موت برحق لیکن کفن میں شک

سعد اللہ جان برق  اتوار 17 فروری 2019
barq@email.com

[email protected]

پشتو میں ایک کہاوت ہے جو اکثر ٹرکوں اور بسوں پر بھی لکھا ہوا ہوتاہے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ اسپتالوں اور کلینکوں پر بھی لکھنا چاہیے کہ

مرگ حق دے

خو کفن کے شک دے

یعنی موت برحق ہے لیکن کفن کے بارے میں شک ہے کہ نصیب ہوگا یا نہیں اور ہمارے خیال میں یہ زیادہ تر غلط مقامات اور ذرائع اموات پر لکھا جاتا ہے، ٹرکوں، بسوں اور ٹرالیوں کے مارے ہووں کو یقینی طور پر کفن تو مل ہی جاتا ہے، مشکوک مقامات اصل میں کلینک اور اسپتال ہوتے ہیں کیونکہ وہاں مریض کا چمڑا تک اتار دیا جاتا ہے، تو کفن کے لیے اس کے پاس بچے گا کیا؟

ویسے تو سب کو پتہ ہے لیکن تازہ ترین ایس ایم ایس جو کسی دل جلے یا بے کفن یا کسی بے کفن کے والی وارث نے کہا ہے وہ لفظ بہ لفظ پیش خدمت ہے۔

برائے نام سرکاری اسپتال، بے تحاشا پرائیوٹ کلینکس، نااہل اور ظالم ڈاکٹر، ان ٹرینڈ ٹیکنیشنر، جعلی لیبارٹریاں، جعلی آپریشنر، جعلی دوائیں، جعلی محکمہ صحت، آدمی جائے تو کہاں جائے؟

ہمیں ایس ایم ایس کرنا نہیں آتا ورنہ اسے جواباً وہ مقام بتادیتے جہاں اسے جانا چاہیے، وہاں ایک نہایت قابل اور کوالیفائیڈ اور فرض شناس بلکہ انسانیت کا نجات دہندہ ڈاکٹر حضرت عزرائیل ہر روگ کا علاج کرتاہے وہ بھی بغیر فیس بالکل مفت۔ نہ فیسوں کی مار مارتا ہے نہ اپنی لیبارٹریوں میں پھراتا ہے، نہ اپنی کمیشن والی دوائیاں کھلاتا ہے، سیدھا سیدھا وہی علاج کرتا ہے جو یہ لوگ گھما گھما کر، دھو دھو کر اور نچوڑ نچوڑ کے کرتے ہیں۔ وہ ایک شخص کا قصہ تو آپ نے سنا ہوگا جس کے بیٹے پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ لوگوں کے مشورے پر اس نے اپنے پانچ ہزار فیس والے وکیل سے لے کر مقدمہ پچاس ہزار والے وکیل کے حوالے کر دیا۔ ملزم کو تو پھانسی کی سزا ہوئی تو پہلے والے وکیل نے اس کے باپ سے کہا کہ یہی کام تو میں پانچ ہزار میں بھی کر سکتا تھا، پچاس ہزار خرچ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟

یہاں بھی معاملہ وہی ہے، جب جناب ڈاکٹرحضرت عزرائیل بغیر کسی فیس، خرچ اخراجات اور آپریشن کے ایک کام سیدھا سیدھا کرتے ہیں تو اس کے لیے مریض کو اتنا پھرنے پھرانے، خوارکرنے، نچوڑنے کھکھوڑنے بلکہ بھنبھوڑنے اور کنگال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

لیکن مسئلہ غالباً فیشن کا بھی ہے اور پھر اس کم بخت خطرناک ترین فقرے کی بھی کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ چنانچہ آپ کسی بھی مریض کی عیادت کو جائیں لواحقین مریض کی حالت وغیرہ کے بارے میں بہت کم بات کریں اور ڈاکٹروں، اسپتالوں، کلینکوں، ٹیسٹوں، دواوں وغیرہ کے بارے میں بڑہانکیاں زیادہ کریں گے، فلاں ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئے ہیں جو اتنے اتنے ہزار فیس لیتا ہے اور مریض کا نمبر تین مہینے کے بعد آتاہے اور مریض کو صرف پندرہ سیکنڈ دیکھتا ہے، اس فلاں فلاں لیبارٹری میں اتنے اتنے ہزار کے ٹیسٹ کروائے پھر جو دوائیں لکھیں وہ مشکل سے ملتی ہیں، بیس بیس ہزار کا ایک انجکشن، دو دو ہزار کی ایک ایک گولی۔ فلاں کلینک میں داخل کروایا جہاں کا خرچہ ایک ہزار روپے فی سیکنڈ ہے۔

پس منظر میں مریض کراہتا رہتا ہے اور یہاں ’’قصیدہ خودستائی‘‘ جاری رہتا ہے۔ اس کے پیچھے وہی ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کا سلسلہ ہوتاہے جس کے جواب ’’کچھ کہنے‘‘ ہی کے لیے مریض کو قصائیوں کے ہاں پھرانے کے جھوٹے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ اب اگر منزل مقصود ہی مریض کا علاج نہیں بلکہ فیشن ایبل فضولیات ہوں تو ان کی تسلی وتسکین کے لیے ایسی ڈاکٹر، کلینکس، آپریشن، لیبارٹریاں اور ٹیسٹ تو پیدا ہوں گے۔

ہمارا ایک پرانا اسکول کا ساتھی تھا، وہ کسی سرکاری اسپتال میں بھرتی ہوگیا۔ وہاں معلوم نہیں کیا کرتا تھا لیکن ریٹائر ہونے پر ایک چلتے ہوئے عطائی نے لوگوں کو دکھانے کے لیے لیبارٹری بھی بنادی جس میں ہمارا وہی ریٹائرڈ دوست خوردبین کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا۔ ہر مریض ملیریا ٹیسٹ کے لیے ریفر کیا جاتا تھا۔ یہ ملیریا کی تصدیق کرتا اور پھر ڈاکٹر صاحب دواوں کا ایک پلندہ حوالے کرتا۔

ایک دن ہم نے کسی ماہر اور کوالیفائڈ ڈاکٹر سے سنا کہ ملیریا کے جراثیم اتنے باریک ہوتے ہیں کہ بہترین خوردبین، بہترین بینائی اور بہترین کوالی فیکشن کے بغیر دکھائی نہیں دیتے بلکہ یہ بھی کہا کہ چالیس سال کے اوپر والے لوگ یہ جراثیم دیکھ ہی نہیں سکتے۔

چنانچہ ہم نے اپنے کلاس فیلوخوردبین والے کو پکڑ لیا جس کی عمر ستر سال تھی۔ پوچھا تم نے کبھی کسی مریض کو یہ بھی لکھا ہے کہ جراثیم نہیں ہیں۔ بولا کیوں لکھوں، ڈاکٹر صاحب کا حکم ہے کہ ہر مریض میں جراثیم ڈالنا ہے۔ چلتے چلتے ہم نے خوردبین میں بھی جھانکا تو وہ بھی بینائی سے محروم نکلی۔

اور وہ ڈاکٹر امرود مردود کا قصہ تو ہم نے سنایا تھا کہ جب وہ ’’اپنی تعداد‘‘ پوری کرکے حج پرگیا تو پیچھے اپنے کلینک میں اپنے ایم بی بی ایس بیٹے کو بھٹا کرگیا تھا۔ واپسی پر ساری نمائشی تقریبات سے فارغ ہوکر اس نے بیٹے سے’’کاروبار‘‘ کے بارے میں پوچھا۔

بیٹا فخریہ انداز میں بولا، بابا وہ جو آپ کا ایک مریض تھا جسے کھانسی کی شکایت بیس سال سے تھی، اسے میں نے بھلا چنگا کردیا اور وہ جو بواسیر کے مریض میں پندرہ سال سے مبتلا تھا وہ بھی اب ٹھیک ٹھاک ہے اور جس مریض کو دس سال سے دمہ تھا اسے بھی۔

ڈاکٹر امرود مردود نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا کم بخت تم نے تو میری ساری دودھیلی گائیں مار ڈالیں، یہ جو میں نے تمیں ایم بی بی ایس تک پڑھایا، اتنی جائیداد بنائی اور حج کے اخراجات نکالے یہ تو انھی مریضوں کی برکت تھی۔

اس ایس ایم ایس والے نے آخر میں سوال اٹھایا ہے کہ آخر محکمہ صحت والے کچھ کرتے کیوں نہیں ہیں، لگتاہے یہ آدمی تازہ تازہ کہیں اور سے آیا ہے، اگر مستقل پاکستانی ہوتا تو یہ سوال کبھی نہ اٹھاتا کہ محکمہ صحت کیا کر رہا ہے بلکہ باقی کے محکموں کے بارے میں اسے پتہ ہوتا کہ کیا کر رہے ہیں۔

آخر ان سب کو ایک دن ریٹائرڈ بھی تو ہونا ہے، پھر کیا کریں گے اگر پہلے ہی سے اپنے روزگار کا بندوبست پرائیویٹ طور پر نہ کریں۔ جعلی اسپتال، کلینکس، لیبارٹریاں، دکانیں نہ ہوں تو کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا ریٹائرمنٹ کے بعد۔ محکمہ تعلیم اگر سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلانا شروع کردے تو ریٹائرڈ ہونے والے کیا چھولے پکوڑے بیچیں گے؟ علی ہذاالقیاس۔ بلکہ کچھ تو نوکری کے ساتھ ساتھ اب بھی سائیڈ بزنس میں ہیں:

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔