کیا شیطانی مجسمہ واقعی ’’زینب کے قاتل کے وحشی پن‘‘ کا تھا؟

مریم فاطمہ  جمعـء 15 فروری 2019
گویا ارتباط الحسن صاحب کو اس مجسمے کی حقیقت تب معلوم ہوئی جب اس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

گویا ارتباط الحسن صاحب کو اس مجسمے کی حقیقت تب معلوم ہوئی جب اس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

چند ہفتے پہلے لاہور میوزیم کے باہر ایک مجسمہ آویزاں کیا گیا، جس کے بعد شور برپا ہوا کہ یہ شیطان کا مجسمہ ہے۔ مؤرخہ 9 فروری کو اس مجسمے کے خالق ارتباط الحسن چیمہ کی زبان سے، صحافت کے طالب علم توقیر کھرل نے ایک بلاگ لکھا جس میں مجسمہ ساز کے حق میں کچھ بے بنیاد دلائل دینے کی کوشش کی۔ ان دلائل کو بے بنیاد ثابت کرنے کےلیے ذیل میں کچھ دلائل دے رہی ہوں۔

زیرِ بحث بلاگ یہاں پڑھیے: مجسمہ شیطان کا نہیں، زینب کے قاتل کے ’’وحشی پن‘‘ کا تھا

مجسمہ ساز، ارتباط الحسن چیمہ صاحب نے فن مجسمہ سازی اور اپنی غلطی کو بہت خوبصورت انداز میں کور کیا ہے۔ چند گزارشات جناب والا کے گوش گزار کرتی چلوں۔ اول تو ہمارے مذہب اسلام میں مجسمہ سازی ہی کو حرام قرار دیا گیا ہے جسے لکھاری نے شدت پسندی قرار دیا۔ اگرکھینچ تان کر کہیں سے مجسمہ سازی کی گنجائش نکال بھی لی جائے تو اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد اور ایک معیاری تحقیق کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ مگر قربان جائیے ارتباط الحسن صاحب کی بے خبری پر، کہ وہ پانچ مہینے اس دیو ہیکل، سولہ فٹی مجسمے پر کام کرنے میں دن رات ایک کرتے رہے لیکن اس بات سے بے خبر رہے کہ یہ مجسمہ درحقیقت ہے کس کا؟ اور کس تنظیم کی ترویج کر رہا ہے؟

گویا آپ کو اس مجسمے کی حقیقت تب معلوم ہوئی جب اس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ یہاں یوں معلوم ہوا کہ گویا آپ حکمرانِ وقت کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جیسے ان پر صبح ٹی وی پر خبریں دیکھنے پر ہی انکشاف ہوتا ہے کہ راتوں رات ڈالر ایسی اونچی اڑان بھر چکا ہے کہ اب واپسی ناممکن ہے، بالکل اسی انداز میں مجسمہ ساز کو مجسمے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ماہرانہ ہاتھوں نے کیا شاہکار بنا ڈالا جس کا راتوں رات پورے ملک میں واویلا مچ گیا۔

مگر ٹھہریئے! یہ بھی تو ممکن ہے کہ ارتباط الحسن اس سے واقعی ناواقف ہوں کہ یہ شیطان کا مجسمہ ہے۔ اگر ہم کچھ دیر کےلیے مان بھی لیں کہ یہ حقیقت ہے، تو یہ بات کسی طور نہیں مانی جاسکتی کہ ان کے اساتذہ کرام اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ یہ مجسمہ ایک خاص تنظیم کی نمائندگی کررہا ہے۔ اگر اساتذہ بھی ’’واقعی‘‘ اس بارے کوئی معلومات نہیں رکھتے تھے تو یہ ان اساتذہ کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے جنہوں نے بغیر کسی تحقیق کے ان کے تھیسس کو پاس کر دیا؛ اور اس پر ستم ظریفی کہ اسے لاہور میوزیم میں آویزاں بھی کرا دیا۔

اگر یہ مجسمہ زینب کے قاتل کے وحشی پن کو ظاہر کر رہا تھا تو اسے لاہور میوزیم جیسی پبلک پلیس پر آویزاں کرنے سے پہلے اس مجسمے پر یہ لکھنا گوارا کیوں نہ کیا گیا؟ اگر اس بات کی وضاحت بر وقت کر دی جاتی تو نہ ہی مجسمہ ساز کو اتنی دقت کا سامنا کرنا پڑتا، نہ معصوم عوام کے جذبات مجروح ہوتے (جو غالباً اب اتنے معصوم نہیں رہے جتنے ماضی میں ہوا کرتے تھے)۔

لکھاری کی اس دلیل نے بھی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کچھ لوگوں نے ان کی سوچ کو سراہا ہے۔ بہت سوچ وچار کے بعد بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ جب مجسمہ ساز نے اس کا مقصد اسے میوزیم سے ہٹا دیئے جانے کے بعد بیان کیا ہے، تو اسے سراہنے والے اس کا مقصد پہلے سے کیسے جان گئے جبکہ اس پر ایسی کوئی تحریر نہیں لکھی گئی تھی جو اس کے مقصد کو واضح کرتی۔

مذکورہ بلاگ میں لکھاری نے مجسمہ سازی کےلیے جس جذبے کو انتہا پسندی قرار دے دیا ہے، وہ اسلام کی قائم کردہ حدود ہیں۔ جن کے تحت مجسمہ سازی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لکھاری کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں آرٹ کےلیے ماحول سازگار نہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہ اس وقت بے شمار آرٹسٹ پاکستان میں مکمل آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان کو پوری قوم ہر اس تخلیق پر ہر لمحہ خراج تحسین پیش کرتی رہے گی، جب تک وہ ایسی تخلیقات کرتے رہیں گے جو ہمارے وطن اور اسلام کےلیے باعث فخر ہوں گی۔ ہم ان تمام آرٹسٹس کا تہ دل سے احترام کرتے ہیں جو ہمارے ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں سرگرداں ہیں اور ہر اس شاہکار کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے جو ہماری اقدار اور مذہب کے خلاف ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مریم فاطمہ

مریم فاطمہ

بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اردو میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ دو سال سے سرکاری اسکول میں بطور ایجوکیٹر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔