عوام اگر اٹھ کھڑے ہوں تو؟

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 16 فروری 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

موجودہ حکومت کی غلطیوں اور غلط پالیسیوں کو عوام صبر کے ساتھ اس لیے نظر انداز کررہے ہیں کہ ماضی کی تمام حکومتوں نے عوام کے مسائل کو نظر انداز کرکے اپنا سارا وقت لوٹ مار میں لگادیا اور غریب عوام کی محنت کی کمائی اور اربوں روپوں کی لوٹ مار ہی میں اپنا سارا وقت بتاتے رہے ۔

ماضی کی حکومتوں کی اندھا دھند کرپشن سے متنفر عوام کو امید تھی کہ عمران خان کی مڈل کلاس حکومت ماضی کی اشرافیا حکومتوں کے مقابلے میں ان کے مسائل خاص طور پر بھوک، مہنگائی،بے روزگاری سے نجات دلائیں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت انھیں مہنگائی، بے روزگاری جیسے عذابوں سے نجات دلانے میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر پارہی ہے جس کی عوام توقع کررہے تھے۔ اس کا نتیجہ حکومت سے عوام کی ناراضگی کی صورت میں نکل رہا ہے۔

اپوزیشن بہت کوشش کررہی ہے کہ عوام کی حکومت سے ناراضگی کو استعمال کرتے ہوئے انھیں سڑکوں پر لائیں لیکن اپوزیشن کو اپنے اس مقصد میں کامیابی اس لیے نہیں مل رہی ہے کہ میڈیا میں اپوزیشن کی اربوں کی لوٹ مار کی داستانوں سے وہ سخت ناراض ہیں اور کسی قیمت پر انھیں دوبار لوٹ مار کا موقع دینے کے لیے تیار نہیں عوام کی اس نفسیات سے حکومت عوامی ریلیوں سے تو بچی ہوئی ہے لیکن عوام کی قوت برداشت کسی وقت بھی جواب دے سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو حکومت کے لیے عوام کی ناراضگی کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران حکومت ماضی کی حکومتوں کے پیدا کردہ مسائل خاص طور پر کھربوں کے قرض سے نمٹنے کو اپنی پہلی ترجیح بنائے ہوئے ہے اور ایسا کرنا حکومت کی مجبوری ہے لیکن عوام جس مہنگائی اور خوفناک بے روزگاری کا سامنا کررہے ہیں انھیں ان عذابوں سے جتنی جلد ہو نجات دلانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ماضی کی شہری اشرافیا کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں لیکن ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کا نظام اس قدر سست رفتار ہے کہ عدالتوں میں ایک ایک کیس برسوں اور عشروں تک چلتا ہے۔

اس سست رفتار نظام کی امید پر بیٹھنا عوام کو انصاف سے مایوس کرنا ہوگا اور موجودہ حالات میں قانون اور انصاف کے اس سست رفتار نظام سے امید لگانا عوام میں مایوسی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کرپشن کیسز کے مقدمات کو جنگی یا ہنگامی بنیادوں پر چلایا جائے تو کرپشن کیسز کے فیصلے جلد ہوسکتے ہیں اور وہ اربوں کھربوں کی دولت واپس آسکتی ہے جو اشرافیا لٹیروں نے لوٹی ہے اگر یہی بھاری دولت واپس آتی ہے تو عوام کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوجائے۔

کرپشن ایک سرمایہ دارانہ بیماری ہے جو چند اشرافیاخاندانوں تک محدود نہیں پوری اشرافیا 11برسوں سے اس مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند بڑی اشرافیا فیملیوں کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں لیکن اس تلخ حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ پوری اشرافیا ہی کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے اور کھربوں کی عوامی دولت پر سانپ بن بیٹھی ہے۔کرپشن کو موجودہ قانون کے ساتھ ثابت کرنا ایک مشکل کام ہے اس کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے حوالے سے تحقیق کررہی ہے۔

یہ کرپشن کے اربوں روپے کرپٹ مافیا سے نکالنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ عمران حکومت کی کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے یہ ایک بہترین طریقہ کار ہے اور ہماری موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اس الزام میں خود اپنے ایک سینئر وزیر علیم خان کو گرفتار کرلیا ہے۔ علیم خان آج کل جیل میں ہیں۔ اس اقدام کے بعد عوام کا حکومت پر اور زیادہ اعتماد پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کرپٹ افراد کے خلاف بلا تخصیص کارروائیاں کرے گی۔

اس عوامی اعتماد کے حوالے سے اگر حکومت ایک پالیسی بنالیتی ہے کہ وہ بلا تخصیص ہر اس اشرافیا بت کے خلاف کارروائی کرے گی جن کے پاس آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوں اگر اس اصول پر عمل کیاگیا تو ہزاروں اشرافیا کے کرپٹ ملزمان پکڑ میں آجائیں گے جن کے خلاف عدالتی تحقیق نہ ہو بلکہ ایمرجنسی قانون کے تحت کارروائی ہو یہی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے کرپشن کی بھاری دولت کو لٹیروں کے قبضے سے چھڑایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو اتنی بھاری رقم حاصل ہوسکتی ہے کہ کم از کم عوام کو مہنگائی سے نجات دلائی جاسکتی ہے اگر ایسا ہوا جو ہوسکتا ہے تو حکومت مضبوط ہوسکتی ہے۔

کرپشن کے حوالے سے ایک مشکل یہ ہے کہ مغربی ملکوں نے کرپٹ مافیا کی کرپشن کے اربوں ڈالر کی دولت کو محفوظ بنانے کے لیے محفوظ ’’لاکر‘‘ مہیا کر رکھے ہیں جہاں ایسے قانون نافذ کردیے گئے ہیں کہ کرپٹ مافیا کی گرفت آسان نہیں رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے وہ ہتھکنڈے ہیں جو کرپٹ مافیا کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان قوانین کے خلاف نہ صرف خود ایکشن لے بلکہ عالمی سطح پر اس سرمایہ دارانہ جال کو توڑنے میں کردار ادا کرے۔

پاکستان ایک انتہائی غریب ملک ہے جہاں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہیں جن میں مزدور اورکسان سرفہرست ہیں۔ کیا ان غربت کے ماروں کو ان کی محنت کی کمائی کو تصرف میں لانے کا حق نہیں ہے ؟ یہ حق عوام ، کسانوں، مزدورں کو اس وقت حاصل ہوگا جب عوامی دولت کو خواص کے قبضے سے آزاد کرایا جائے گا۔ اس کا قانونی طریقہ یہ ہے کہ کرپٹ اشرافیا سے قانون کے ذریعے وہ کھربوں کا سرمایہ واپس لیا جائے جس کے حقیقی مالک غریب عوام ہیں جن ملکوں میں کرپشن کا بھاری سرمایہ قانونی طریقوں سے قبضہ گروپ کے ہاتھوں سے نہیں چھڑایا جاسکا وہاں عوام نے اپنی طاقت سے اپنا سرمایہ ناجائز قبضہ گروپ کے ہاتھوں سے چھڑایا اور یہ طریقہ اشرافیا کو بہت مہنگا پڑتا رہا اس کی ایک عام مثال انقلاب خرانہ ہے جس کا مطالعہ اشرافیہ کو کرنا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔