انگریزی رے انگریزی

ذیشان محمد بیگ  اتوار 17 فروری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی ایک مسلمہ بین الاقوامی زبان ہے اور اس کو دنیا بھر رابطے کی میں سب سے بڑی زبان کا اہم درجہ حاصل ہے۔

برِصغیر پاک وہند میں انگریزوں کے طویل دورِ حکومت کی وجہ سے یہاں اس کو خاص مقام ملا، جو ابھی تک برقرار ہے۔ مذہبی طبقات کی جانب سے سخت مخالفت کے باوجود انگریز راج میں سر سید احمد خان نے انگریزی زبان کی تعلیم کو مسلمانانِ ہند کی ترقی کے لیے نسخہء کیمیا گردانتے ہوئے اس کے حصول کو مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا اور اس مقصد کے لیے ان تھک محنت کی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس کے طلباء بعدِ ازاں تحریکِ پاکستان کا ہراول دستہ ثابت ہوئے۔پاکستان بننے کے بعد گو قائدِاعظم نے اردو کو قومی و دفتری زبان بنانے کا اعلان کیا مگر عملی طور پر آج تک اس پر صحیح معنوں میں عمل نہ ہو سکا۔ گزشتہ چند سال سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اردو کو قومی ودفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو اس پر ضروری اقدامات کر کے سختی سے عمل درآمد کرنے کا حکم دیا لیکن بوجوہ ابھی تک اس حکم پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔

ظرفہ تماشہ یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فوری طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں تو بھی حکومتوں کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اس امر کو یقینی بناتیں کہ پورے ملک میں ایک ہی نظامِ تعلیم رائج کیا جائے تاکہ امیر اور غریب سب کو ترقی کرنے کے یکساں مواقع میسر آتے اور انگریزی زبان کی تعلیم کو بطور ’’سیکنڈ لینگویج‘‘ صحیح طرح پڑھانے کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جاتا تاکہ اس کے فوائدوثمرات سے ملک وقوم مستفید ہوتے اور ترقی کرتے۔ جبکہ حال اب یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں اردو میڈیم، انگلش میڈیم اور دینی مدرسوں سمیت کئی طرح کے نظامِ تعلیم چل رہے ہیں جو طلباء کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں کہ کون کس مقام تک پہنچ سکتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ انگریزی، جو ترقی کرنے کااعلیٰ ذریعہ مانی جاتی ہے، کی تعلیم دینے کے دعوے دار سکول بھی اپنے مختلف معیارات کی وجہ سے متنوع درجات کے حامل ہیں۔

کچھ تو وہ ہیں کہ جو کیمبرج اور آکسفورڈ کے نصاب کے مطابق تعلیم دیتے ہیں جن کی بھاری فیسوں کا بوجھ اُٹھانا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں اور کچھ نام ونہاد سکول نسبتاً کم فیس لے کر انگریزی سکھانے کا محض ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ ان سے فارغ التحصیل ہونے والے انگریزی کے دو جملے بھی صحیح طرح لکھنے کے قابل نہیں ہوتے اور اُن کے والدین بے چارے اپنی خون پسینے کی کمائی اُن سکولوں کو فیس کی مد میں دے کر اپنے بچے کے سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اس مافیا کے ہاتھوں لُٹتے رہتے ہیں ۔ آج ثانوی اور اعلٰی ثانوی درجوں کے نتائج میں طلباء سب سے زیادہ انگریزی کے مضمون میں ہی فیل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی زبان کی اہمیت کے پیشِ نظر گلی محلوں کی سطح پر بھی انگریزی سکھانے والی اکیڈمیاں جیسے کھمبیوں کی طرح اُگی ہوئی ہیں اور جو انگریزی تو کیا سکھائیں، بس لوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

غرض ایک کھلواڑ ہے جو جاری ہے اور تعلیم سے عاری ’’تعلیم یافتاؤں‘‘ کی فوج ظفرموج ہر سال بے روزگاروں کی ایک بڑی کھیپ کی شکل میں نمودار ہو جاتی ہے جو اپنے تعلیم یافتہ ہونے کے زعم میں چھوٹی موٹی نوکریوں کو تو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتی اور بلآخر حالات کی سختی اور گھروالوں کے ٹوٹتے خوابوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر یا تو نشئے کی وادی میں پناہ ڈھونڈتی ہے اور یا پھر غلط راہوں کا انتخاب کر کے اُن پر چل پڑتی ہے۔

معذرت چاہتا ہوں کہ تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ زیرِ نظر مضمون انگریزی گرائمر کی چند اُن غلط فہمیوں کو دور کرنے سے متعلق ہے جو لاعلمی کے باعث متواتر دہرائی جاتی ہیں اور انہیں درست خیال کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

جملہ، حروفِ عطف، اتصال یا ربط (Conjunctions) سے شروع نہ کرنا

’’حروفِ عطف، اتصال یا ربط‘‘ (Conjunctions) وہ حروف ہوتے ہیں جو دو ’’اسموں‘‘ (Nouns) یا دو ’’جملوں‘‘ (Sentences) کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے قلم اور کتاب میز پر رکھ دو، صبا کھانا کھا کر اسکول گئی۔ ان جملوں میں ’’اور‘‘ اور ’’کر‘‘ حروفِ عطف، اتصال یا ربط ہیں۔ انگریزی گرائمر کا اصول یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی جملے کو حروفِ عطف، اتصال یا ربط سے شروع نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ’’شکاگو مینول آف سٹائل‘‘ (Chicago Manual of Style) کے انگریزی گرائمر کے ماہرین کے مطابق آپ کو اس اصول کی پیروی کرنے کے لیے ذہنی ورزش کرنے اور مشقت میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر ہمیشہ ہی سے ہمارے ذہنوں میں اس اصول کے بارے میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے حالانکہ اس کی تاریخ یا گرائمر کے لحاظ سے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ جملے کو حروفِ عطف، اتصال یا ربط یعنی ’’اور‘‘ (and) ’’لیکن‘‘ (but) اور ’’تاکہ‘‘ (so)  وغیرہ سے شروع کرنا غلط ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اعلیٰ درجے کی انگریزی تحریروں میں تقریباً  10 فیصد جملے حروفِ عطف، اتصال یا ربط سے شروع کیے جاتے ہیں اور صدیوں سے انگریزی زبان دان یہاں تک کہ انگریزی گرائمر کے قدامت پرست ثقہ ماہرین بھی اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔

جملہ، کیونکہ (Because)سے شروع نہ کرنا

انگریزی سکھانے والے اساتذہ اپنے طلبہ وطالبات کو یہ بتاتے ہیں کہ لفظ ’’کیونکہ‘‘ (Because) سے کبھی بھی ’’جملہ‘‘ (Sentences) شروع نہیں کرنا چاہیے۔ جب آپ انگریزی میں لکھنا سیکھنے کی شروعات کرتے ہیں تو اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ اگر آپ لفظ ’’کیونکہ‘‘ (Because) سے جملہ شروع کریں  گے تو اکثر وہ جملہ بے ترتیب ہو جاتا ہے۔ اسی خرابی کے باعث اساتذہ کرام اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ اس سے ہرصورت میں بچا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جملے کے حصے کے طور پر اس میں کم از کم ایک آزاد جُزشامل کر لینا چاہیے۔ اس طرح آپ بہتر تحریر لکھنے کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔ اس کی چند مثالیں درجہ ذیل ہیں۔

درست : Because I missed the bus, I couldn’t see my dad.

درست : I couldn’t see my dad because I missed the bus.

غلط : I couldn’t see my dad. Because I missed the bus.

 ’’a‘‘ اور ’’an‘‘ کا استعمال

انگریزی گرائمر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ الفاظ جو ’’کونسونانٹ‘‘ (Consonant) حروف سے شروع ہو رہے ہوں تو ان سے پہلے ’’a‘‘ اور وہ الفاظ جو ’’واول‘‘ (Vowel) حروف سے شروع ہو رہے ہوں، ان سے پہلے ’’an‘‘ لگتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ الفاظ جن کی صوتی ادائی کی صورت میں شروع میں ’’واول‘‘ (Vowel) حروف کی آواز محسوس ہو تو ان سے پہلے بھی ’’an‘‘ ہی لگتا ہے، چاہے وہ لفظ ’’کونسونانٹ‘‘ (Consonant) حروف سے شروع ہو رہا ہو۔ مثلاً

درست : I’m thinking of starting an herb garden.

درست : The Knicks are an NBA team.

حروفِ جار (Preposition) پر جملے کا اختتام

’’حروفِ جار‘‘ (Preposition) اُن حروف کو کہتے ہیں جو جملے میں کسی ’’اسم‘‘ یا ’’اسم ضمیر‘‘ کو کسی ’’فعل‘‘ یا ’’صفت‘‘ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ مثلاً استاد کلاس میں پڑھا رہے ہیں۔ اسلم اپنے بھائی کے ساتھ گھر گیا۔ میز پر سفید کاغذ رکھا ہوا ہے۔ اِن جملوں میں ’’پر‘‘ (on) ’’ساتھ‘‘  (with)اور ’’میں‘‘ (in)حروفِ جار ہیں۔ انگریزی گرائمر سکھانے والے اپنے طلباء وطالبات کو یہ بتاتے ہیں کہ کسی جملے کا اختتام ’’حروفِ جار‘‘ (Preposition) پر کرنا قابلِ قبول نہیں۔ لیکن یہ اصول بھی بس ایک روایت کے سوا کچھ نہیں۔ جیسا کہ انگریزی زبان کی گائیڈ ’’گرائمر گرل‘‘ (Grammar Girl) میں لکھا ہے کہ کچھ معاملات میں جملے کو ’’حروفِ جار‘‘ پر ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اس جملے

I want to know from where he came

کو اس طرح بھی لکھا جا سکتا ہے

I want to know where he came from

تاہم کوئی بھی اس طرح بات نہیں کرتا۔

 “People” کے ساتھ “That” کی بجائے، ہمیشہ “Who” کا استعمال

ہو سکتا ہے کہ آپ کے انگریزی کے استاد نے آپ کو بتایا ہو کہ جمع کے صیغہ کے ساتھ  “That” کی بجائے، ہمیشہ “Who” استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ اصول لازمی نہیں ہے۔ ’’میریم ویبسٹرز ڈکشنری آف انگلش یوزیج‘‘ (Merriam-Webster’s Dictionary of English Usage) کے مطابق مندرجہ ذیل جملہ بھی بالکل درست ہے۔

Kids that are late for school will miss math class

 جملے میں ’جانوروں‘ کے ’اسم‘ کے ساتھ کبھی “Who” نہ لگانا

صحیح انگریزی گرائمر میں سند رکھنے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اپنے محبوب پالتو جانور کا ذکر کرتے وقت اس کے ساتھ لفظ “it” کا استعمال عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ ’’اے پی سٹائل بُک‘‘

(AP Stylebook) کے مطابق اگر آپ کسی جانور کی جنس کے متعلق جانتے ہیں اور اس جانور کا کوئی نام بھی رکھا ہوا ہے (یعنی وہ ایک پالتو جانور ہے) تو آپ اس کے لیے بھی “him,” “her”  “who” وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں۔

 مثالیں بیان کرنے کے لیے صرف “such as” ہی استعمال کیا جا سکتا ہے

آپ نے شاید سُنا ہو کہ کسی چیز کی مثالوں کی فہرست بیان کرنے کے لیے  “such as” لگانا ہی واحد راستہ ہے۔ لیکن اصل میں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ مثلاً

I love active dates like fishing, skydiving, and hiking.

اور

I love active dates such as fishing, skydiving, and hiking.

یوں تو یہ دونوں جملے ہی درست ہیں، تاہم پہلے جملے میں جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو مچھلیاں پکڑنا پسند ہیں تو اس جملے کا مفہوم موازنے کے معنوں کی طرف اشارہ یا دلالت کرتا ہے۔ آپ درحقیقت یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ اس مشغلے سے اتنا ہی لطف اندوز ہوتے ہیں جتنا کوئی بھی دوسرا شخص اسی طرح کے کسی اور شوق سے حظ اُٹھاتا ہے۔

 جملے کا اختتام کبھی بھی ’’حروفِ عطف، اتصال یا ربط‘‘ (Conjunctions) پر نہ کرنا

آکسفورڈ ڈکشنریز (Oxford Dictionaries) کے مطابق یہ اصول بھی محض ایک روایت ہی ہے کہ انگریزی کے کسی بھی جملے کا اختتام کبھی بھی ’’حروفِ عطف، اتصال یا ربط‘‘ (Conjunctions) پر نہیں کرنا چاہئے۔ اس لیے اس اصول سے بھی بآسانی صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں مزید لکھا ہے کہ ’’چند معاملات میں آپ کا معیاری ’’حرفِ جار‘‘ (Preposition) سے اعراض آپ کے لیسانیاتی دوستوں کو گھن چکر بنا سکتا ہے۔

مثالیں

درست : The baby has no one to play with.

درست : The baby enjoys being fussed over.

 فعل مطلق (infinitive) کو کبھی تقسیم نہ کرنا

انگریزی گرائمر کے اس اصول کے مطابق ’’متعلق فعل یا تابع فعل‘‘ (adverb)کو آپ کبھی بھی فعل مطلق (infinitive) کے درمیان میں استعمال نہ کریں۔ اگر آپ مشہورِ زمانہ انگریزی فلم ’’اسٹار ٹریک‘‘ (Star Trek) کے اس ڈائیلاگ

“to boldly go where no one has gone before”

پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس جملے میں “To go” جو ایک ’’فعل مطلق‘‘ (infinitive) ہے، کو لفظ  “boldly”  نے تقسیم کر دیا ہے۔ اصل میں اس بات کا کوئی رسمی ثبوت موجود نہیں ہے کہ ’’فعل مطلق‘‘ (infinitive) کو تقسیم کرنا غلط عمل ہے۔ ’’گرائمر گرل‘‘ (Grammar Girl) میں لکھا ہے کہ ’’فعل مطلق‘‘ (infinitive) کو تقسیم نا کرنے کے اصول کی اگر کوئی منطق ہو سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ چونکہ غلط معلومات کی وجہ سے ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ایسا کرنا درست نہیں سمجھتے۔

 پیسیو وائس (passive voice) ہمیشہ غلط ہوتا ہے

انگریزی زبان میں گو ’’ایکٹووائس‘‘ (active voice) کو عام طور پر ترجیح دی جاتی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ’’پیسیو وائس‘‘ (passive voice) کا استعمال ہمیشہ ہی غلط ہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس کبھی کبھار تو یہ بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ ’’رائٹ ایٹ ہوم ڈاٹ کام‘‘ (writeathome.com) نامی ویب سائٹ نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ اگر آپ اپنے لکھے ہوئے جملے میں قاری کے دل میں کسی ’’فاعل‘‘ کے بارے میں ہمدردی کے جذبات اُبھارنا چاہتے ہیں تو آپ اس سلسلے میں ترجیحاً ’’پیسیو وائس‘‘ (passive voice)کو استعمال کریں۔ مندرجہ ذیل مثالوں سے آپ کو بآسانی اس کا فرق سمجھ آجائے گا۔

“Grandma got run over by a reindeer,”

“A reindeer ran over Grandma.”

  “i.e”اور “e.g.” کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے

“i.e”اور “e.g.” دونوں لاطینی زبان کے مخخف ہیں اور ان کو ’’مثلاً‘‘ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان دونوں کا مطلب ایک جیسا نہیں ہے ؟ “e.g” لاطینی لفظ “exempli gratia” کا مخفف ہے اور اس کا مطلب ہے ’’مثال کے طور پر‘‘ جبکہ “i.e” لاطینی زبان کے لفظ id est” ” کا مخفف ہے جس کے معنی ہیں ’’دوسرے لفظوں میں‘‘۔

 ایک جملے میں دو منفی (negative) اکھٹے لکھنا ٹھیک نہیں

زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ  ایک  ہی جملے میں دو منفی اکھٹے کر دینے سے جملہ بے تکا اور مبہم محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ’’آکسفورڈ ڈکشنریز‘‘ (Oxford Dictionaries) کے مطابق جملے کی ایک حالت ایسی ہے کہ جس میں یہ معاملہ قابلِ قبول ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر جملے میں دو منفی اکھٹے کرنے سے بیان سُبک اور لطیف ہو جائے۔ اس کی مثال ’’آکسفورڈ ڈکشنریز‘‘ (Oxford Dictionaries) میں دیئے گئے اس جملے سے واضح ہو جاتی ہے۔

“I am not unconvinced.”

اس جملے میں ’’نہیں‘‘ (not) کے ساتھ ’’قائل نا ہونا‘‘ (unconvinced)  یعنی دو منفی استعمال کر کے یہ تاثر واضح کیا گیا ہے کہ اس جملے کی ادائیگی کرنے والے کو بیان کردہ بات کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں اور وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ اس طرح دو منفی اکھٹے استعمال کر کے جملہ بولنے والے فردکی بات کے حقیقی مطلب کو بہت باریک بینی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ بات کا یہ حقیقی تاثر اس وقت بالکل واضح نا ہوتا اگر بولنے والا صرف یہ کہتا کہ

“I am convinced by his argument.”

 علاماتِ وقف (punctuation) کے بغیر طویل جملہ

سکول کی انگریزی کی کلاس میں شائد آپ کو یہ بتایا گیا ہو کہ کوئی بھی لمبا جملہ جو دو یا دو سے زیادہ  چھوٹے مکمل جملوں کے درمیان ’’علاماتِ وقف‘‘ (punctuations) لگائے بغیر انہیں ملا دے تو وہ ایک طویل جملہ بن جاتا ہے اور گرائمر کے لحاظ سے یہ جملہ درست نہیں ہوتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ  یہ بات ہمیشہ ہی درست نہیں ہوتی بلکہ ایسا بالکل ممکن ہے کے کوئی  جملہ بیک وقت طویل بھی ہو اور ’’علاماتِ وقف‘‘ (punctuations) یا ’’حروفِ عطف، اتصال یا ربط‘‘ (Conjunctions) لگائے بغیر درست بھی ہو۔ مثلاً

“The fog was thick he could not find his way home.”

 اپاسٹرافی “s” لگانے کے لیے “s” کا صرف ایک بار استعمال

ہم میں سے ہر ایک انگریزی زبان کے کسی نہ کسی ایسے نام ونہاد ماہر کو یقیناً جانتا ہو گا جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر کوئی لفظ “s” پر ختم ہو رہا ہو تو اس کے ساتھ ’’اپاسٹرافی‘‘)  (s لگانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے۔ لیکن گرائمر کے اصل ماہرین کے مطابق یہ معاملہ محض لکھاری کے اندازِ تحریر پر انحصار کرتا ہے۔ مثلاً

درست : The Harris’s cat is in their yard.

درست : The Harris’ cat is in their yard.

 ’’کیونکہ‘‘ (because) کی بجائے ’’جب سے‘‘ (since) کا استعمال

کسی عمل یا حالات کی توجیہہ پیش کرنے کے لیے “since” (جب سے) اور “for” (کے لیے) کو “as” (جیسا) اور “bacause” (کیونکہ) کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ ان کے درمیان اہم فرق ہے۔ ’’کیونکہ‘‘ (because) صرف اس وقت استعمال کیا جائے گا جب کسی عمل یا حالات کی توجہہ، جملے یا گفتگو کا اہم ترین اور خاص جُز ہو۔

 “while”  (جبکہ) کو “although”  (اگرچہ) کے معنوں میں استعمال کرنا

“although / though”  (اگرچہ) کو خیالات کی تفریق یا موازنے کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گرائمر کی رو سے یہ لفظ ’’ ماتحت حروفِ عطف، اتصال یا ربط‘‘ (Subordinating Conjunctions) ہے جو جملے میں ’’ماتحت فقرے‘‘  (subordinate clause) کو ’’مرکزی فقرے‘‘  (main clause) کے ساتھ جوڑنے کے کام آتا ہے۔ ’’ ماتحت حروفِ عطف، اتصال یا ربط‘‘ (Subordinating Conjunctions) کی مزید مثالیں درجہ ذیل ہیں۔

after, as, before, if, since, that, even though, even if.

امید ہے کہ قارئین اس مضمون کو پڑھنے کے بعد انگریزی گرائمر کی بہت سی بندشوں اور اُلجھنوں سے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہوئے سکون کا سانس لیں گے اور اپنی انگریزی دانی کو مزید بہتر بنانے میں کامیاب بھی ہوں گے۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔