بھارتی عزائم بے نقاب کرنے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  اتوار 17 فروری 2019
پاکستان کو بھارتی عزائم سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو بھارتی عزائم سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلواما میں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد بھارت نے روایتی طرزعمل اپناتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا ہے، بھارتی حکومت اور میڈیا جنونی فضا پیدا کر رہے ہیں ۔ اگلے روز بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنرکو وزارت خارجہ طلب کیا اور ایک احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیاگیا۔

بھارتی حکومت نے پاکستان میں تعینات اپنے ہائی کمشنر اجے بساریہ کو بھی نئی دہلی طلب کرلیا ہے۔ پاکستان نے پلواما حملے پر بھارتی احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے جمعہ کے روز بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گوروآہلووالیا کو دفتر خارجہ طلب کرکے جوابی مراسلہ ان کے حوالے کیا جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے پلواما واقعہ کی تحقیقات کیے بغیر الزام پاکستان پر تھوپ دیا ہے۔

مبینہ حملہ آور بھارت کے زیر تسلط علاقے میں موجود تھے۔ ان کا پاکستان سے تعلق نہیں۔پاکستان مقبوضہ وادی میں حملوں کی مذمت کرتا ہے، دفترخارجہ نے بھارتی حکومت کی جانب سے دراندازی کے الزامات کو بھی مسترد کرتے ہوئے بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو قابل افسوس قرار دیا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھی ایک ٹوئٹ میں اس حملے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ہمیشہ سے وادی میں پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے بغیر تحقیقات اور ثبوتوں کے اس حملے کو ریاست پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی شہر جھانسی میں ڈیفنس راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پاکستان انڈیا کو تباہ کرنے کا خواب چھوڑ دے۔ان کاکہنا تھا کہ پاکستان اگر یہ سوچتا ہے کہ وہ انڈیا کو بدحال کر سکتا ہے تو اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مزید کہا کہ جنھوں نے پلواما حملے کا ارتکاب کیا ہے انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ اب سیکیورٹی فورسز کو اپنا کام کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی ہے۔انھوں نے بھارتی فوج کو پلوامہ دھماکے کا منصوبہ بنانے والوں پر کسی بھی لمحے اور کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی ہدایت کردی ہے ۔ نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں قومی سلامتی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا جس میں وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیرکے علاوہ تینوں افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس میں بھارت کی عسکری اور سفارتی حکمت عملی پر غور کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت کی طرف سے دیا گیا’’موسٹ فیورڈ نیشن‘‘کا درجہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا وہ تمام ممکنہ سفارتی اقدامات کرے گا جن کے تحت پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے الگ کیا جا سکے۔

بھارتی حکومت نے پلواما حملے کے بعد جو طرزعمل اختیار کیا ہے اس سے عیاں ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اور ان کی جماعت بجائے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنے کے پاکستان مخالف فضا ہموار کرنے میں مصروف ہے۔ پلواما حملے کی اگر ٹائمنگ پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ بی جے پی ریاستی انتخابات میں مسلسل شکست کھا رہی ہے اور غیرجانبدار سیاسی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی شاید اگلا الیکشن نہ جیت سکے۔

ایسے حالات میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت گر رہی ہے، اسے پلواما جیسے واقعے کی ضرورت تھی جس کی بنیاد پر وہ بھارتی عوام میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے سکے۔ پلواما واقعہ کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ اس پہلو کو زیادہ عیاں کر رہی ہے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی قیادت نے آج کل آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے جب کہ بھارتی میڈیا اس کام میں ان کے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھارتی عزائم بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی برادری کوحقائق سے آگاہی حاصل ہو سکے ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ نے درست مؤقف اختیار کیا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ پلواما واقعے کی تاحال تحقیقات مکمل نہیں ہوئی ہیں، اس کے باوجود بھارتی حکومت اور میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے۔ پاکستان کو بھارتی عزائم سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ نریند مودی اور ان کے قریبی ساتھی اس موقع پر کچھ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ انھیں اگلا الیکشن جیتنا ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ بھارتی حکومت الیکشن جیتنے کے لیے عوام میں جنگی جنون کو ہوا دے سکتی ہے اور وہ ماضی میں بھی ایسا کرتی رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔