شہباز شریف کی ضمانت‘ حکومت کی شکست

مزمل سہروردی  ہفتہ 16 فروری 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی ضمانت نے پاکستان کے سیاسی منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی تحریک انصاف حکومت کی شکست ہے۔ حکومت جان بوجھ کر گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں ایسا ماحول بنا رہی تھی جس کا واحد مقصد شہباز شریف کی ضمانت کو روکنا تھا۔

شہباز شریف کے خلاف ساری بیان بازی اور محاذ آرائی کا ایک ہی مقصد تھا کہ ضمانت روک لی جائے۔ لیکن سب تدبیریں ناکام ہوگئی ہیں۔ لہٰذا شہباز شریف کی ضمانت سے حکومت پر سیاسی سکتہ طاری ہو گیا ہے۔ زبان دانتوں کے نیچے آگئی ہے۔ اور سب ہکے بکے رہ گئے ہیں۔ شکست ہو گئی ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہباز شریف کی اچانک گرفتاری نے عمران خان کی کمزور حکومت کو طاقت دی تھی ورنہ اس وقت ہی پنجاب حکومت کے جانے کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ پنجاب ن لیگ کے پاس واپس آجائے گا۔ اس کی بازگشت سنائی دینے لگ گئی تھی۔ ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ رانا مشہود کے انٹرویو جس میں انھوں نے پنجاب کی حکومت جانے کا اعلان کیا تھا، نے حکومت کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔

اسی لیے یہ بھی مانا جاتا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کسی باقاعدہ اسکرپٹ کا حصہ نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد کمزور گرتی اور وینٹی لیٹر پر زندہ حکومت کو سانسیں فراہم کرنا تھا۔ آج شہباز شریف کی ضمانت کے بعد حکومتی رد عمل اس سیاسی فلسفے کی دہائی دے رہا ہے۔ ضمانت پر حکومت کا غصہ گواہی دے رہا ہے کہ حکومت ضمانت سے سخت پریشان ہے۔

یہ کیسی حکومت ہے جو ایک طرف تو وزیر اعظم کی نیب میں انکوائری کو وزیر اعظم کی توہین سمجھتی ہے۔ اور دوسری طرف قائد حزب اختلاف کی گرفتاری کے بعد اگر 129دن بعد ضمانت بھی ہوجائے تو غصہ میں آجاتی ہے اور نیب کو حکم جاری کرنے لگتی ہے کہ ضمانت کی منسوخی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ یہ کیسی حکومت ہے جو گرفتاری پر جشن مناتی ہے اور ضمانت پر سوگ میں چلی جاتی ہے۔ کیا حکومت کو نیب کے معاملات میں دخل اندازی کرنی چاہیے۔ کیا ریاست مدینہ کی مثال دینے والوں کے لیے یہ جائز ہے۔

نیب کو انصاف قانون اور ریاست کے ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ نیب ریاست کا ادارہ ہے۔ عدلیہ ریاست کا ادارہ ہے۔ فوج ریاست کا ادارہ ہے۔ ریاست کے اداروں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد ریاست کی کمزوری کا باعث ہوتا ہے۔ شہباز شریف کی ضمانت روکنے کے لیے نیب نے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے بنچ پر اعتراض کر دیا۔ وہ تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نیب کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ضمانت نیب کی مرضی کے ججز کے پاس سماعت کے لیے نہیں مقرر کی جا سکتی۔ میں سمجھتا ہوں نیب ایک ذمے دار ادارہ ہے۔

شہباز شریف کی ضمانت ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کر دے گی۔ حکومت کا بیانیہ کمزور ہو جائے گا۔ اپوزیشن مزید طاقتور ہو جائے گی۔ مخالفانہ نعروں کی مارکیٹ کم ہو جائے گی۔ ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہو گا۔ اور اگر کہیں ملک میں ون پارٹی سسٹم چلانے کی کوشش کی بھی جا رہی تھی تو اس کو ناکامی ہوگی۔ تحریک انصاف کے لیے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ تحریک انصاف معاملات کو بلڈوز کرنے کی جو کوشش کر رہی تھی وہ بھی ناکام ہونگی۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا شہباز شریف کی ضمانت کسی ڈیل یا ڈھیل کا نتیجہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کی ضمانت کسی ڈیل یا ڈھیل کا نتیجہ تو نہیں ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ ہے جس کے بارے میں ایسا گمان کرنا بھی توہین عدالت ہے۔ البتہ حکومت کی جانب سے ڈیل اور ڈھیل کی گردان کہیں نہ کہیں توہین عدالت کے زمرے میں ضرور آتی ہے۔

کیا اب شہباز شریف ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ کیا یہ ضمانت انھیں اس لیے ملی ہے کہ وہ ملک کی سیاست سے کنارہ کشی کر لیں گے۔ کیا وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔ کیا وہ بھی علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ شہباز شریف نے میڈیکل بنیادوں پر ضمانت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ بیمار ہیں لیکن انھوں نے ضمانت کے لیے بیماری کو بنیاد نہیں بنایا ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ وہ کہیں ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ وہ ملک میں رہ کر سیاست کریں گے۔

سوال یہ بھی اہم ہے کہ شہباز شریف کا سیاسی مستقبل کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں ان کے تین کردار ہے۔ پہلا وہ قائد حزب اختلاف ہیں۔ دوسرا وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ تیسرا وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں۔ یہ شہباز شریف کو پاکستان کی سیاست میں ایک اہم کردار دے رہے ہیں۔ اس لیے موجودہ صورتحال میں ان کی جانب سے ملک سے باہر جانا ممکن نظر نہیں آرہا۔

شہباز شریف کی ضمانت سے حکومت کے اس بیانیہ کو بھی شکست ہوئی ہے جس کے تحت وہ شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ حکومت کا سارا بیانیہ اس بات پر تھا کہ وہ جیل سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن اب تو وہ رہا ہو گئے ہیں۔ ان کی رہائی نے حکومت کے سارے بیانیہ کو ہی شکست دے دی ہے۔ ویسے بھی اس وقت متحدہ اپوزیشن نے حکومت کوباندھ کر رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں مخالفانہ نعرے بازی کا بیانیہ ہی حکومت کی واحد بچت تھی وہ بھی شکست کھا رہا ہے۔

اس ضمانت سے شہباز شریف کا قائد حزب اختلاف کے طور پر کردار بھی مزید موثر ہو جائے گا۔ پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے وہ پابندیوں کا شکار تھے۔ میڈیا سے بات نہیں کر سکتے تھے۔ بیان بازی نہیں کر سکتے تھے۔ اپوزیشن کی دیگر سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ قومی اسمبلی میں بھی شہباز شریف کا کردار بہت محدود ہو گیا تھا۔ ان کی ملاقاتیں محدود ہو گئی تھیں۔ اس لیے اس ضمانت کے بعد بطور قائد حزب اختلاف بھی ہمیں ایک مختلف شہباز شریف دیکھنے کو ملے گا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نہایت مشکل وقت میں بھی ن لیگ کا ووٹ بینک قائم رہا ہے۔ اراکین اسمبلی قائم رہے ہیں۔کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا ہے۔ شاید اب اسٹبلشمنٹ بھی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ انتخابات سے قبل جو ہونا تھا ہو گیا تھا۔ کسی بھی اسکرپٹ میں ن لیگ کو بطور پارٹی ختم کرنا شامل نہیں ہے۔ایسے میں شہباز شریف کا بطور ن لیگ کے صدر کردار بھی اہم ہوگا۔ وہ کیسے پارٹی کو لے کر چلتے ہیں۔ اس کی تنظیم سازی کیسے کی جاتی ہے۔ کس کو آگے لاتے ہیں۔ کس کو پیچھے کرتے ہیں۔ ن لیگ کو ایک نئی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ انھیں ایک نئی ٹیم آگے لانا ہوگی جو اس منجھدار میں سے ن لیگ کی کشتی کو آگے لے کر جا سکے۔

سوال یہ بھی ہے کہ اب حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو بالخصوص عمران خان کو اپنی جماعت اور حکومت میں سنجیدہ گروپ کی بات سننی ہوگی۔ اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ بنانا ہو گا۔ ساتھ ملکر چلنے کی راہیں تلاش کرنا ہونگی۔ محاذ آرائی کی سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا۔ شہباز شریف سے تعاون کے راستے تلاش کرنا ہونگے۔ ورنہ حکومت کے لیے دن بدن مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ اب باری حکومت کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔