جنھیں جرم عشق پر ناز تھا…

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 16 فروری 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عاصمہ جہانگیرکے انتقال کو ایک سال بیت گیا ، مگر اس ایک سال میں شہریوں کے حقوق کی پامالی، شہری آزادیوں پر قدغن ، شہریوں کے لاپتہ ہونے اور ذرایع ابلاغ کے تحلیل ہونے کے خدشات گہرے ہوگئے ہیں ۔ پارلیمنٹ کی اکثریت سے حکومت بنانے والے پارلیمنٹ کی سالمیت کو پامال کر رہے ہیں ۔ فیض آباد دھرنا کیس پر تاریخی فیصلے میں حکومت مکمل عملدرآمد نہیں کر پا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں کھوکھلی ہورہی ہیں۔ سول سوسائٹی کو مفلوج کردیا گیا ہے۔

عاصمہ نے ایک سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی۔ وہ ابھی زیر تعلیم تھیں کہ پہلے آمر ایوب خان نے بنیادی شہری آزادیوں پر قدغن لگادی اور سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیدیا گیا تھا۔ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی کو مارشل لاء کو غیر قانونی قرار دینے پرگرفتار کرلیا گیا تھا مگر لاہور میں جیلانی صاحب کی رہائش گاہ مخالف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا محور تھی۔ عاصمہ کے نانا مولانا صلاح الدین نے ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے اجتماع میں ایوب خان کی سخت سرزنش کی تھی۔

جنرل ایوب خان نے نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان کو مغربی پاکستان کا گورنر اس بناء پر مقرر کیا تھا کہ وہ مخالف سیاسی رہنماؤں کو سزائیں دینے میں شہرت رکھتے تھے مگر عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی اسیری کے باوجود عزائم بلند کیے ہوئے تھے۔ ایک دن ملک غلام جیلانی کی رہائش گاہ پر شام کے اندھیرے میں نامعلوم افراد نے اندھادھند فائرنگ کی۔ اس حملے کا نشانہ  بلوچستان کے سیاست دان باقی بلوچ تھے جو ملک غلام جیلانی کی قیام گاہ پر کسی اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے مگر نامعلوم افراد کی فائرنگ پر سرکاری خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے بیوروچیف شہید ہوئے مگر کوٹھی کے مکینوں کو ایک پیغام مل گیا۔

لاہور میں یہ بات مشہور ہوئی کہ یہ حملہ جیلانی خاندان کے لیے وارننگ تھی، مگر عاصمہ ،ان کی بہن حنا جیلانی، بھائی اور والد کے عزائم پر کوئی فرق نہ پڑا بلکہ جیلانی خاندان میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف جوش و جذبہ زیادہ تیز ہوا،  ایوب خان رخصت ہوئے۔

یحییٰ ٰخان نے عام انتخابات تو کرائے مگر انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کے خلاف آپریشن شروع ہوا ۔ پیپلز پارٹی اور مذہبی جماعتوں نے جنرل یحییٰ خان کی جنگجو پالیسی کی بھرپور حمایت کی مگر ملک غلام جیلانی نے بنگلہ دیش میں ہونے والے آپریشن کے خلاف بھرپور آواز بلند کی، یوں دسمبرکی جنگ کے دوران ملک غلام جیلانی کے اصولی مؤقف نے انھیں جیل پہنچا دیا۔

عاصمہ نے اپنے والد کی نظربندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عاصمہ کی یہ پٹیشن مارشل لاء کو غیر قانونی قرار دینے کی وجہ بنی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کو غیر قانونی قرار دیا ۔ عاصمہ کا گھر پیپلز پارٹی کی حکومت کے آمرانہ اقدامات کے خلاف مزاحمت کا مرکز بنا رہا۔ ملک غلام جیلانی نے بلوچستان میں آپریشن کوخطرناک اقدام قرار دیا مگر غلام جیلانی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کرگئے۔ عاصمہ کی شادی لائل پور کے صنعتکار جہانگیر سے ہوئی، عاصمہ نے قانون کی تعلیم حاصل کی ۔

یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے آئین معطل کر کے بنیادی انسانی حقوق کو بھی مفلوج کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے قوانین کے ذریعے خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا تھا۔ ریپ کا ذمے دار عورت کو قرار دیا گیا تھا۔ عاصمہ ، حنا جیلانی اور دیگر خواتین نے لاہور میں وومن ایکشن فورم میں خواتین کو اکٹھا کیا، یوں خواتین کی تاریخی جدوجہد کاآغاز ہوا۔ لاہور کے مال روڈ پر خواتین نے جلوس نکالا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔

حبیب جالب خواتین کو بچانے کے لیے  مال روڈ پر آگئے۔ جالب اور کئی عورتوں کے سر پھٹ گئے۔ عاصمہ، حنا جیلانی سمیت دیگر کئی خواتین کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کردیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، جسٹس دوراب پٹیل، آئی اے رحمن اور ڈاکٹر مبشر حسن وغیرہ نے انسانی حقوق کمیشن قائم کیا۔ ایچ آر سی پی نے پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ، خواتین، پس ماندہ طبقات اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ پسند کی شادی کے حق کے لیے عاصمہ نے آواز بلند کی، رجعت پسند عاصمہ کے خلاف متحد ہوئے۔

عاصمہ نے شہریوں خاص طور پر غیر مسلم شہریوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھائی۔ عاصمہ کی جدوجہد غیر مسلم شہریوں اور خواتین کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ بھٹہ مزدوروں کو مزدور قوانین کے دائرہ میں لانے کے لیے وہ سپریم کورٹ تک گئیں اور سپریم کورٹ سے بھٹہ مزدوروں کی جبری مشقت کو جرم قرار دیا گیا، انھوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ عاصمہ جہانگیر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی جدوجہد میں سب سے آگے تھیں ،افتخار چوہدری بحال ہوئے۔ عاصمہ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے پاناما اسکینڈل کی آڑ میں سازش کو بھانپ لیا۔

وہ جوڈیشل ایکٹوازم کے خلاف ایک نئی طاقت کے ساتھ سامنے آئیں۔ انھوں نے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے خلاف مہم چلائی۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اس معاملے کا ازخود نوٹس لینا پڑا مگر وہ مسلسل طالبانائزیشن کے خلاف آواز بلند کرتی رہیں۔انھوں نے ہمیشہ شہریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور ایسے فیصلوں کے خلاف ڈٹ گئیں جس سے شہری آزادیوں کو زک پہنچتی ہو۔ عاصمہ کے انتقال کے بعد سپریم کورٹ نے تین تاریخی فیصلے کیے۔جن سے غیر مسلم شہریوں کو اپنے حقوق کا احساس ہوا اور نچلی عدالتوں کے دباؤ میں دیے گئے فیصلوں کے نقصانات کا ازالہ ہوا۔

سزائے موت کی کوٹھڑی میں بند کئی اسیروں کو انصاف کی ایک نئی امید پیدا ہوئی۔ فیض آباد دھرنا کیس میں مختلف اداروں کے کردار کو واضح کیاگیا۔ اس فیصلے میں دھرنے میں ملوث افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے احکامات دیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں کورٹ مارشل کے احکامات جاری کیے۔ یہ تینوں فیصلے دراصل عاصمہ جہانگیر اور ان کے ساتھیوں کی 49 سالہ جدوجہد کا ہی نتیجہ ہیں۔

عاصمہ آزادئ صحافت اور صحافیوں کے بہتر حالات کار کے مقصد کے لیے صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی رفیق رہیں۔ عاصمہ نے قانون کے نفاذ،پارلیمنٹ کی بالادستی، مظلوم طبقات کو یکساں انصاف کی فراہمی کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی۔ اگرچہ عاصمہ کے انتقال کے بعد شہری آزادیوں پر پابندیاں لگیں اور ذرایع ابلاغ کا بحران شدید ہوا جس سے ایک دفعہ پھر پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کا سوال اہم ہوگیا۔ ان کے جنازے میں ہزاروں مرد اور عورتوں نے شرکت کی۔

نماز جنازہ مولانا مودودی کے صاحبزادے حیدر مودودوی نے پڑھائی۔ ان کی موت پر ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے سوگ منایا۔ آج پھر انسانی حقوق کی پاسداری کا سوال اہم ہے۔ عاصمہ کی ضرورت زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ انھوں نے ساری زندگی انسانوں سے محبت کی۔ بقول شاعر

’’جنھیں جرم عشق پر ناز تھا،وہ گنہگار چلے گئے۔ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔