جلتا بھنتا آسٹریلیا اورکپکپاتا امریکا

سید عاصم محمود  اتوار 17 فروری 2019
عالمی سطح پر آب وہوا اور موسموں کے نظام میں جنم لیتی انقلابی تبدیلیاں نت نئے عجوبے دکھلانے لگیں۔ فوٹو: فائل

عالمی سطح پر آب وہوا اور موسموں کے نظام میں جنم لیتی انقلابی تبدیلیاں نت نئے عجوبے دکھلانے لگیں۔ فوٹو: فائل

پچھلے ماہ دنیا کے دو براعظموں میں بیک وقت ایک انوکھا عجوبہ دیکھنے کو ملا۔براعظم آسٹریلیا کے اکثر علاقوں میں اتنی شدید گرمی پڑی کہ بلند درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہو گئے۔

حدت سے بے حال ہزارہا آسٹریلویوں نے ساحل سمندر پہ ڈیرے ڈالے رکھے۔گرمی نے سیکڑوں چرند پرند کی جانیں لے لیں۔دوسری طرف براعظم شمالی امریکا کے بالائی علاقوں میں زبردست سردی کا راج رہا۔وہاں کے باشندوں نے اتنی شدید ٹھنڈ پہلے کبھی نہیں سہی تھی۔یہی وجہ ہے، شمالی امریکا میں کم درجہ حرارت کے کئی پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور نئے قائم ہوئے۔سردی ایسی جان لیوا تھی کہ کئی لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اسی دوران فروری کے آغاز میں آسٹریلوی ریاست‘ کوئنز لینڈ میں اتنی شدید بارشیں ہوئیں کہ وہاں تباہ کن سیلاب آ گیا۔ ماہرین کے مطابق آسٹریلیا میں ایسا خطرناک سیلاب ’’صدی میں صرف ایک بار‘‘ آتا ہے۔ یہ تمام قدرتی عجوبے ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ آب و ہوا میں تبدیلی کا دیو رفتہ رفتہ کرہ ارض پر شدت سے حملے کرنے لگاہے۔ صد افسوس تبدیلی کا یہ خطرناک دیو ہماری ہی تخلیق ہے۔

انسان دراصل پچھلے ڈیڑھ سو برس کے دوران اربوں ٹن کوئلہ‘ تیل‘ لکڑی اور گیس جلا چکا ۔ یہ سبھی قدرتی عناصر جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کرتے ہیں۔ ماضی میں جتنی کاربن گیس جنم لیتی تھی‘ اسے درخت و پودے اور سمندر جذب کر لیتے ۔ مگر انسانوں نے وسیع تعداد میں جنگل کاٹ کر کاربن گیس جذب کرنے کا اہم ذریعہ محدود کر دیا۔ چنانچہ بہت سی گیس فضا میں جمع ہونے لگی۔ اسی عمل سے زمین کی آب و ہوا میں تبدیلی آ گئی۔دراصل فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس زمین سے منعکس ہو کر پلٹنے والی سورج کی زیادہ حرارت اپنے اندر سمونے لگی۔ یہ عمل کرہ ارض کی فضا میں تبدیلی لانے اور اسے گرم کرنے لگا۔ چنانچہ پچھلے ایک سو برس میں ہماری زمین کا درجہ حرارت ایک درجے سینٹی گریڈ بڑھ چکا۔

میتھین گیس بھی فضا میں پہنچ کر سورج کی حرارت اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ بلکہ کاربن گیس کی نسبت میتھین کہیں زیادہ حرارت سموتی ہے۔ کرہ ارض پر انسان ہی میتھین میں اضافے کا بھی سبب بن گیا۔ وہ اس طرح کہ کثیر تعداد میں گائے‘ بھینسیں،بکریاں،اونٹ وغیرہ پالنے لگا۔ یہ مویشی جب چارا کھائیں‘ تو ان کے معدے عملِ جگالی سے میتھین گیس پیدا کرتے ہیں۔ فی الوقت زمین پر مویشیوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہو چکی۔ یہ مویشی روزانہ کئی سو ٹن میتھین خارج کرتے ہیں جو فضا میں پہنچ جاتی ہے۔

غرض کرہ ارض کی فضا میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسوں کی بڑھتی مقدار نے زمین کا درجہ حرارت بلند کرنا شروع کیا تو یہ عجوبہ عالمی آب و ہوا میں تبدیلیاں لانے لگا۔ یہ تبدیلیاں براعظم آسٹریلیا کوزیادہ متاثر کر رہی ہیں۔آسٹریلیا کی تین ریاستوں… کوئنز لینڈ‘ نیو ساؤتھ ویلز اور ویسٹرن آسٹریلیا کے بیشتر علاقے پچھلے تین چار برس سے شدید قحط کی لپیٹ میں ہیں۔ کئی علاقوں میں کھیت اور باغات بارشیں نہ ہونے سے سوکھ گئے۔ دریاؤں اور تالابوں میں بھی پانی نہ رہا۔ مجبوراً ہزار ہا کسان اپنے مویشی لیے دوسری ریاستوں کی جانب ہجرت کر گئے۔ بہت سے لوگ اپنے ذریعہ روزگار سے محروم ہو کر دربدر پھرنے لگے۔ غرض قحط نے ان ریاستوں میں ہزار ہا لوگوں کی اچھی بھلی زندگیاں تباہ کر ڈالیں۔

یہ قحط اسی لیے آیا کہ آب و ہوائی تبدیلیوں نے بارش برسانے والی ہواؤں کا راستہ روک لیا ۔ مون سون کے دوران ان تین ریاستوں میںبہت کم بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے قحط بڑھتا چلا گیا۔ اب فروری 2019ء میں خدا خدا کر کے ان علاقوں میں بکثرت بارشیں ہوئیں ہیں اور کئی ڈیم پانی سے لبالب بھر گئے ۔ان بارشوں کے باعث قحط کی شدت کم ہونے میں مدد ملے گی۔ کچھ علاقوں میں شدید بارشیں ہونے سے زبردست سیلاب آ گیا۔یہ قدرتی آفت انسانوں کو مختلف قسم کے مسائل میں گرفتار کرا دیتی ہے۔

مون سون بارشیں ہونے سے قبل جنوری 2019ء میں آسٹریلیا کے اکثر علاقے شدید گرمی میں جلتے بھنتے رہے۔ کئی علاقوں میں بلند درجہ حرارت کے ایسے ریکارڈ ٹوٹ گئے جو کئی عشروں سے چلے آ رہے تھے۔ آسٹریلوی محکمہ موسمیات کے مطابق جنوری 2019ء آسٹریلیا کی معلوم تاریخ میں گرم ترین مہینہ تھا۔ بعض علاقوں میں تو اتنی شدید گرمی پڑی کہ وہاں دریاؤں اور تالابوں میں ہزار ہا مچھلیاں مر گئیں۔ نیز بہت سے علاقوں کے جنگلوں میں آگ لگ گئی۔ اسی آگ نے بھی کئی شہریوں کی زندگی بھر کی کمائی خاک میں ملا دی۔

جنوری 2019ء کے وسط میں پورے آسٹریلیا کا درجہ حرارت مسلسل پانچ دن تک 40 درجے سینٹی گریڈ رہا جو نیا ریکارڈ ہے۔ براعظم میں 1910ء سے موسموں اور آب و ہوا کے ریکارڈ رکھے جا رہے ہیں اور ایسا پہلی بار ہوا کہ آسٹریلیا پانچ دن تک 40درجے سینٹی گریڈ کی گرمی میں تپتا رہا۔ وجہ یہ بنی کہ سمندروں میں ہوا کے بلند دباؤ نے قطب جنوبی سے آنے والی سرد ہواؤں کو آسٹریلیا پہنچنے نہیں دیا۔ ادھر شمال میں بھی ہوا کا بلند دباؤ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ مون سون کی ہوائیں ایک ماہ دیر سے آسٹریلیا پہنچیں۔ اس غیر معمولی تبدیلی نے بھی آسٹریلیا میں زبردست گرمی پیدا کر دی۔شدید گرمی کے باعث ہی لاکھوں آسٹریلوی دن کا بیشتر عرصہ ائر کنڈیشنر چلا کر گھروں یا دفتروں میں گزارنے لگے۔ اسی عمل نے بجلی کی مانگ میں یک لخت اضافہ کر دیا۔ حتیٰ کہ کئی علاقوں میں حکومت کو لوڈشیڈنگ کرنا پڑ گئی۔ آسٹریلیا ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں کئی لوگوں نے لوڈشیڈنگ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ مگر شدید گرمی نے انہیں عملی طور پر اس عجوبے سے متعارف کرا دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں آب و ہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے آسٹریلیا قحط‘ سیلابوں اور شدید گرمی کا نشانہ بنا رہے گا۔ لہٰذا ان قدرتی آفتوں سے نمٹنے کے لیے آسٹریلوی حکومت کو مناسب اقدامات کرنا چاہئیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اقدامات اپنانے کی خاطر اربوں ڈالر درکار ہیں۔ مزید براں آسٹریلیا کے حکمران بھی امریکی صدر ٹرمپ کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی آب و ہوا میں ڈرامائی تبدیلیاں نہیں آ رہیں‘ اسی لیے وہ رقم مختص کرنے سے کتراتے ہیں۔ لیکن جنوری 2019ء کی زبردست گرمی سے ممکن ہے‘ آسٹریلوی حکمرانوں کو احساس ہوا ہو کہ آب و ہوائی تبدیلیاں ڈھکوسلہ نہیں حقیقت ہیں۔

آسٹریلیا میں گرمی کی زبردست لہر نے انسانوں سے لے کر جانوروں اور انفراسٹرکچر تک پہ تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ کئی مقامات پر مچھلیوں کے علاوہ گھوڑے‘ کینگرو‘ کوالا اور چمگادڑیں گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔ ادھر کسانوں نے ڈھائی ہزار سے زائد جنگلی اونٹ ہلاک کر دیئے۔ یہ اونٹ دراصل ان تالابوں سے پانی پینے لگے تھے جہاں سے کسانوں کے مویشی اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ پانی کی کمی نے کسانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے مویشی محفوظ کرنے کے لیے جنگلی اونٹ مار ڈالیں۔

ماہرین نے آسٹریلوی حکومت کو خبر دار کیا ہے کہ مستقبل میں گرمی کی شدید لہر سکیورٹی کے مسائل بھی کھڑے کر سکتی ہے۔ اس کا عملی نمونہ حالیہ ماہ جنوری میں دیکھنے کو ملا۔آسٹریلوی شہر ایلس اسپرنگز کی جیل میں کئی سو قیدیوں نے دنگا فساد کیا اور اشیا توڑ پھوڑ ڈالیں ۔وہ جیل میں ایئر کنڈیشنگ سسٹم نہ ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔ آخر جیل انتظامیہ نے انہیں کھلے صحن میں منتقل کر دیا تاکہ ہوا سے گرمی کی شدت کم ہو سکے۔

آب وہوا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سو برس کے دوران فضا اور سمندروں میں کاربن اور میتھین گیسوں کی بہت زیادہ مقدار جذب ہو چکی ۔ اسی مقدا رکو اگر توانائی میں تبدیل کیا جائے تو یہ ایسے ہی ہے کہ کئی منٹ تک ہر ایک سیکنڈ میں اتنی ہی توانائی والے دو ایٹم بم پھٹتے رہیں جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے تھے۔ گویا زمین کی فضا اور سمندروں میں اتنی زیادہ کاربن و میتھین گیسیں جذب ہو چکیں کہ اب وہ آب و ہوا کے بین الاقوامی نظام میں تبدیلیاں لانے لگی ہیں۔ حالیہ د ور میں اس عجوبے کی ایک مثال امریکا میں بھی سامنے آئی۔

براعظم آسٹریلیا میں ہوا کے بلند دباؤ نے سرد ہواؤں کو براعظم میں داخل ہونے سے روکے رکھا‘ تو براعظم شمالی امریکا میں الٹ ماجرا پیش آیا۔ براعظم میں ہوا کا دباؤ کمزور پڑنے سے قطب شمالی کی سرد ہواؤں کو موقع مل گیا کہ وہ امریکا کے بالائی علاقوں میں دھاوا بول دیں۔ ان سرد ہواؤں نے پھر بالائی امریکا کی انسانی آبادیوں میں یخ بستہ ماحول پیدا کر ڈالا۔ ایسے ماحول میں پانی فضا میں اچھالا جاتا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے برف بن جاتا۔ شدید سردی کے باعث تیس سے زائد امریکی ہلاک ہو گئے۔ ہزار ہا جانور بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ عالمی گرماؤ (گلوبل وارمنگ) کے عجوبے پر یقین نہیں رکھتے۔ جب امریکا زبردست ٹھنڈ کا شکار ہوا‘ تو انہوںنے طنزیہ انداز میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا : ’’لوگ کہتے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہاہے ۔ مگر عالمی گرماؤ کہاں ہے؟ مجھے تو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ عالمی گرماؤ کی نفی کے باعث ہی صدر ٹرمپ نے 2017ء میں پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس معاہدے کے ذریعے اقوام عالم کاربن و میتھین گیسوں کی پیداوار کم کرنا چاہتی ہیں۔

لاکھوں امریکی شہریوں نے مگر اپنے صدر کی ٹویٹ کو ناپسند کیا۔ وجہ یہ کہ سائنس و ٹیکنالوجی رفتہ رفتہ ثابت کر رہی ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث ہی کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اب امریکا میں شدید سردی کی حالیہ لہر ہی کو لیجیے ‘ یہ بھی بلنددرجہ حرارت کے باعث ہی وجود میں آئی۔دراصل ہماری زمین کے قطبین اور استوائی علاقوں میں تیس تا پچاس ہزار فٹ کی بلندی پر مغرب سے مشرق کی طرف تیز ہوائیں چلتی ہیں جنہیں ’’جیٹ اسٹریم‘‘(Jet streams) کہا جاتا ہے۔ قطبین پر ان ہواؤں کی رفتار زیادہ ہوتی ہے اور تب وہ ’’پولرجیٹ‘‘ کہلاتی ہیں۔ یہ قطبی ہوائیں موسم سرما میں نہایت سرد ہوتی ہیں۔

زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے قطب شمالی میں برف پگھلنے لگی ہے اور وہاں بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گرمی کے اسی اضافے نے پولر جیٹ ہواؤں کو بھی گرم کر دیا۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ قطبی ہوائیں اب کمزور ہو کر اپنا راستہ تبدیل کرنے لگی ہیں۔ حالیہ ماہ جنوری میں بھی پولر جیٹ ہواؤں نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور کینیڈا اور بالائی ا مریکا کی ریاستوں میں چلنے لگیں۔انہی قطبی ہواؤں کی وجہ سے وہ ریاستیں زبردست سردی کا نشانہ بن گئیں۔ گویا شدید ٹھنڈ کی لہر نے آب و ہوائی تبدیلیوں کے باعث ہی جنم لیا۔

یہ واضح رہے کہ کرہ ارض پر موسموں اور آب و ہوا کو جنم دینے میں سب سے بڑا کردار ہواؤں اور سمندروں نے ادا کیا۔ اب فضا اور سمندروں میں کاربن و میتھین گیسوں کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ اسی لیے دنیا کے کئی ممالک میں موسم بدل رہے ہیں اور آب و ہوا بھی! کہیں سمندری طوفان آنے لگے ہیں اور کہیں قحط۔ مثلا پاکستان ہی کی مثال لیجیے۔ماضی میں وطن عزیز میں ماہ دسمبر شدید سردی کا مہینہ سمجھا جاتا تھا‘ مگر اب جنوری شروع ہونے کے بعد ٹھنڈ آتی ہے۔ گویا موسم سرما کا دورانیہ آگے بڑھ رہا ہے۔یہی وجہ ہے‘ حال ہی میں خبر آئی کہ پاکستان بھر میں سکول یہ غور کر رہے ہیں کہ اب سردیوں کی چھٹیاں دسمبر کے بجائے جنوری میں دینی چاہئیں۔

عالمی گرماؤ کے باعث موسم بھی غیر مستقل مزاج ہو چکے ۔ کبھی مسلسل کئی دن گرمی پڑتی ہے تو کبھی کئی ہفتے بارشیں نہیں ہوتیں۔ کبھی بارشیں ہونا شروع ہوں تو وہ جان نہیں چھوڑتیں ۔مثلاً اس سال جنوری فروری میں ہمارے ہاں معمول سے زیادہ برف باری ہوئی اور بارشیں بھی ہوتی رہیں۔ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان دو مہینوں میں عموماً کم ہی بارشیں ہوتی ہیں۔کچھ عرصہ قبل بارشیں نہ ہونے سے افغانستان اور بلوچستان کے وسیع علاقے شدید قحط کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ اب حالیہ بارشوں سے قحط کی آفات میں کچھ کمی آئی ہے۔

ماہرین ماحولیات خبردار کر رہے ہیں کہ ا نسان نے رکازی ایندھن (کوئلہ ‘ تیل وغیرہ) استعمال کرنا جاری رکھا تو مستقبل میں کرہ ارض کا درجہ حرارت مزید بڑھ جائے گا۔ چنانچہ آب و ہوا میں تبدیلیاں زیادہ شدت اختیار کر لیں گی۔ حتیٰ کہ ان کی وجہ سے دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ قطبین کی برف اور ہمالیہ کے گلیشیر پگھلنے سے سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو گا۔ تب مالدیپ سمیت کئی جزائر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔نیز بنگلہ دیش ‘ سری لنکا،بھارت ،پاکستان اور دیگر ملکوں کے ساحلی علاقوں کا بہت سا علاقہ سمندر برد ہو جائے گا۔حکومت پاکستان کا یہ اقدام خوش آئند ہے کہ وہ خیبرپختون خواہ اور پنجاب میں جنگل بنا رہی ہے۔یوں ہماری آب وہوا صاف ستھری اور آلودگی سے پاک رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔