بس آوازیں ہی آوازیں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 17 فروری 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

جہاں ہمیں دیگر خوش فہمیاں اور ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم سوچتے ہیں اور یہ بھی کہ کیا خوب سوچتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں ،ان کی یادداشت ہی جاچکی ہے جنہیں یہ تک یاد نہیں ہے کہ وہ کون ہیں کیا ہیں ، وہ چاہتے کیا ہیں ، ان کی مرضی کیا ہے ، ان کے حقوق کیا ہیں ، ان کی ضروریات کیا ہیں ، ان کے فرائض کیا ہیں ، پھر بھی اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں۔

واہ صاحب واہ ! کیا خوب ہیں ہمارے لوگ آپ اس وقت سوچتے ہیں جب آپ سچ اور جھوٹ ، غلط اور صحیح میںامتیازکرتے ہیں، سوچنے کے معنی انتخاب کرنا ہیں ، آپ کو ہاں یا نہیں کہنے کا اختیار حاصل ہے ۔ آپ کو یہ اہلیت حاصل ہے کہ قبول کریں یا مسترد کریں جو بھی اشیاء صحیح ہیں جو بھی اشیا درست ہیں جو بھی اشیا منصفانہ ہیں جو بھی اشیاء خالص ہیں جو بھی اشیاء ایمان دارہیں۔

پرنٹائس امریکا کے شہر ساگ ہاربر میں1834 میں پیدا ہوئے انھیں اپنے وقت کا عجیب ترین آدمی کہا جاتا تھا ، جس نے ہوائی جہاز اور ریڈیوکا تصور پیش کیا اور ذہنی ٹیلی پیتھی کی نہ صرف پیشگوئی کی بلکہ وہ اس کی پریکٹس بھی کرتے تھے آج بھی ان کی قبر پر ایک بڑا کتبہ لگا ہوا ہے جس پر تحریر ہے ’’سوچیںاشیاء ہیں ‘‘ وہ اشیا جو عزت کے قابل ہیں جو محبت اور پوجا کے لائق ہیں لیکن ہم اس بات کوکیوں کر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس بات کو وہ ہی سمجھ سکتے ہیں جو سوچتے ہیں اور ہم 20 کروڑ تو بس چوراہے پر بیٹھے چاروں طرف سے آنے والی چیختی اور چلاتی آوازوں کو سن رہے ہیں ۔

ایک سے ایک سریلی آوازیں ایک سے ایک بھدی آوازیں چاروں طرف سے بس آوازیں ہی آوازیں پکار رہی ہیں۔ پکار بلا وہ ہی بلاوہ کہیں سے یہ آواز آرہی ہے یہ ملک ہمارا ہے یہاں اسلامی نظام آئے گا، کوئی چلا رہاہے لبرل ازم آئے گا ،کوئی چیخ رہاہے یہاں طالبان کا نظام آئے گا ،کوئی چلا رہا ہے داعش سب سے بہتر ہیں ، کوئی چیخ رہا ہے یہ زندگی بے کار ہے ، ابدی زندگی کی فکرکرو ،کوئی چلا رہا ہے، صرف میں مسلمان ہوں باقی سب کافر ہیں۔ اتنے میں ایک نئے صاحب آکر چلانا شروع کردیتے ہیں سب کے سب کافر ہیں، صرف میں ہی مسلمان ہوں میراکہنا مانو۔ کوئی کہہ رہا ہے مسئلوں کا حل نئے صوبے میں ہے توکوئی کہہ رہا ہے صوبے میں نہیں بلکہ نئے صوبوں میں ہے ۔

اتنے میں نیا شور پیدا ہو جاتا ہے کہ تبدیلی آرہی ہے لوگ چاروں طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں کہ کہاں سے تبدیلی آرہی ہے ، اسی دوران ایک نیا شور اٹھتا ہے ملک میں خوشحالی آگئی ہے اور لوگ چاروں طرف خوشحالی کو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ چاروں طرف بڑا ہی مزیدار ، دلچسپ کھیل تماشا لگا ہوا ہے ہر نئے شور پر یہ جوبائیس کروڑ ہیں دل کھول کر تالیاں بجانا شروع کردیتے ہیں اور پھر دوسرے نئے شور پر سوچے سمجھے بغیر اچھلنا کودنا شروع کردیتے ہیں ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ سب سے انفرادی طور پر ان کے متعلق پوچھیں تو سب متفقہ طور پر یہ ہی کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں لیکن جب بھی نیا شور اٹھتا ہے تو سب سے پہلے اس کی طرف دوڑ لگانے والوں میں وہی شامل ہوتے ہیں ۔یہ جو بائیس کروڑ ہیں سب کی سن رہے ہیں سب کو دل کھو ل کر داد دے ر ہے ہیں ، لیکن اس سارے شور شرابے میں وہ کہیں گم ہوگئے ہیں ، کہیں کھوگئے ہیں اور کسی کو بھی وہ یاد تک نہیں ہیں ،کوئی بھی ان کے متعلق جاننے تک کے لیے تیار نہیں ہے ، سب کو بس اپنی اپنی پرفارمنس کی پڑی ہوئی ہے، سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شور مچانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

اس سے زیادہ دہشت ناک منظر نامہ کوئی اور ہوہی نہیں سکتا ہے جس میں بائیس کروڑ جیتے جاگتے انسان محض تماشائی بنے ہوئے ہیں جو سب کچھ کرسکتے ہوں لیکن کچھ بھی نہیں کررہے ہوں جنہیں چند سو وہ لوگ جو صرف اپنے معاشی مفادات کے غلام ہیں اپنی اپنی مفادات کی گاڑیوں کا بیل بنانے میں مصروف ہوں اوربیل بھی وہ جوکبھی اپنے متعلق نہ سوچے جوکبھی پیچھے مڑکر نہ دیکھے ، بس سر جھکائے صرف مفادات کی گاڑی کو کھینچتا رہے ۔

اب سارا قصور کس کا ہے یہ بتانے کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر آپ خوشی خو شی بیل بننے کے لیے تیار اور راضی ہیں تو ظاہر ہے گاڑی والے کوکسی پاگل کتے نے تھوڑی کاٹا ہے جو وہ آپ کو بیل بننے کے لیے منع کر ے گا یا روکے گا یا آپ کو سیدھی راہ دکھائے گا جب آپ اپنے لیے نہیں سو چ رہے ہیں جب آپ دوسروں کو اپنے سارے فیصلے کرنے کااختیار دے رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو تو بیل ہی بنائیں گے، سر پر تھوڑی بٹھائیں گے۔

اصل میں اصل مسئلہ ہی سوچنے کا ہے لیکن اس کے لیے پہلے یاداشت کا واپس آنا ضروری ہے، ایک ہاسدی قصے میں لکھا ہے کہ نیک نامی کے مالک ریبائی بعل ، شم ، تو نے جس کو ہشیت کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ایک اشد ضروری مگر خطرناک مہم شروع کی تھی مسیح کی آمد میں عجلت کے لیے تمام انسانیت کے لیے جو بڑی مشکل میں گرفتار تھی اورجن کو بہت ساری برائیاں گھیرے ہوئے تھیں ان کو فوراً بچایاجانا تھا۔

تاریخ میں دخل اندازی کے لیے ہشیت کو سزا دی گئی تھی ایک دور افتادہ جزیرے پر اپنے ایک مخلص ملازم کے ساتھ جلاوطنی کی مایوسی کے عالم میں ملازم نے اپنے آقا سے درخواست کی کہ وہ اپنی پراسرار طاقت سے دونوں کو گھر و اپس پہنچا دے ۔ ناممکن ! ہشیت نے جواب دیا میری طاقت مجھ سے چھین لی گئی ہے تو آپ کوئی دعا کیجیے، مغفرت کی دعاکیجیے یا کوئی معجزہ کیجیے ’’میں سب کچھ بھول گیاہوں ‘‘ ۔

اور پھر دونوں ساتھ مل کر رونے لگے پھر اچانک آقا اپنے ملازم سے مخاطب ہوا ’’ذرا مجھے دعا یادکرائو کوئی بھی دعا ‘‘ دیکھیے اگر میں کرسکا ملازم نے جواب ’’ میں خود بھی سب کچھ بھول چکاہوں‘‘ سب کچھ بالکل سب کچھ جی ہاں سوائے …! سوائے کیا سوائے حروف کے ہشیت یہ سنتے ہی خوشی سے چلایا توپھر تمہیں انتظار کس بات کا ہے تم حروف کی تلاوت شروع کرو اور میں تمہارے ساتھ ساتھ دہراتا جائوں گا ‘‘۔ اور پھر دونوں جلا وطنوں نے تلاوت شروع کی پہلے سرگوشی میں پھر ذرا اونچی آواز میں ’’الف ، بے، جیم ، دال اور یہ عمل بار بار کرتے رہے رہا ہر بار زیادہ قوت سے زیادہ گرم جو شی سے حتیٰ کہ ہشیت میں اس کی طاقتیں عود کرآئیں اور اس کی یاداشت واپس آگئی ۔

یاداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہوجاتا ہے قید کی اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے جب آپ کی یاداشت واپس آجائے تو پھر سوچنا یہ ملک کیوں بنایاگیا تھا ، اس کے مقاصد کیا تھے ۔ بانیان پاکستان کے ذہنوں میں نئے ملک کا تصور کیا تھا انھوں نے اپنی تقاریر میں کیا کہا تھا اور یہ بھی سوچنا کہ کیا ساری زندگی تمہیں بیل ہی بنے رہنا ہے یا تمہیں اپنی زندگی کامالک بننا ہے اور جنھوں نے تمہیں بیل بنا رکھا ہے کیا انھیں سزا دینی ہے یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔