سعودی ولی عہد کی آمد، مذہبی رشتے سے کہیں بڑھ کر

 جمعـء 15 فروری 2019
اب جب وہ ہمارے در پر آرہے ہیں تو ہم کیوں کنجوس بنیں؟ ہم کیوں مہمان نوازی میں پیچھے رہیں؟ (فوٹو: فائل)

اب جب وہ ہمارے در پر آرہے ہیں تو ہم کیوں کنجوس بنیں؟ ہم کیوں مہمان نوازی میں پیچھے رہیں؟ (فوٹو: فائل)

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کل پاکستان آرہے ہیں، ان کے ساتھ 123 افراد ہوں گے جن میں سعودی شہزادے اور صنعتکار بھی شامل ہوں گے۔ مہمانوں کےلیے 8 ہوٹلز بک کرائے گئے ہیں۔ ان کی آمد ورفت کےلیے 300 گاڑیاں پہلے ہی شہر اقتدار پہنچ چکی ہیں۔ سیکیورٹی کےلیے چار حصار بنائے جائیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے 12000 جوان حفاظت کےلیے مامور ہوں گے۔ فضائی پروٹوکول الگ سے دیا جائے گا۔ جے ایف 17 تھنڈر طیارے فضا میں مہمانوں کو سلامی دیں گے۔ ایئرپورٹ پر وزیراعظم عمران خان ولی عہد استقبال کریں گے اور اُن کی گاڑی بھی خود ڈرائیو کریں گے، اس سارے پروٹوکول کے بدلے دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کے معاہدے ہوں گے۔

پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد 1951 میں ہونے والا معاہدہ بنا۔ سعودی عرب نے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے علاوہ سابق سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے وقت بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ایک سال تک پاکستان کو 50 ہزار بیرل یومیہ تیل ادھار پر فراہم کیا۔ 2005 کے تباہ کن زلزلے، 2010 اور 2011 کے سیلاب کے وقت بھی پاکستان کی بھرپورمالی مدد کی۔ براہ راست مالی امداد کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں انفرا اسٹرکچر، صحت اور تعلیم سمیت فلاحی شعبوں میں کئی منصوبے مکمل کیے۔

اس وقت 26 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کمانے کےلیے موجود ہیں۔ انہوں نے 18-2017 میں 4.8 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھجوایا جو دنیا بھر سے آنے والی مجموعی ترسیلات زر کا 29 فیصد بنتا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سعودی حکومت نے پاکستانی اسٹیٹ بینک میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے، تین سال تک ادھار تیل فراہم کرنے کا معاہدہ کیا جس کی مدت میں توسیع بھی ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 1982 کے دفاعی تربیتی معاہدے کے تحت اس وقت پاک فوج کے 1680 افسر و جوان سعودی عرب میں تعینات ہیں جبکہ مزید 1460 افسران و جوانوں کی سعودی عرب روانگی کی حتمی منظوری کا انتظار ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں اس وقت سعودی فورسز کے 77 افسران زیر تربیت ہیں۔

لیکن کیا یہی سب کچھ ہے؟ یہ سمجھنے کےلیے نیرنگی سیاستِ دوراں کا ایک اور رُخ بھی دیکھ لیتے ہیں۔

عام زندگی سے لے کر ملکوں کے تعلقات تک، سب مفادات کا کھیل ہے۔ یہ پیار محبت، یہ خونی رشتے، یہ مذہبی رشتے سب بیکار کی باتیں ہیں۔ جہاں کسی کا مفاد وابستہ ہوتا ہے وہ اسی کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ مفادات ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں، یہ مفادات دیرینہ دشمنوں کو گلے لگانے پر بھی آمادہ کرتے ہیں، یہ مفادات پاؤں کی زنجیر، جوتے کا تسمہ بننے تک مجبور کردیتے ہیں۔ اصل سچائی دھندا ہے، اصل حقیقت ضرورت ہے، اصل کرنسی لالچ ہے۔ میں کتنے میں فروخت ہوں گا اور آپ کتنے میں خریدیں گے؟ ضمیر، بنیادی حقوق، اقتدارِ اعلیٰ، انفرادی و اجتماعی اخلاقیات، اصول، انصاف، برابری جیسی اقدار کنگلوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ طاقت کی اسٹاک ایکسچینج میں آفاقی و اخلاقی اقدار کی اوقات معمولی شیئرز سے زیادہ نہیں۔ جس نے جس روز جتنے اٹھا لیے یا بیچ دیئے مارکیٹ اسی کی۔ کون سے مفاداتی شیئرز اٹھانے یا گرانے ہیں، یہ بھی بڑے بروکرز ہی طے کرتے ہیں۔ باقی مارکیٹ تو ان بڑوں کے نکالے گئے ریٹ کے پیچھے چلتی ہے۔

جب تک آپ مجھ سے مال خریدتے رہیں گے یا رعایتی نرخ پر بیچتے رہیں گے تب تک آپ مہان ہیں، آپ سے بڑا گیانی اور مہربان کوئی نہیں۔ جس روز یہ توازن گڑ بڑ ہوا، اسی روز بنیادی انسانی اقدار کی پامالی کے ’’الزامی کوڑے‘‘ پیٹھ پر برسنا شروع ہوجائیں گے حتی کہ آپ دوبارہ مفاداتی لائن میں لگ جائیں۔ جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں ہر بیوپاری بنیادی عالمی اقدار کے دو رجسٹر رکھتا ہے: ایک مجھ جیسے احمقوں کو مطمئن کرنے کےلیے اور دوسرا دھندے کےلیے۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے میں کوئی ’’ڈھمکیری‘‘ چھوڑ رہا ہوں۔ ذرا غور کریں گے تو سب سمجھ میں آجائے گا، کڑی سے کڑی ملے گی تو آپ گورکھ دھندے کی سمجھ بھی آجائے گی۔ ایران جب تک امریکی منڈی تھا، اس کی اہمیت ہتھیلی کے چھالے جیسی تھی۔ شاہ سے زیادہ بیدار مغز، عوام دوست اور آزاد دنیا کا محسن علاقے میں کوئی اور نہ تھا۔ جیسے ہی شاہ گیا اور ایران مغرب کے ہاتھ سے نکلا، اس سے زیادہ خونخوار اور گھٹن زدہ ملک پوری دنیا میں کوئی اور نہیں۔ افغانستان میں امریکا نے روس کا مقابلہ کرنے کےلیے طالبان کو ’’مجاہد‘‘ بنایا، دنیا کی ہر سہولت دی، پھر جب مفاد نہ رہا تو وہی دہشت گرد بن گئے۔ 17سال جنگ لڑی، مار کٹائی سے جی بھر گیا تو انہی دہشت گردوں سے ہاتھ ملانے پر تیار ہوگیا۔

ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کو جپھی ڈالی، کون نہیں جانتا کہ ان کے بیچ کیا چلتا رہا۔ ترکی کے شام میں، سعودی عرب کے یمن، ایران کے اپنے ہمسایوں، چین کے پاکستان، پاکستان کے چین، افغانستان، ایران میں مفادات ہیں تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ تعلقات کی ڈور بندھی رہے، ٹوٹنے نہ پائے۔

ساٹھ کی دہائی تک پاکستان اور ایران جڑواں بھائی تھے۔ ستر کی دہائی سے سعودی عرب بڑا بھائی ہے۔ قصہ مختصر اس دنیا میں وہی روزنِ تعلق کارآمد ہے جو مفاداتی اینٹوں کو دھندے کے سیمنٹ سے جوڑ کر اٹھایا جائے۔ باقی سب کہانی ہے۔ سعودیوں سے محبت اپنی جگہ لیکن پاکستان کو اپنے ہمسایوں کے مفادات کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ ہم اپنے ہمسایوں کے مفادات کے خلاف جائیں گے تو وہ اپنے مفادات کےلیے ہمارے دشمنوں سے ہاتھ ملا لیں گے، جب وہ ہاتھ ملائیں گے تو پھر ہماری چیخیں بھی کام نہیں دیں گی۔

سعودی تیل سے جب تک دنیا کا حلق تر ہے اور سعودی عرب جب تک ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے، تب تک اسے ایک خاص حد سے زیادہ خفا نہیں دیکھا جاسکتا۔ آج سعودی کنوئیں خشک ہوجائیں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کو دیئے گئے چیک باؤنس ہونے لگیں تو سعودی عرب سے زیادہ رجعت پسند، ظالم، قبائلی اور اجڈ، اس پورے علاقے میں کوئی اور نہ ہوگا اور اچانک مہذب دنیا پر کھلے گا کہ وہاں کے مظلوم عوام کس طرح خاندانی تانا شاہی تلے جوج رہے ہیں۔ تب یہ ظلم نہ امریکا سے دیکھا جائے گا نہ یورپ سے۔

جمال خاشقجی کے قتل پر ہم نے خاموشی اختیار کی تو ہمیں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، ہمارے لیے سرخ قالین بچھائے گئے، خانہ کعبہ کے دروازے کھولے گئے، ویزا پالیسیوں میں نرمی برتی گئی، معاشی بدحالی سے نکلنے کےلیے 6 ارب ڈالر نقد ہمارے بینکوں میں رکھنے کا اعلان کیا گیا، 6 ارب ڈالر کا تیل الگ سے دینے کا وعدہ کیا گیا۔

اب جب وہ ہمارے در پر آرہے ہیں تو ہم کیوں کنجوس بنیں؟ ہم کیوں مہمان نوازی میں پیچھے رہیں؟ ہم بھی ان کی راہوں میں ایسے بچھیں گے کہ پورا ملک کہے گا کہ یاشیخ! یہ سب رقبے تمہارے ہیں۔

حکومت کو امید ہے کہ وہ پاکستان کو کچھ دینے آرہے ہیں لیکن وہ دیں گے تو کچھ لیں گے بھی، کیا لیں گے؟ بس تھوڑا سا وقت اور انتظار کرلیتے ہیں، سب سامنے آجائے گا۔

ابھی تو بس اتنا ہی گائیے کہ بہارو پھول برساؤ شہنشاہ معظم آرہے ہیں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔