ہو سکتا ہے

جاوید چوہدری  اتوار 17 فروری 2019
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وہ دونوں میاں بیوی صوفے پربیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے‘بیوی کا موبائل درمیان میںپڑا تھا‘ فون کی گھنٹی بند تھی‘ خاوند کی نظر اچانک فون پر پڑی تو اسکرین پر ایک نام جل بجھ رہا تھا‘ یہ کسی خاتون کا نام تھا۔

خاوند نے بیوی سے کہا ’’تمہارا فون آ رہا ہے‘‘ بیوی نے اسکرین پر نظر ڈالی اور فون سنے بغیر کال کاٹ دی۔ خاوند نے پوچھا ’’کس کا فون تھا‘‘ بیوی نے جواب دیا ’’میری پرانی سہیلی ہے‘‘ خاوند نے پوچھا ’’تم نے فون کیوں نہیں اٹھایا‘‘ بیوی نے جواب دیا ’’میں ٹی وی دیکھ رہی ہوں‘ بعد میں اسے خود فون کر لوں گی‘‘ خاوند بیوی کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا‘ اس نے بیوی کے ہاتھ سے فون چھینا اور اس نمبر پر کال کر دی۔

بیوی نے خاوند کے ہاتھ سے فون چھیننے کی کوشش کی لیکن خاوند صوفے سے اٹھ کر دور کھڑا ہو گیا‘ فون کی گھنٹی بج رہی تھی ‘کال ملی اوردوسری طرف سے ایک پرجوش مردانہ آواز سنائی دی ’’واہ آج ہمارا مقدر ہی جاگ گیا‘‘۔ مردانہ آواز سن کر خاوند کے ماتھے پر پسینہ آ گیا جب کہ بیوی پریشانی کے عالم میں صوفے پر بیٹھ گئی‘ خاوند نے غصے سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘

دوسری طرف چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی‘ خاوند نے اس سے دوسری مرتبہ پوچھا ’’تم کون ہو‘‘ دوسری طرف سے ایک لمبی سانس کی آواز آئی اور وہ بولا ’’آپ اپنی بیوی سے پوچھ لیں‘ یہ مجھے اچھی طرح جانتی ہیں‘‘ خاوند کے غصے میں اضافہ ہو گیا اور اس نے فون پر موجود شخص کو گالیاں دینا شروع کر دیں‘ دوسری طرف کبھی خاموشی ہوجاتی اورکبھی قہقہوں کی آوازآنے لگتی ‘ یہ گفتگو دس‘ پندرہ منٹ تک جاری رہی‘ اس کے بعد خاوند نے فون بند کیا اور بیوی کو مکوں اور ٹھڈوں سے مارنا شروع کر دیا۔

بیوی چیختی چلاتی رہی‘ خاوند سے بات سننے کی درخواست کرتی رہی لیکن خاوند کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا‘ اس دوران بیوی نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی‘ اس کا پائوں رپٹا‘ وہ شیشے کی میز پر گری‘ میز ٹوٹی اور شیشے کا بارہ انچ کا ایک ٹکڑا اس کے سینے میں پیوست ہوگیا‘خاوند بیوی کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ اس نے بیوی کو اٹھایا‘ گاڑی میں ڈالا اور اسپتال کی طرف دوڑ پڑا لیکن بیوی راستے ہی میں دم توڑ گئی‘ دوپہر کو بچے اسکول سے واپس آئے تو ان کی ماں دنیا سے رخصت ہو چکی تھی اور والد تھانے میں بند تھا۔

خاتون کے مرنے کے بعد جب اس ٹیلی فون کال کے بارے میں تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا وہ نمبر مقتولہ کی ایک سہیلی بشریٰ کا تھا‘ بشریٰ دو سال کے لیے ملک سے باہر چلی گئی‘ اس دوران وہ نمبر بند رہا‘ سفر کے دوران بشریٰ کی سم بھی گم ہو گئی‘ اس عرصے میں موبائل کمپنی نے یہ نمبر کسی دوسرے شخص کو الاٹ کر دیا‘ بشریٰ واپس آئی توا س نے نیا نمبر لے لیا‘ اس خاتون کی سہیلی نے اسے بشریٰ کی واپسی کی اطلاع دی تو اس نے بشریٰ کے پرانے نمبر پر فون کر دیا۔

خاتون کا فون کسی مرد نے اٹھایا‘ اس نے اس سے بشریٰ کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’ میں بشریٰ کا خاوند ہوں‘ وہ باتھ روم میں ہے‘ وہ باہر آ جاتی ہے تومیں آپ کی اس سے بات کرا دوں گا‘آپ اس دوران میرے ساتھ بات چیت کر لیں‘‘۔ خاتون نے اس صاحب کو بشریٰ کا خاوند سمجھ کر بات چیت شروع کر دی‘ یہ بات چیت دس پندرہ منٹ تک جاری رہی‘ اس دوران خاتون جب بھی بشریٰ کے بارے میں پوچھتی وہ اسے بتاتا وہ ابھی باتھ روم سے باہر نہیں آئی‘وہ ایک آدھ منٹ میں آ جائے گی‘ آپ اپنے بارے میں بتائیے اور گفتگو کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا۔

پندرہ منٹ بعد ان صاحب نے اس سے کہا ’’ وہ ابھی تک باتھ روم میں ہے‘ وہ باہر آتی ہے تو میں آپ کی بات کرادوں گا‘‘ یوں فون بند ہو گیا۔ آدھ گھنٹے بعد اسی صاحب کا دوبارہ فون آیا‘ اس نے بشریٰ سے بات کرانے کا کہا اور کوئی بہانہ بنا کر خاتون سے گفتگو شروع کر دی‘ اس گفتگو کے دوران خاتون کو معاملہ مشکوک محسوس ہوا اور اس نے سختی سے اس شخص سے کہا ’’بشریٰ کو بلائیں‘‘ صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’یہاں کوئی بشریٰ نہیں ہوتی‘ آپ بشیر سے بات کر لیں‘‘ خاتون نے فون بند کر دیا لیکن وہ صاحب باز نہیں آئے۔

وہ دن میں دس‘ پندرہ مرتبہ اسے فون کرتے‘ خاتون فون ’’اگنور‘‘کرتی رہتی لیکن دن میں ایک آدھ فون اٹھا کر اس صاحب سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی لیکن وہ صاحب باز نہ آئے۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے اس خاتون نے اپنے خاوند کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ‘ اس کا خاوند ذرا شکی مزاج تھا‘ خاتون کا خیال تھا وہ اپنے خاوند سے بات کرے گی تو وہ الٹا اس پر شک شروع کر دے گا۔

دوسری وجہ‘ بیوی کو خطرہ تھا اس کا خاوند کہیں اس سے موبائل واپس نہ لے لے اور یہ فون اس کی بیمار ماں اور اس کے درمیان واحد رابطہ تھا‘ اس کی والدہ دوسرے شہر میں رہتی تھی اور شدید علیل تھی اور وہ فون کے ذریعے اس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی تھی‘ خاتون موبائل کمپنی کو فون کر کے وہ نمبربھی بلاک کرا سکتی تھی لیکن فون اس کے خاوند کے نام پر تھا اور موبائل کمپنیاں اس وقت تک اپنے گاہکوں کی شکایت پر عمل نہیں کرتیں جب تک موبائل کا اصل مالک ان سے رابطہ نہیں کرتا چنانچہ خاتون کے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

موبائل میں یہ نمبر بشریٰ کے نام سے ’’سیو‘‘ تھا اور پھر وہ دن آ گیا‘ اس دن اس کا خاوند دفتر نہیں گیا تھا‘ وہ دونوں میاں بیوی بچوں کو اسکول بھجوا کر ٹی وی دیکھ رہے تھے اور اس دوران اس شخص نے فون کر دیا اور یوں یہ حادثہ ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد جب اس شخص سے رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا وہ یونیورسٹی کا ایک عام سا طالب علم ہے‘ اس نے یہ نمبر کسی سے خریدا تھا‘ فون استعمال کرنے کے چند دن بعد اسے یہ کال ریسیو ہوگئی اور اس نے چانس لینے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے بتایا یونیورسٹی کے زیادہ تر طالب علم یہی کرتے ہیں۔

یہ مختلف نمبر ڈائیل کرتے رہتے ہیں‘ اس دوران اگر ان کا رابطہ کسی خاتون یا لڑکی سے ہو جائے تو یہ مختلف بہانوں سے اس سے گفتگو شروع کر دیتے ہیں‘ یہ کبھی کسی بینک کے نمائندے بن کر انھیں کریڈٹ کارڈ کے فوائد بتانا شروع کر دیتے ہیں‘ کبھی انھیں لون پر گاڑی خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں اور کبھی اکائونٹ کھولنے کا مشورہ دیتے ہیں اور مشوروں کے دوران خواتین کے ساتھ فری ہونا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ کبھی کسی میک اپ برانڈ کا نمایندہ بھی بن جاتے ہیں اور کبھی کچن کی مشینری بیچنے والی کمپنی کے ترجمان بھی اور یوں گفتگو کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ‘ ان کے موبائل پر اگر کبھی کسی خاتون کی رانگ کال آ جائے تو بھی یہ پورا پورا چانس لینے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس چانس کے دوران بعض اوقات ان کا کام بن جاتاہے اور یہ ’’کام‘‘ بعدازاں بے شمار لفنگے طالب علموں کے لیے ترغیب کا باعث بنتا ہے‘ اس قسم کی سرگرمیوں میں طالب علموں کے علاوہ بے شمار مرد بھی ’’انوالو‘‘ ہیں‘ یہ بھی دن میں دس‘ بیس‘ پچاس ’’ایس ایم ایس‘‘ پھینکتے ہیں‘ یہ ان ایس ایم ایس کو ’’کنڈیاں‘‘ کہتے ہیں اور اگر کسی ایک کنڈی میں کوئی مچھلی پھنس جائے تو یہ بھی کامیابی کی ایک لمبی چوڑی کہانی بن جاتی ہے اور اس کہانی کی بنیاد پر بعدازاں دوسرے مرد بھی کنڈیاں پھینکنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ کام اس وقت سائنسی بنیادوں پربھی چل رہا ہے‘ ملک میں بلیک میلرز کے بے شمار گینگز کام کر رہے ہیں‘ یہ لوگ چار پانچ سو سمیں خریدتے ہیں‘ یہ سمیں پڑھے لکھے مردوں اور عورتوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں‘ یہ عورتیں اور مرد کنڈیاں ڈالتے ہیں‘ ان کنڈیوں میں مچھلیاں پھنس جائیں توان خواتین اور مردوں کو ملاقات کے لیے بلایا جاتا ہے اور اس ملاقات کے دوران ’’مچھلیوں‘‘ کی تصویریں اور فلمیں بنا لی جاتی ہیں اور اس کے بعد بلیک میلنگ کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے آخر میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

میں واپس اس کہانی کی طرف آتا ہوں۔ وہ بیچاری خاتون بلاوجہ اس مسئلے میں الجھ گئی تھی‘ وہ خاوند سے ڈرتی تھی اور اس ڈر کے دوران یہ حادثہ پیش آ گیا‘ اگر خاتون اپنے خاوند کو اعتماد میں لے لیتی یا پھر خاوند فون پر گفتگو کے بعد اس سے آرام سے پوچھ لیتا تو شائد اتنا بڑا حادثہ پیش نہ آتا لیکن ہم لوگ بعض اوقات اپنے شک اور اپنے خوف کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ یہ آخر میں ہماری جان لے لیتا ہے۔

یہ واقعہ آپ کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے کیونکہ اب موبائل کے مضر اثرات ہمارے معاشرے میں دکھائی دینے لگے ہیں لیکن آپ سے درخواست ہے اگر یہ واقعہ آپ کے ساتھ پیش آئے تو آپ دوسرے فریق کو اپنی صفائی کا موقع ضرور دیجیے گا‘ ہو سکتا ہے آپ کے گھر کی خاتون واقعی بے گناہ ہو‘ وہ آپ کی مدد کی طلب گار ہو مگر آپ محض شک کی وجہ سے اپنا گھر برباد کر بیٹھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔