افلاس و تنگ دستی

احمد دین حداد  جمعـء 15 فروری 2019
’’اے اللہ مجھے کفر اور فقر و فاقہ کی اذیت و ذلت سے اپنی پناہ عطا فرما۔‘‘ فوٹو: فائل

’’اے اللہ مجھے کفر اور فقر و فاقہ کی اذیت و ذلت سے اپنی پناہ عطا فرما۔‘‘ فوٹو: فائل

دین اسلام مستحکم نظری و اصولی بنیادوں پر استوار ایک زندۂ جاوید اور انسانی فلاح و بہبود کا کامل ضابطہ اور نظام ہے، مگر شومئی قسمت ہم نے جس دور میں شعور کی آنکھ کھولی ہے یہ دور انفرادیت پسندی، خودغرضی اور مفادپرستی کے لحاظ سے تاریخ انسانی کا انتہائی وقت ہے۔

ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ قلیل سے خدا پرست و انسان دوست طبقے کے سوا اکثریتی طبقہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے، بل کہ اشنان کرنے سے باز رہے۔ افسوس تو اس المیہ پر ہے کہ ایک چوری اوپر سے سینہ زوری کے مصداق پوری ڈھٹائی سے ہم لوگ جھوٹ کو سچ، باطل کو حق، بدی کو بھلائی اور رات کو دن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اور بے بنیاد تاویلات کے سہارے ریت پر گھروندے تعمیر کرتے چلے جارہے ہیں۔

آئیے ذرا چند ثانیے رک کر سوچنے سمجھنے کی زحمت گوارا کرلیں ورنہ کتمان حق کے ضمن میں روز محشر احکم الحاکمین کے حضور یہ جھوٹی تاویلات کھوٹے سکے کی مانند بے کار جائیں گی۔

دین اسلام کی بنیادی فکر، اصل تعلیمات اور عملی تاریخ سے واضح ہے کہ غربت و افلاس اور فقر و فاقہ انسانیت کے حق میں صرف ایک زحمت و مصیبت اور ذلت و لعنت ہے، جس سے نجات حاصل کرنا لازم و واجب اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اللعالمین کا اصل الاصول اور عظیم اجتماعی سنت ہے۔ البتہ یہاں ایک تمیز ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ اسلام ایک اجتماعی نظام و فلسفہ اور فکر ہے جس کا نصب العین تمام انسانیت کی فطری ترقی اور مکمل نجات ہے، خواہ وہ انسانیت کسی بھی خطے یا کسی بھی دور سے تعلق رکھتی ہو۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ ہر اک فرد اپنی قوم کا جزو صالح ہو اور انفرادیت پر اجتماعیت کو مقدم رکھے اسی طرح ہر ایک قوم تمام انسانیت کے لیے نفع رساں اور بہترین امت و جماعت کا درجہ حاصل کرے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے، مفہوم: ’’تم بہترین جماعت ہو اس لیے کہ انسانیت کی خیر خواہی تمہارا منشور ہے۔‘‘

جب کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے، مفہوم: ’’بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے نفع بخش اور مفید ہو۔‘‘

اس کے برعکس باطل افکار اور نظاموں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ انسانیت اور اجتماعیت کے مقابل میں فرقہ وارانہ، گروہی اور ذاتی مفاد پر مبنی منشور کی ترویج اور بالادستی کے علم بردار ہوتے ہیں۔ اس بحث کی روشنی میں فلسفۂ فقر و فاقہ کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو فقر و افلاس اور غربت و تنگ دستی فی نفسہ ایک ذلت آمیز لعنت ہے، جس کے باعث ملکوتی پرواز کی اہل انسانیت سفلی و اسفلی اور حیوانی درجے پر آن گرتی ہے۔

ہاں جس فقر کو اسلام میں پسندیدگی عطا کی گئی ہے اور جسے آج ظالمانہ استحصالی نظام میں غربت و افلاس کی ماری انسانیت کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے بہ طور حوالہ پیش کیا جاتا ہے وہ فقرِاضطراری یعنی مسلط شدہ غربت و جہالت نہیں بل کہ فقرِاختیاری تھا۔ جسے امن و خوش حالی کے زریں اور مثالی عہد میں انفرادی سطح پر بہ رضا و رغبت اصلاح نفس کی خاطر اختیار کیا گیا، جس کا دوسرا نام قناعت اور ایثار بھی ہے۔ اس لیے اجتماعی خوش حالی کے دور میں انفرادی سطح پر جہاں فقرِِاختیاری ذہنی و نفسی اور روحانی لحاظ سے باعث ارتقا ہے، وہاں اجتماعی بدحالی اور مسلط شدہ فقر و فاقہ نہایت قبیح، ظالمانہ اور انسانیت کے فطری ارتقا میں سدِراہ اور بنیادی رکاوٹ ہے۔

یاد رہے کہ انسانیت پر معاشی ظلم و بربریت خدا کے ساتھ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، جیسے شرک ناقابل معافی ہے ویسے ہی ظلم بھی ناقابل تلافی ہے، اسی لیے قرآن حکیم نے شرک اور ظلم کو قریب قریب ٹھہرایا ہے۔

مفہوم: ’’بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے۔‘‘ (سورۃ القمان)

بہ الفاظ دیگر کسی سماج کو نظریۂ توحید پر استوار کرنے کا واضح مقصد وہاں عدل و انصاف کے نظام کا قیام ہے تاکہ انسانیت کو فقرِاضطراری سے نجات دلائی جاسکے۔

جب کسی ریاست، اجتماع اور سماج میں قیامِ عدل کے نتیجے میں امن و خوش حالی کے ثمرات ظاہر ہوتے ہیں تو پھر وہاں کے اولوالعزم اور عالی مرتبت افراد اپنی صلاحیت و محنت کا پورا پورا صلہ حاصل کرنے کے بہ جائے دیگر انسانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی ذات محض مادیت پسند اور انفرادیت پسند نہیں بل کہ خیرالناس کے عالی مقصد کی خاطر جامع اور فطری ترقی کی شاہ راہ پر چل پڑتی ہے۔ اجتماعی سطح پر فقر و فاقہ اور انفرادی حیثیت میں فقرِاضطراری اس قدر مذموم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کفر و جہالت کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔

مفہوم: ’’ قریب ہے کہ فقر و فاقہ انسانیت کو کفر تک لے جائے۔‘‘

حدیث مذکورہ سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ کفر، جرائم اور جہالت کے خاتمے کے لیے غربت و افلاس کو جڑ سے اکھاڑ ڈالنا کس قدر ضروری ہے۔ یہاں ایک اور نکتے کی وضاحت بھی اہم ہے کہ اگر حکم ران اور سرمایہ دار طبقہ جسمانی و ذہنی اور نفسی و روحانی عوارض سے چھٹکارا پاکر واقعی انسانیت کے ماتھے کا جھومر بننے کا خواہاں ہے تو پھر اسے انسانیت کو فقرِاضطراری سے نجات دلانے کی خاطر خود فقرِاختیاری کی منزل طے کرنا ہوگی۔ ورنہ از روئے فرمان نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسریٰ کے ظالمانہ نظام میں اگر رعیت و عوام بھوکی، ننگی اور اخلاقیات سے عاری ہو تو اس کا تمام تر وبال قیصر و کسریٰ یعنی حکم ران طبقے کے سر ہوگا۔ یہ قاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسریٰ کے نام خطوط میں بیان فرمایا ہے۔ اور اس کے علاوہ ایک مشہور حدیث ہے، مفہوم: ’’تم میں سے ہر ایک درجہ بہ درجہ راعی اور نگہبان ہے اور اس سے اپنی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘ آخر میں عرض ہے کہ فقرِاختیاری یعنی خداوندی نعمتوں تک رسائی کے باوجود صبر و قناعت پر عمل پیرا ہونا دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات اور بعد ازاں آپؐ کے جاں نثاروں کی سوغات ہے، جن کی شان میں قرآن بھی رطب اللسان ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی انقلابی جماعت کی صبر آزما مثالی جدوجہد کے نتیجے میں مدینہ منورہ کے اندر امن و خوش حالی اور ترقی و رواداری کا سب سے بہترین نظام قائم ہوا تو مال غنیمت کی خوب فراوانی تھی لیکن آپؐ کے پاس چند کھجوریں، خشک مشکیزہ اور کھردری چٹائی، ذاتی متاعِ حیات کے طور پر تھا۔ حضرت ابوبکرؓ خود خلیفۂ وقت ہیں مگر گھر میں میٹھا پکنے کی گنجائش نہیں۔ حضرت عمرؓ کے عادلانہ نظام میں کتا تو بھوکا نہیں رہ سکتا مگر عمرؓ گوشت، سرکہ، شہد اور زیتون سے دُور ہیں۔ حضرت عثمانؓ جیسے امیر ترین اور غنی خلیفۂ وقت اپنے دور حکم رانی میں کئی روز کے فقر و فاقہ کے ساتھ اس حال میں اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرتے ہیں کہ ذاتی دست رس میں گنے چنے چند دیناروں کے سوا کچھ باقی ہیں رہتا۔

حضرت علی مرتضیٰؓ جیسا بے مثال شجاع اور امیر المؤمنین اور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ جیسی نبی اکرمؐ کی لاڈلی صاحبزادی کو تین تین دن کے روزوں کے بعد بھی افطار کی نوبت نہیں آتی۔ مگر عین اسی سنہری و آئیڈیل زمانے میں لاکھوں مربع میل کے اندر کوئی فردِ واحد بھی بھوک کے ہاتھوں خودکشی کرنے کی مذموم کوشش نہیں کرتا، بل کہ مال غنیمت میں معصوم بچوں کی مانند کھیلتا نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ خاص و عام کی کوئی تمیز نہیں بل کہ خاص وہی ہے جو محنت بھی زیادہ کرے اور حقیقی اجرت سے بھی نہایت کم یعنی دریا سے گلاس بھرنے کی مثل اپنا حق وصول کرے۔

آئیے اپنے ملک و قوم اور دکھوں کی ماری مظلوم انسانیت کو مسلط شدہ جبری و اضطراری فقر و فاقہ سے نجات دلانے کے اعلیٰ ترین نصب العین کی خاطر اسوۂ حسنہ ﷺ اور خیرالقرون کے اِن نفوس پاک کی کامل پیروی کرنے کا عزم صمیم کریں اور اس راہ عزیمت میں ثابت قدمی و استقامت کے لیے بارگاہ ایزدی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان دعا سے وسیلہ و فضیلت پائیں۔

مفہوم: ’’اے اللہ مجھے کفر اور فقر و فاقہ کی اذیت و ذلت سے اپنی پناہ عطا فرما۔‘‘آمین

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔