ہندو بھارت

عبدالقادر حسن  اتوار 17 فروری 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ اب چونکہ ایک تاریخی تنارعہ کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اس لیے اب بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہونے چاہئیں ۔ چنانچہ پاکستان کے ہر حکمران نے حکومت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ بھارت کے حکمرانوں کو خیر سگالی کا پیغام بھیجا،کچھ حکمرانوں نے برابری کی سطح پر یہ کوشش کی اور کچھ ایسے بھی نکلے جنہوں نے بھارت نوازی بلکہ بھارت پرستی سے مغلوب ہو کر بھارت سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوششیں کیں اور ہمارے نواز شریف نے تو یہ تک کہا کہ ان کو پاکستانی قوم نے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے ۔کیا کیا واقعات ہمارے سامنے ہیں مگر بھارتیوں نے ہماری کسی بھی طرح کے خیر سگالی کے جذبے کو قبول نہیں کیا بلکہ ان کی جنگی تیاریاں پہلے سے بھی بڑھ گئیں۔

بھارت ایک ایسے دشمن کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے جس کے بعد دنیا کی ایک بڑی طاقت کہلا سکے ۔بھارت کی اس شدید دیوانہ وار خواہش کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ برصغیر کے مسلمان ہیں۔بھارت کے اندر باہر بسنے والے مسلمان جن کی پاکستان نمائندگی کرتا ہے، میںیہاں بھارت کے ساتھ تجارت کے متوالوں اور بھارتی کلچر کے عاشقوں کی بات نہیں کر رہا، میں اس غالب اکثریت کی بات کر رہا ہوں جس کا نام پاکستان ہے جس کا ذہن ہندوئوں کے بارے میں بالکل صاف ہے اوراس میں کسی سیاسی مصلحت کا غبار نہیں جو اپنے مسلمان ہونے کا احساس رکھتا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ مسلمان دنیا میں کہیں بھی ہو وہ سر اٹھاتا ہے تو غیر مسلم قوتیں اسے کچلنے کے لیے متحد ہو جاتی ہیں ۔

یہ عالمی سطح کی مسلمان دشمنی ہے کہ مغرب کے بالا دست ممالک بھارت کی موثر سر پرستی کر رہے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہے کہ بھارت خواہ کتنا بھی بڑا طاقت ور ملک بن جائے، وہ کبھی کسی صورت میں بھی مسلم دوست نہیں ہو گا ۔ اس لیے بھارت سے دوستی کا رسک آسانی اور اطمینان کے ساتھ لیا جا سکتا ہے ۔ پاکستانیوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بھارت کی سر پرستی چین کو دبانے کے لیے کی جارہی ہے اور بھارت سیاست دان بھی آج سے کچھ وقت پہلے تک پاکستان کو یہی دھوکہ دیتے رہتے تھے لیکن چین ہمیشہ بھارت سے اتنا ہی آگے رہے گا جتنااب ہے بلکہ بھارت کی کثرت آبادی اس ملک کو چین کے مقابلے میں زیادہ پسماندہ بنا دے گی۔

عرض کرنے کی بات صرف اتنی ہے کہ بھارت میں کوئی پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے اور اس کا بھارت کی جانب سے اتنا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگے۔ انتہا پسند مودی سرکار جب سے اقتدار میں آئی ہمارے سابقہ حکمران اس پر ہزار جان سے فریفتہ ہوتے رہے بلکہ ان کی ذاتی تقریبات اور محفلیںبھی مودی کی شرکت کے بغیر نامکمل رہتیں ۔ لیکن یہی مودی سرکاری پاکستان کے بارے میں جو رویہ رکھتی چلی آرہی ہے اس کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ بھارت کی خوشنودی کے لیے پاکستان آنکھیں بھی بچھا دے لیکن ہندوئوں کا بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں رویہ انتہا پسند ہی رہے گا اور وہ کوئی ایسا موقعہ جانے نہیں دیتا جس سے پاکستان کی عالمی سطح پرسبکی ہو ۔

پلوامہ حملے کے بعد بھی بھارت نے حسب سابق بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا ہے اور پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں اور پاکستان کو پسندیدہ ملک کا درجہ ختم کر دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے ایسے بے بنیاد الزامات اس کی پاکستان دشمنی اور پاکستان پر عالمی دبائو میں اضافہ کرانے کی ایک کوشش ہے حالانکہ سب یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ خود بھارت کے اندر ایک درجن سے زاید علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جو خود بھارت کی جمہوریت پر ایک سوالیہ نشان اور اس کے اندرونی انتشار کی علامت ہیں ۔ ان علیحدگی پسند تحریکوں کی جانب سے بھی بھارت میں گڑ بڑ ہوتی رہتی ہے لیکن جب بھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو بھارت کا پہلا نشانہ پاکستان بن جاتا ہے ۔

اگر ہم نے تقسیم ہند سے پہلے کی ہندو مسلم کشمکش کی تاریخ پڑھی نہیں تو تقسیم کے بعد کی تاریخ دیکھی ضرور ہے ۔ ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان لڑی گئیں جنگیں بھی دیکھی ہیں اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے بھی دیکھا ہے اور اندار گاندھی کی ہزار سال کا بدلہ لینے کی خوشی سے لرزتی آواز بھی سنی ہے ۔ بھارت کے سیکڑوں ہندو مسلم فسادات بھی دیکھے ہیں اور مسجدوں کو مندر بنتے بھی دیکھا ہے اور آج کا بھارت بھی ہمارے سامنے ہے جو کشمیر میں اپنی فوجوں کے ساتھ نہتے کشمیریوں پرظلم ڈھا رہا ہے اور اس کے یہ ظلم روکنے والا کوئی نہیں ہے، ایک کمزور مزاحمت ہے جو گزشتہ ستربرسوں سے کشمیری خود کر رہے ہیں ۔

یہ سب کیا ہے یہ تاریخ ہمیں کیا سکھاتی اور بتاتی ہے، وہی کچھ بتاتی ہے جو ان دنوں ایک بار مودی کی دھمکیوں کی صورت میں بتایا جا رہا ہے ۔میں نے جب بھی بھارت پاکستان تعلق بارے سوچا ہے اس کے مطابق ہمارے حکمرانوں کے ذہنوں میں بھارتیوں کے ساتھ صلح وصفائی کی جو رومانوی خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اگر چہ سب کچھ ان کے سامنے ہوتا ہے اور اپنے سابقہ حکمرانوں کا تجربہ بھی لیکن جیسے کی انسان کی فطرت ہے کہ وہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا جب تک تاریخ اسے سکھا نہیں دیتی ۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندو اورمسلمان کے تعلقات کی تاریخ اپنے آپ کو مسلسل دہراتی رہتی ہے اور ہمیشہ دہراتی رہے گی ۔ اسے حالات کا جبر کہیں ، تاریخ کا فیصلہ کہیں یا تقدیر کا جو کچھ بھی کہیں ہندو ہندوستان کی سر زمین پر پاکستان کا وجود برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمیں بھارت دوستی کی خوش فہمی سے نکلنا ہو گا اور ہمسائیہ ملک کوہندوبھارت کی نظر سے اسے دیکھنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔