء  جمعـء 15 فروری 2019
’’سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔‘‘ فوٹو: فائل

’’سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔‘‘ فوٹو: فائل

انسانی زندگی کا ایک اہم اور لازمی عنصر و جزو بل کہ عبادت و سنت ِنبویؐ شادی ہے۔ جسے اختیار کرنا عین تقاضائے فطرت ہے۔

ہمارے معاشرے کے تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اولاد کو جلد از جلد اس بندھن سے باندھ کر اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہوسکیں اور اولاد عملی زندگی شروع کر دے۔ لیکن آج کل ایسا کرنے کے لیے والدین کو کئی قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دولت مندوں کے لیے یہاں کوئی مسئلہ نہیں لیکن غریب بے چارہ کہاں جائے؟ ایک بیٹی بیاہ کر دینا اس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔

جن غیر ضروری امور اور فضولیات کو اپنا کر ہم نے رسم عروسی کے اس اہم فریضے کو مشکل ترین معمہ بنا دیا ہے ان میں سے ایک رسم جہیز کی مروجہ رسمِ بد ہے، ہمارے ہاں جہیز کو شادی سے بھی زیادہ ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔ متمول اور صاحب ِثروت لوگ تو حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور غریب بے چارے کے پاس نہ جہیز ہو، اور نہ ہی وہ بیٹی بیاہ سکے، مجبور و بے بس لڑکی چاہے والدین کے گھر بوڑھی ہوجائے اور بن بیاہے ہی دنیا سے چل بسے یا ڈھلتی عمر میں بیاہ دی جائے۔ کسی کو کچھ پروا ہے نہ فکر و غم۔

ہم سب کے خیر خواہ اور محسن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے: تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو۔ نماز میں جب اس کا وقت آجائے، جنازے میں، جب تیار ہوجائے، بے نکاح لڑکی یا لڑکے کے نکاح میں، جب کہ جوڑ مل جائے۔

آج ہمارے ہاں اس نکاح کو زیادہ عظیم الشان اور قابل ِ فخر سمجھا جاتا ہے اور ایسی تقریب ِ نکاح کو پسند کیا جاتا ہے، جو کسی بڑے اور منہگے شادی ہال میں منعقد ہو۔

اگر ہم اللہ تعالی کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں تو اللہ کی رضا و خوش نودی کے حصول کے ساتھ بہت سا مال بھی فضولیات میں ضایع کرنے سے بچا سکتے ہیں، اور پھر وہی رقم اگر کسی غریب کی بیٹی کے نکاح کے ضروری اخراجات میں صرف کی جائے یا کسی دوسری طریقے سے تعاون کیا جائے تو کیا خوب رہے، بے بہا اجر و ثواب کے علاوہ پورا معاشرہ اس کے مثبت نتائج و ثمرات سے مستفید بھی ہو۔

سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ لیکن ہم بالکل اس کے برعکس کررہے ہیں، ہمارے ہاں کام یاب اس نکاح اور شادی کی تقریب کو سمجھا جاتا ہے جس میں سب سے زیادہ خرچ ہو۔ جب کہ حقیقت وہی ہے جو محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی۔ اپنے اردگرد نظر دوڑایے، جو نکاح اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے کیا جاتا ہے، وہ نکاح ہمیشہ کام یاب نظر آئے گا۔ ان زوجین کی زندگی اتنی پرسکون اور خوش گوار ہوتی ہے کہ جنت کا نمونہ لگنے لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں نہ اللہ کا خوف اور نہ ہی آخرت کی فکر ہے۔ بس دنیاوی واہ واہ  کے چکروں میں تمام احکامات ِ الہی فراموش کیے بیٹھے ہیں۔

ذرا سوچیے! ایک شخص کی دو بیٹیاں جوان ہیں، ان کے رشتے بھی طے ہوچکے ہیں لیکن وہ فاقہ کش مفلوک الحال اپنی لخت ِجگر کا جہیز بنانے کی خاطر اور لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے کس تجوری میں ہاتھ ڈالے؟ کہاں جائے اور کہاں سے اتنی خطیر رقم کا بند و بست کرے ؟ بالآخر معاشرتی رسموں کے ہاتھوں خود کو مجبور سمجھتے ہوئے، بیٹی کو رخصت کرنے کے لیے غریب والدین اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں۔ لاکھوں کا قرض لیتے ہیں اور پھر تمام عمر اسی کی ادائی میں گزرتی ہے اور کبھی اس معاشرتی رسم بد کی تکمیل کے لیے چار و ناچار کوئی نہ کوئی غلط قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ مثلاً چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، رشوت ، سود، حرام طریقے سے مال کا حصول وغیرہ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی برائیاں معاشرے میں جنم لیتی ہیں، جس کے ذمے دار ہم سب اور ہمارا پورا معاشرہ ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک شادیاں کتنی سادگی اور بے تکلفی سے ہوئیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی موقع پر جہیز کا مطالبہ کیا ؟ ہرگز نہیں۔ پھر جو خیر و برکت تھی اس کا تو اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور صحابیات رضی اللہ عنہم کی شادیاں ہوئیں، ان کی اولاد و احفاد کی شادیاں ہوئیں، احادیث و تاریخ کی کسی کتاب میں مروجہ جہیز کا ذکر تک نہیں ملتا، بل کہ مہر پر بار زور دیا گیا اور حسب ِ وسعت ولیمہ کی تاکید کی گئی ہے۔ جو ہم بالکل بھول چکے ہیں۔ سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاڈلی اور چہیتی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رب تعالی سے مانگ کر کیا کچھ نہیں دے سکتے تھے، چاہتے تو سونے، چاندی، ہیروں اور جواہرات کا ڈھیر لگا دیتے، لیکن رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا، محض امت کی آسانی اور سہولت کے واسطے اور ہماری دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے۔ کاش ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے۔ لیکن ہم کس قدر ناشکرے اور ناقدرے ہیں کہ آپؐ کی ان انتہا درجہ خیر خواہانہ اور مخلصانہ تعلیمات اور ہدایات کو یکسر فراموش کیے ہوئے ہیں۔

کتبِ حدیث و تاریخ میں اس کی تصریح موجود ہے کہ شاہ ِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گوشہِ جگر کو ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری گئی تھی، ایک مشکیزہ، اور ایک چادر دے کر اپنی لاڈلی کو رخصت کردیا۔ بس یہی دو جہان کے سردار ﷺ کی بیٹی کا کل اثاثہ و سرمایہ تھا، اگر جہیز کی کوئی ضرورت و اہمیت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں اس کا اہتمام نہ فرماتے؟

جو لوگ جہیز کا مطالبہ کرکے ایک معصوم عورت سے مال لے کر اپنا گھر بھرتے اور سجاتے ہیں، ان کی غیرت و حمیت کہاں چلی جاتی ہے؟ اللہ نے عورت یا اس کے والدین پر ایسی کوئی پابندی عاید نہیں کی بل کہ شریعتِ اسلامیہ نے گھر کی تمام تر ضروریات پوری کرنے کا ذمے دار مرد کو ٹھہرایا ہے۔ بیوی کی تمام تر ضروریات کا ذمے دار مرد ہے۔ ہماری فلاح اور بھلائی اسی میں ہے کہ اللہ تعالی کے حکم اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل پیرا ہوں۔ مزید یہ کہ مروجہ جہیز کی رسم بد معاشرتی خرابیوں کے علاوہ کئی شرعی مفاسد بھی ساتھ لاتی ہے۔ آج کل جس قدر جہیز دیا جاتا ہے عموما اس سے عورت پر حج، قربانی اور فطرانہ وغیرہ احکام فرض و واجب ہوجاتے ہیں، لیکن ان کی ادائی کی کوئی فکر اور انتطام نہیں ہوتا اور عورت یوں ہی ان اہم فرائض و واجبات کی تارک ہوکر دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ جن والدین کے پاس دینے کے لیے کچھ ہے اور وہ اپنی بیٹی کو دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیں لیکن خدارا جہیز کی صورت میں ہرگز نہ دیجیے، کیوں کہ یہ رسم بد جو صورت اختیار کرچکی ہے ایسے میں جہیز دینے سے یہ مفسدہ اور نقصان بہ ہر حال ہے کہ اس سے مروجہ جہیز کی حمایت اور تائید نیز غرباء کی دل شکنی لازم آئے گی۔ ہاں البتہ شادی کے بعد ہدیہ و تحفے کے طور پہ جو کچھ چاہیں جتنا چاہیں دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو تاکہ آپس میں محبت و الفت پیدا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ہدیہ دیا کرو کیوں کہ ہدیہ دلوں سے عداوت و کینہ ختم کر دیتا ہے۔

ہم کیسے مسلمان اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ تمام رسم و رواج اور طور طریقے غیروں کے اپناتے ہیں مگر مسلمان اور عشق کے دعوے میں پھر بھی سچے ہیں۔ دراصل ہم حقیقت سمجھ نہیں پا رہے بل کہ سمجھنا چاہ ہی نہیں رہے۔ ہم الحمدﷲ مسلمان ہیں، ہمارے پاس دین اسلام کا مکمل، جامع اور انتہائی آسان نظام ِحیات اور طرز ِزندگی موجود ہے، جو بے شمار آسانیاں  لے کر آیا ہے، زندگی کے ہر مسئلے و معاملے میں ہمیں آسانی  کی راہیں دکھاتا ہے۔ شریعت مطہرہ نے ہمیں وراثت کا پاکیزہ نظام دیا ہے، جس میں والدین کے ترکے میں بیٹی کا حصہ مقرر اور طے ہے۔ لہذا ہمیں جہیز کی یہ رسم بد اپنانے کی چنداں ضرورت نہیں، بل کہ ہمیں وہ افعال و اعمال اپنانے چاہییں، جس کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ ہم خود ہی آسانیاں چھوڑ کر مشکلات میں گھرے جا رہے ہیں، کاش ہم سوچیں اور سمجھیں، ذرا سوچیے، سمجھیے، غور کیجیے اور اپنے حصے کا چراغ روشن کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔