- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
- پاکستان کی سیکنڈری ایمرجنگ مارکیٹ حیثیت 6ماہ کے لیے برقرار
کیا شیطانی مجسمہ واقعی ’’زینب کے قاتل کے وحشی پن‘‘ کا تھا؟
چند ہفتے پہلے لاہور میوزیم کے باہر ایک مجسمہ آویزاں کیا گیا، جس کے بعد شور برپا ہوا کہ یہ شیطان کا مجسمہ ہے۔ مؤرخہ 9 فروری کو اس مجسمے کے خالق ارتباط الحسن چیمہ کی زبان سے، صحافت کے طالب علم توقیر کھرل نے ایک بلاگ لکھا جس میں مجسمہ ساز کے حق میں کچھ بے بنیاد دلائل دینے کی کوشش کی۔ ان دلائل کو بے بنیاد ثابت کرنے کےلیے ذیل میں کچھ دلائل دے رہی ہوں۔
زیرِ بحث بلاگ یہاں پڑھیے: مجسمہ شیطان کا نہیں، زینب کے قاتل کے ’’وحشی پن‘‘ کا تھا
مجسمہ ساز، ارتباط الحسن چیمہ صاحب نے فن مجسمہ سازی اور اپنی غلطی کو بہت خوبصورت انداز میں کور کیا ہے۔ چند گزارشات جناب والا کے گوش گزار کرتی چلوں۔ اول تو ہمارے مذہب اسلام میں مجسمہ سازی ہی کو حرام قرار دیا گیا ہے جسے لکھاری نے شدت پسندی قرار دیا۔ اگرکھینچ تان کر کہیں سے مجسمہ سازی کی گنجائش نکال بھی لی جائے تو اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد اور ایک معیاری تحقیق کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ مگر قربان جائیے ارتباط الحسن صاحب کی بے خبری پر، کہ وہ پانچ مہینے اس دیو ہیکل، سولہ فٹی مجسمے پر کام کرنے میں دن رات ایک کرتے رہے لیکن اس بات سے بے خبر رہے کہ یہ مجسمہ درحقیقت ہے کس کا؟ اور کس تنظیم کی ترویج کر رہا ہے؟
گویا آپ کو اس مجسمے کی حقیقت تب معلوم ہوئی جب اس کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ یہاں یوں معلوم ہوا کہ گویا آپ حکمرانِ وقت کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جیسے ان پر صبح ٹی وی پر خبریں دیکھنے پر ہی انکشاف ہوتا ہے کہ راتوں رات ڈالر ایسی اونچی اڑان بھر چکا ہے کہ اب واپسی ناممکن ہے، بالکل اسی انداز میں مجسمہ ساز کو مجسمے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ماہرانہ ہاتھوں نے کیا شاہکار بنا ڈالا جس کا راتوں رات پورے ملک میں واویلا مچ گیا۔
مگر ٹھہریئے! یہ بھی تو ممکن ہے کہ ارتباط الحسن اس سے واقعی ناواقف ہوں کہ یہ شیطان کا مجسمہ ہے۔ اگر ہم کچھ دیر کےلیے مان بھی لیں کہ یہ حقیقت ہے، تو یہ بات کسی طور نہیں مانی جاسکتی کہ ان کے اساتذہ کرام اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ یہ مجسمہ ایک خاص تنظیم کی نمائندگی کررہا ہے۔ اگر اساتذہ بھی ’’واقعی‘‘ اس بارے کوئی معلومات نہیں رکھتے تھے تو یہ ان اساتذہ کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے جنہوں نے بغیر کسی تحقیق کے ان کے تھیسس کو پاس کر دیا؛ اور اس پر ستم ظریفی کہ اسے لاہور میوزیم میں آویزاں بھی کرا دیا۔
اگر یہ مجسمہ زینب کے قاتل کے وحشی پن کو ظاہر کر رہا تھا تو اسے لاہور میوزیم جیسی پبلک پلیس پر آویزاں کرنے سے پہلے اس مجسمے پر یہ لکھنا گوارا کیوں نہ کیا گیا؟ اگر اس بات کی وضاحت بر وقت کر دی جاتی تو نہ ہی مجسمہ ساز کو اتنی دقت کا سامنا کرنا پڑتا، نہ معصوم عوام کے جذبات مجروح ہوتے (جو غالباً اب اتنے معصوم نہیں رہے جتنے ماضی میں ہوا کرتے تھے)۔
لکھاری کی اس دلیل نے بھی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کچھ لوگوں نے ان کی سوچ کو سراہا ہے۔ بہت سوچ وچار کے بعد بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ جب مجسمہ ساز نے اس کا مقصد اسے میوزیم سے ہٹا دیئے جانے کے بعد بیان کیا ہے، تو اسے سراہنے والے اس کا مقصد پہلے سے کیسے جان گئے جبکہ اس پر ایسی کوئی تحریر نہیں لکھی گئی تھی جو اس کے مقصد کو واضح کرتی۔
مذکورہ بلاگ میں لکھاری نے مجسمہ سازی کےلیے جس جذبے کو انتہا پسندی قرار دے دیا ہے، وہ اسلام کی قائم کردہ حدود ہیں۔ جن کے تحت مجسمہ سازی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لکھاری کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں آرٹ کےلیے ماحول سازگار نہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہ اس وقت بے شمار آرٹسٹ پاکستان میں مکمل آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان کو پوری قوم ہر اس تخلیق پر ہر لمحہ خراج تحسین پیش کرتی رہے گی، جب تک وہ ایسی تخلیقات کرتے رہیں گے جو ہمارے وطن اور اسلام کےلیے باعث فخر ہوں گی۔ ہم ان تمام آرٹسٹس کا تہ دل سے احترام کرتے ہیں جو ہمارے ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں سرگرداں ہیں اور ہر اس شاہکار کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے جو ہماری اقدار اور مذہب کے خلاف ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔