ناکارہ گاڑیاں شہر کے باہر ترتیب سے رکھ دی جاتی ہیں

ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم  اتوار 17 فروری 2019
صفائی ایسی کے گاڑیوں کے ٹائر بھی گردآلود نظر نہیں آتے۔ فوٹو: فائل

صفائی ایسی کے گاڑیوں کے ٹائر بھی گردآلود نظر نہیں آتے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ سے پیوستہ

اسامہ کا نام سن کر سچی بات ہے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ٹیلی فون نہ کروانے کا غم فراموش کر بیٹھا، مگر بقول اس کے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی بات پر میں نے سوچا واقعی اسے پاکستان میں دریافت کیا گیا تھا یا پاکستان پر ٹھونسا گیا تھا یا پھر پاکستان کے ساتھ ڈراما کیا گیا تھا؟

مگر اقوام عالم یہ ڈراما دیکھ کر ابھی تک ششدر ہیں کہ اتنا جدید مواصلاتی نظام ہونے کے باوجود سپرپاور امریکا کو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ ’’تجارتی پلازوں‘‘ کو نیست و نابود کرنے کے لیے کوئی طیارہ ان کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرف محو پرواز ہے! مگر ان کو یہ علم ضرور تھا کہ انہوں نے یہودی ساتھیوں کو نائن الیون سے ٹھیک ایک روز قبل ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے کیسے نکالنا ہے! دنیا اس تضاد کو دیکھ کر حیران ہے۔

ہم ’’رائی یو کائی یو‘‘ نامی جس جزیرے پر مقیم تھے وہ 26ڈگری شمال اور 127 ڈگری انتہائی مشرقی خط استوا پر واقع ہے۔ یہ جزیرہ مستطیل نما ہے جو 1206 کلومیٹر طویل ہے۔ جزیرے کے درمیان کہیں کہیں چوڑائی ایک کلو میٹر سے بھی کم رہ جاتی ہے، جہاں کھڑے ہوکر جزیرے کے پار سمندر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس جزیرے کی کُل آبادی 13 لاکھ ہے اور ایک مربع کلو میٹر کے علاقے میں1083 افراد رہتے ہیں۔ یہاں کا درجۂ حرارت، رات کی تاریکی اور ہوا میں نمی کی مقدار ایسی ہے کہ یہاں گنے کے پودوں پر پھول بہ آسانی لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر ایئرپورٹ بھی ہے جہاں سے بین الاقوامی پروازیں آجا سکتی ہیں۔ اس جزیرے پر پہنچنے کے لیے واحد راستہ ہوائی جہاز کا ہے، دوسرا آپشن بحری جہاز ہے، مگر لوگ اسے کم ہی ترجیح دیتے ہیں۔

اس جزیرے پر واقع نیہا ایئرپورٹ پر طیاروں کے آنے اور جانے کا خوب صورت نظارہ کسی خواب سے کم نہیں۔ جیٹ طیاروں کو اڑانے والے ایسے مشاق پائلٹس ہیں کہ ایئرپورٹ پر اترتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جہاز سمندر پر لینڈ کرنے والا ہے اور پرواز کے اڑتے وقت یوں لگتا ہے جیسے سمندر کے پانیوں سے ہی آسمان کی جانب پرواز ہورہی ہے۔ دونوں صورتوں میں پہلی دفعہ آنے والے مسافر بہرحال خوف کا شکار رہتے ہیں۔ نیہا ایئرپورٹ کی بیرونی حدود جو سمندر سے متصل ہے کو لینڈ اسکیپنگ کے ذریعے بڑی خوب صورتی کے ساتھ ایسے سجایا گیا ہے کہ جیسے بچوں کے کھلونے جیسا کوئی رنگین ڈبا سمندر کے بیچوں بیچ رکھ دیا گیا ہو۔

رائی یو کائی یو جزیرہ میدانی اور پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں پہاڑ سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ 503 میٹر تک بلند ہیں۔ اس اونچائی پر خوب صورت وادی ہے، جسے یونے ہا ماؤنٹ کہا جاتا ہے۔ جزیرے کے اردگرد ہر جگہ ’’بیچ‘‘ واقع ہونے کے باعث جس جگہ چاہیں ہوٹل بنالیں۔ یہی چیز جزیرے کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ سیاح یہاں آکر بور نہیں ہوتے۔ جہاں مسافت سے تھک گئے، گاڑی روک لی اور پاس ہی بنے ہوٹل میں چلے گئے۔ جزیرے کی بعض جگہوں پر پہاڑ اتنی اونچے چلے گئے ہیں کہ جزیرے کی ایک کلو میٹر کی چوڑائی پر جانے کے لیے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ تک طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے، تب جا کر ’’یو‘‘ ٹرن آتا ہے اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ ہی واپس آنے میں لگتا ہے۔

میرا قیام جزیرے کے اوکی ناوہ شہر کے ریزان سی پارک ہاٹل میں تھا جو فائیو اسٹار تھا۔ یہ علاقہ ’’ٹنچا بے‘‘ کہلاتا ہے۔ نہایت پُرفضا مقام ہے۔ ہوٹل کے کمروں کے حصول میں کرائے کی مد میں ایک خاص طرح کی مضحکہ خیزی نظر آئی، ایک کمرے کا کرایہ ایک رات کے لیے 8ہزار روپے ہے، جب کہ اس سے ملحق کمرے کا کرایہ 10 ہزار روپے تھا۔ میں اس ہوٹل میں دون دن تک اس ٹوہ میں لگا رہا کہ دونوں کمرے ساتھ ساتھ ہیں، پھر ان کے کرائے میں 2 ہزار روپے کا فرق کیوں ہے؟ حالانکہ دونوں کمروں میں سہولیات ایک جیسی ہی ہیں۔ آخر یہ عقدہ کھلا کہ جس کمرے کی بالکونی میں سورج کی روشنی براہ راست آتی ہے وہ 2ہزار روپے مہنگا تھا۔ روشنی کے حصول کے لیے جاپان میں سیاح 2 ہزار اضافی کرائے پر راضی ہوجاتے ہیں، تاکہ سورج کی تمازت سے ان کے جسم محروم نہ رہیں، اور جو ارزاں کرائے پر کمرہ لیتے ہیں وہ سورج کی تمازت کے لیے سمندر کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔

یہاں بیچ کی رونقیں صبح 11 بجے شروع ہو جاتی ہیں جو شام 4 بجے تک جاری رہتی ہیں۔ یہاں آکر لوگ بوٹنگ کرتے، نہاتے اور ٹیوب نما پہیوں میں گھس کر تیرتے رہتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں تو آرام کی غرض سے دنیا مافیہا سے بے خبر ہوکر منہ پر ٹوپی رکھے پلاسٹک کے بنے دیوانوں پر لیٹ کر سورج کی کرنوں کی نیم گرم تمازت سے اپنے ننگے جسموں کو ٹکور دینے کی غرض سے کھلے آسمان تلے سستاتے رہتے ہیں۔

جاپان میں جہاں جہاں تک ہماری رسائی ہوسکی ہمیں گلیاں، سڑکیں اور بازار ایسے صاف ستھرے ملے کہ کہیں کوئی مکھی بھی بھنبھناتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ صفائی کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں کا کوئی ٹائر بھی گرد آلود نظر نہیں آیا۔ نئی سے نئی گاڑیاں اتنی وافر تعداد میں تھیں کہ جتنے ہمارے ہاں موٹر سائیکلیں نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں جاپان گاڑیاں بنانے کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ یہاں ناکارہ گاڑیاں شہر کے باہر ترتیب سے رکھ دی جاتی ہیں جنہیں پھر لوہا پگھلانے والے شعبے کے کارکن اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ان گاڑیوں کو دوبارہ پگھلا کر گاڑیوں کے کَل پرزے بنانے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔

گاڑیوں کی صنعت پر راج کرنے کے باوجود لازمی نہیں کہ ہر جاپانی کے پاس گاڑی لازمی ہوتی ہو۔ یہاں وہ جاپانی گاڑی خریدنے کا اہل ہوتا ہے جس کے گھر کے باہر پارکنگ کی جگہ ہو، بغیر پارکنگ والے گھر کا مالک گاڑی نہیں خرید سکتا اور نہ ہی وہ گاڑی گلی میں پارک کرسکتا ہے۔ گویا گاڑی خریدنے کے لیے پہلے پارکنگ کی جگہ خریدنا پڑتی ہے تب جا کر گاڑی کے ملکیتی کاغذات ملتے ہیں۔

ورکشاپ میں سب سے زیادہ گپ شپ برازیل کے ڈاکٹر ڈینی لو ایڈوآرڈو کرسی سے رہی۔ یہ 28 سالہ نوجوان شوگرکین بریڈر تھا، جس کے علم، فراست، طرز تخاطب، اعتماد اور طرز ادائیگی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کے لیکچر کے بعد میں اسے بریک ٹائم میں ملا، ہیلو ہائے کے بعد میں نے اپنی جیب سے 500جاپانی ین نکالا اور اسے تھماتے ہوئے کہا،’’ونڈر فُل لیکچر‘‘ یہ میری طرف سے آپ کے لیے ایوارڈ ہے۔ ڈاکٹر کرسی نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کا بھی لیکچر شان دار تھا۔ مجھے آپ کے لیکچر سے اعتماد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کے پاکستان میں گنے پر بہت عمدہ تحقیق ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر کرسی ، 500 جاپانی ین کا نوٹ میرے کوٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے بولا کہ آپ کا میرے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ونڈر فل لیکچر، یہی میرا ایوارڈ ہے۔ میں دوبارہ گویا ہوا،’’ڈاکٹر کرسی! ابھی ورکشاپ میں لیکچر دینے والے آدھے لوگ باقی ہیں، اگر میرے بس میں ہو تو آپ کو اس ورکشاپ کا سب سے بڑا ایوارڈ دوں، بلکہ میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات کہتا ہوں کہ اسی طرح اگر آپ محنت کرتے رہیں تو گنے کی فیلڈ میں خدمات پر آپ کو دنیا کا نوبیل انعام بھی مل سکتا ہے۔ آپ کا انداز تخاطب اور لیکچر کے مواد پر آپ کی گرفت، مستقبل میں آپ کو ڈاکٹر نارمن بورلاگ بھی بنا سکتے ہیں۔ جانتے ہیں ڈاکٹر بورلاگ کون تھا!‘‘

’’جی نام سُنا سُنا لگتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر کرسی دھیرے سے بولا۔

’’اس کا تعلق میکسیکو سے تھا۔ ساری زندگی بھوک اور افلاس کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اور بھوکے شکم میں روٹی ڈالنے کے لیے گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے گزری۔ وہ پاک و ہند میں سبزانقلاب کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔‘‘ پھر میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،’’مجھے آپ کی شخصیت میں مستقبل کا ڈاکٹر بورلاگ چھپا ہوا نظر آرہا ہے۔ میری ایک بات ضرور یاد رکھنا کہ چاہے کچھ ہوجائے ساری عمر گنے کی فصل نہ چھوڑنا۔ میری طرف دیکھو،20 سال گندم کی فصل پر تحقیق کرتا رہا اور جب اس فصل میں مہارت حاصل کرلی تو سرکاری ملازمت میں ترقی ملنے پر مجھے گنے کی فیلڈ میں بھیج دیا گیا۔

ہمارے پاکستان میں کئی سائنس دانوں کی 20/25 سال کی نوکری کے بعد جب ترقی ہوئی اور انہیں دوسری فصل جائن کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ سرکاری ملازمت ہی چھوڑ گئے۔ نقصان کس کا ہوا؟ تحقیق کا، لیکن میں نے نوکری نہیں چھوڑی۔ شروع شروع میں ایک آدھ سال دلبرداشتہ بھی ہو ا کہ کہاں 3/4 فٹ کی گندم کی فصل اور کہاں 17/18فٹ کی گنے کی فصل۔ ان دونوں فصلوں کا آپس میں موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن میں نے تحقیق نہ چھوڑی اور ہمت بھی نہ ہاری۔ ڈاکٹر کرسی! آپ کے اندر موجود اعتماد کی خوبی کا کچھ عنصر مجھ میں بھی موجود ہے، اسی کو تھامے آج میں پاکستان کی طرف سے اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘

’’ڈاکٹر اعجاز!آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کی باتوں نے میرے اندر کے سوئے ہوئے شوگرکین بریڈر کو بیدار کر دیا ہے۔ گنے کی تحقیق کے ساتھ آپ کی یہ محبت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی ۔‘‘

ورکشاپ کا آخری روز تھا اور فائنل سیشن جاری تھا۔ اس سیشن میں دو ایوارڈ تقسیم ہونا تھے۔ ایک ایوارڈ تو کنفرم تھا کہ وہ میزبان ملک کو ہی جانا ہے، یعنی کسی جاپانی کو دیا جائے گا اور دوسرا ایوارڈ ورکشاپ میں شریک25 ممالک کے شریک 113 سائنس دانوں میں سے کسی ایک کو ملنا تھا۔ یہ اس عالمی ورکشاپ کا انتہائی اہم لمحہ تھا۔ ورکشاپ کے منتظمین اعلان کر رہے تھے،’’میزبان ملک میں سے سب سے اچھا لیکچر دینے اور ورکشاپ کو کام یاب بنانے کے لیے اپنا دن رات ایک کرنے والے جس سائنس داں کو ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔۔۔ (ہال میں موجود تمام جاپانیوں کے کان کھڑے ہوگئے ) اس کا نام ہے مسٹر یو شی فی تراجیمی ۔۔۔۔ہال تالیوں سے گونج اٹھا، جن میں جاپانیوں کی تالیوں کی گونج نمایاں تھی، اور جاپان کے شریک 40سائنسدانوں میں سے یہ ایوارڈ اس سائنس داں کو ملا تھا جس نے ورکشاپ کی کام یابی کے لیے واقعی اپنا دن رات ایک کیا تھا اور پاکستان میں رہ کر میں نے اپنی رجسٹریشن، ہوٹل بکنگ، ایئرفلائیٹ اور پروگرام کی تفصیلات فراہم کرنے میں یو شی فی تراجیمی میرے رابطے میں رہا تھا اور میزبان ملک کی طرف سے واقعی اسے ٹھیک ایوارڈ دیا گیا تھا۔

اب بہترین سائنس داں کا ایوارڈ کا اعلان ورکشاپ کا آخری ایونٹ تھا۔ اس کے بعد ورکشاپ کے اختتام کا اعلان ہونا تھا۔ پاکستان کی طرف سے میں اکلوتا ہی اس ورکشاپ میں شامل تھا، جب کہ امریکا، آسٹریلیا، فلپائن، انڈونیشیا، برازیل، تائیوان، تھائی لینڈ، انڈیا اور ارجنٹائن کی طرف سے دس دس سائنس داں اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ سبھی پُرجوش تھے کہ دیکھیں کس سائنس داں کو ایوارڈ ملتا ہے۔ لوگوں کی نظریں امریکا اور فرانس کے سائنس دانوں پر تھیں۔

اعلان ہوا کہ ISSCT کی منعقدہ جاپان ورکشاپ کے بہترین سائنس داں کا ایوارڈ جو مبلغ 500 امریکی ڈالر پر مشتمل ہے، دیا جاتا ہے برازیل کے ڈاکٹر ڈینی لو کرسی کو! ہال تالیوں سے گونج اٹھا، کیوںکہ یہ ایوارڈ بھی مستحق ترین سائنسدان کو ملا تھا ورکشاپ کے تمام شرکاء اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور تالیوں کی گونج میں ڈاکٹر ڈینی لو کرسی کو داد و تحسین دینے لگے۔ ڈاکٹر ڈینی لو کرسی ایوارڈ تھامے سیدھا میری طرف آگیا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا اورکہنے لگا،’’ڈاکٹر تبسم! آپ کو میری اہلیت اور ایوارڈ ملنے کے متعلق کیسے علم ہوگیا؟

مجھے ایوارڈ سے زیادہ خوشی اب آپ سے مل کر ہو رہی ہے۔ میں ابھی تک حیران ہوں، آپ کے دیے گئے لیکچر سے تو میں نے خوداعتمادی کے انداز سیکھے ہیں کہ کاش میں آپ جیسا بولتا، مگر آپ کی مجھے ایوارڈ ملنے کی پیش گوئی نے مجھے زیادہ ششدر کردیا ہے۔‘‘ ورکشاپ کے اختتام پر تقریباً سبھی سائنس داں ہمارے اردگرد کھڑے ہوگئے تھے کہ ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر کرسی ایک پاکستانی سے کیا باتیں کر رہا ہے۔ ڈاکٹر کرسی کی باتیں سن کر وہ مجھے محبت سے دیکھنے لگے اور مجھ سے بھی ہاتھ ملائے جا رہے تھے۔

میں نے ڈاکٹر کرسی کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’اب میں آپ کے متعلق ایک اور پیش گوئی کرنے لگا ہوں،

’’وہ کیا؟‘‘

’’ ہم دونوں مل کر دنیائے گنا کے لیے ایک کام نہ کریں!‘‘

’’وہ کیا‘‘ وہ مزید حیران ہوتے ہوئے بولا اور ارد گرد کے کھڑے سا ئنس داں بھی متجسسانہ نظروں سے ہم کو دیکھنے لگے۔

’’ ہم دونوں مل کر ایک کتاب لکھتے ہیں کہ دنیائے گنا کے 10 بڑے ممالک میں گنے کی ترقی کیسے ممکن ہوسکتی ہے، جس سے مستفید ہوکر غریب ممالک نہ صرف اپنے اپنے ممالک میں گنے کی ترقی ممکن بناسکیں گے بلکہ اس میں دنیا بھر کے اسکالروں، سائنس دانوں اور ماہرین گنا کے لیے بھی مواد بطور ریفرنس شامل کیا جائے گا۔‘‘

’’مگر ہم کتاب کیسے لکھیں گے۔ میں تو قلم کار نہیں ہوں۔‘‘ کرسی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر میں گویا ہوا:

’’تمہیں اس بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں ہوں ناں ۔۔۔جس جس جگہ کتاب لکھتے وقت کوئی مشکل پیش آئے گی، میں تم سے رابطہ کرلوں گا۔ ایک لمحے کے لیے سوچو کتاب کے ٹائٹل پر برازیل کے حوالے سے تمہارا نام اور پاکستان کے تناظر میں اس ناچیز کا نام رقم ہو گا تو کیسا لگے گا۔‘‘

ڈاکٹر کرسی کی آنکھوں میں اس لمحہ خوشی کے آنسو تھے۔ وہ مجھ سے گلے مل کر کہنے لگا،’’آپ نے پہلے میرے اندر کے سائنسدان کو تحریک دی کہ چاہے کچھ ہوجائے گنے کی فصل نہیں چھوڑنی۔ اتنے ماہر اور تجربہ کار سائنسدانوں کی موجودگی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے 500 امریکی ڈالر کا ایوارڈ ملے گا۔ ڈاکٹر اعجاز اگر آپ کا ساتھ رہا تو میں گنے کی فیلڈ کا ڈاکٹر بورلاگ بھی بنوں گا۔ آپ نے میرے اندر کے لکھاری کو بھی بیدار کر دیا ہے ۔۔۔ہم کتاب ضرور لکھیں گے۔‘‘

ورکشاپ سے واپسی پر پاکستان آنے کے لیے میرے ہوائی سفر میں تبدیلی تھی۔ نیہا ایئرپورٹ سے ٹوکیو کی بجائے مجھے اوساکا ایئرپورٹ اترنا تھا۔ پھر یہاں سے براستہ بنکاک لاہور آنا تھا ، مگر اوساکا پہنچ کر معلوم ہوا کہ جس فلائیٹ سے مجھے بنکاک جانا تھا۔ وہ میرے اوساکا پہنچنے سے 2 گھنٹے پہلے ہی اڑان بھرچکی ہے۔ حالانکہ شیڈول کے مطابق بین الاقوامی پرواز میں سوار ہونے کے لیے 3 گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچ چکا تھا۔ اس صورت حال سے پریشانی لاحق ہوگئی کہ اب کیا کروں۔ میرے پاس تھائی ایئرلائنز کا ٹکٹ تھا، چنانچہ میں تھائی ایئر لائنز کی انتظامیہ کی طرف بھاگا اور انہیں بتایا کہ دیکھیں میں سرکاری ملازم ہوں مجھے تو آج ہر حال میں براستہ بنکاک لاہور پہنچنا تھا اور یہاں آکر پتا چلا کہ میرے فلائیٹ چلی گئی ہے۔ میری تو ایکس پاکستان کی رخصت بھی آج ختم ہونے کو ہے میری تو نوکری کا مسئلہ ہے۔

تھائی ایئر لائنز کی انتظامیہ نے میری تمام سفری دستاویزات دیکھیں، انہیں اپنی غلطی محسوس ہوئی۔ ایئرلائنز کے کاؤنٹر پر موجود اہل کار نے مجھ سے کہا،’’ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔ آپ کی فلائیٹ شیڈول سے 2 گھنٹے پہلے چلی گئی۔ یہی فلائیٹ اب کل صبح 10  بجے یہاں سے روانہ ہوگی ، جو براستہ ہانگ کانگ جائے گی اور بنکاک سے ہوتے ہوئے آپ اپنے وطن پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ایک بار پھر ہم آپ سے معذرت کے طلبگار ہیں۔‘‘

’’ مگر میرا تو یہاں اوساکا میں کوئی جاننے والا نہیں ہے، تو کیا مجھے رات ایئرپورٹ ہی رہنا پڑے گا۔‘‘

’’نہ نہ، آپ پریشان نہ ہوں، ہم نے اس کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔ ہم آپ کو رہنے کے لیے بہترین ہوٹل دیں گے، رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی ساتھ ہے اور ہوٹل تک جانے اور پھر وہاں سے واپس آنے تک ٹرانسپورٹ بھی ملے گی۔‘‘

تھائی ایئر لائنز کی اتنی ڈھیر ساری پیش کش کو سامنے پا کر سچی بات ہے اپنی فلائیٹ کے اڑ جانے کا افسوس جاتا رہا۔ ایئرلائنز کی انتظامیہ نے جاپان کی بہترین لیموزین گاڑی پر مجھے اوساکا شہر کے کوکو ہوٹل پہنچا دیا۔

ابھی شام کے چار بجے تھے اور تھکاوٹ بھی زوروں پر تھی مگر خیال آیا کہ کوکو ہوٹل تو شہر کے بیچوں بیچ ہے اور کل صبح یہاں سے نکل جانا ہے، کیوں نہ اوساکا شہر کی گلیاں، بازار دیکھ لیے جائیں۔ فوراً نیچے ہوٹل کی انتظامیہ کے پاس آیا اور ان سے کہا،’’جناب! میں حادثاتی طور پر اوساکا شہر آگیا ہوں کیا میں شہر گھومنے جا سکتا ہوں؟

’’جی ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو فلائیٹ میں تبدیلی کی وجہ سے اچانک یہاں ٹھہرنا پڑا ہے۔ آپ ضرور شہر میں گھومیں مگر یہ ہوٹل کا نقشہ اپنے پاس ضرور رکھ لیں اگر راستہ بھول جائیں تو یہ آپ کی راہنمائی کرے گا، مگر ایک بات یاد رکھیں کہ ابھی چار بجے ہیں اور رات کا کھانا رات 7بجے شروع ہو کر 8 بجے تک جاری رہے گا۔ اس دوران اگر آپ ہوٹل پہنچ گئے تو کھانا مل جائے گا۔ ورنہ بھوکا ہی رہنے پڑے گا۔ ویسے ہمارا ہوٹل ساری رات کھلا رہتا ہے۔ آپ آرام سے شہر کا نظارہ کریں۔‘‘

اوساکا شہر کی صاف ستھری سڑکیں، دیدہ زیب فلک بوس عمارات، خوب صورت میٹرو اسٹیشن اور اس پر چلنے والی ٹرین، جو شہر کے چاروں طرف گھومتی ہے اور مسافروں کو نہایت ارزاں ٹکٹ پر شہر کے چاروں طرف پہنچاتی ہے، اس ٹرین کی ایک خوبی یہ ہے کہ کرایہ ایک ہی رہتا ہے چاہے آپ 2 کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں یا 50کلومیٹر سفر کریں۔ نہایت سبک رفتا ٹرین ہے ، کوئی ٹکٹ چیک کرنے والا نہیں ہے، ٹرین پر کوئی پہلے چڑھنے کی کوشش نہیں کرتا، دھکم پیل کہیں نظر نہیں آئی۔ اوساکا شہر کے بچوں سے لے کر بڑوں تک جس سے بھی راستہ پوچھا ، سبھی نے خوش دلی سے راہنمائی کی، بلکہ ایک جاپانی ادھیڑ عمر خاتون سے اچانک مڈبھیڑ ہوگئی تو اس نے شاپنگ پلازہ میں میری خریداری میں اس قدر دل چسپی لی کہ اپنی شاپنگ چھوڑ کر میرے بیوی بچوں کی اشیاء کی خریداری کرنے تک کوئی گھنٹہ بھر میرے ساتھ رہی، تاکہ اجنبی سمجھ کر کوئی دکان دار مجھ سے زیادہ پیسے نہ اینٹھ لے ، جس پر میں اس خاتون کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔

شاپنگ پلازہ سے باہر نکلا تو مغرب ہوچلی تھی، افراتفری میں ادھر ادھر گھوم کر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر لاحاصل۔ اپنے ہوٹل پہنچنے کی جلدی تھی، کیوںکہ رات 8 بجے کھانا ختم ہو جانا تھا۔ کھانا تو کہیں بھی کھا سکتا تھا مگر اصل مسئلہ ہوٹل پہنچنے کا تھا کہ کسی طرح جلدازجلد پہنچا جائے۔ دل میں آیا کہ افراتفری میں ہوٹل ڈھونڈنے کاکوئی فائدہ نہیں، نیا شہر ہے نئے راستے ہیں ایک دفعہ پھرنے سے ازبر نہیں ہوتے ، بہتر ہے کہ کسی سے راہنمائی لے لی جائے۔ آس پاس کوئی نہ تھا مگر دور ایک جاپانی جوڑا گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان کی عمریں 35 کے لگ بھگ ہوں گی۔ ایک بچہ میاں نے گود میں اٹھا رکھا تھا۔ فوراً بھاگتے ہوئے ان کا پاس گیا، اپنا تعارف کروایا اور ہوٹل کا نقشہ سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اس ہوٹل تک پہنچنے میں راہنمائی کردیں۔ میری بے چینی کو دیکھتے ہوئے ان دونوں کو مجھ پر ترس آگیا اور وہ میرے ساتھ ہولیے۔ کبھی ادھر لے کے جاتے اور کبھی ادھر۔ سچی بات ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی اس ادھیڑ عمر خاتون کی طرح اپنا آپ بھول گئے تھے جو شاپنگ پلازہ میں اپنی شاپنگ بھول کر میرے ساتھ رہی تھی۔

جاپانی قوم شاید دنیا کی سب سے زیادہ پرامن رہنے والی قوم ہے، جو کسی کی تکلیف کو رفع کرنے میں اپنا آپ نہ صرف بھول بیٹھتی ہے بلکہ اس میں اپنی راحت بھی محسوس کرتی ہے۔ مجھے اپنے پورے جاپانی ٹور میں ہر جاپانی سے مل کر ایسے ہی محسوس ہوا کہ وہ انسانیت سے پیار کرنے والی دنیا کی ہمدرد ترین قوم ہے۔ بہرحال یہ میاں بیوی اور بچہ اب میرے ساتھ تھے میری راہنمائی کے لیے، اور میرا راستہ بھولنے کا غم فی الحال کافور ہوچکا تھا۔ جاپان میں بنی جانے والی فلک بوس عمارتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سامنے والی بلڈنگ کے عقب میں اگر جانا ہو تو اوپر سے 2کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اس کے پاس پہنچا جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہو رہا تھا، راستے میں باتیں بھی ہو رہی تھیں اور آپس میں تعارف بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ جاپانی میاں بیوی جو دونوں آٹو انجینئر تھے کے دل میں میرے لئے اپنائیت شاید اس لیے زیادہ بڑھ گئی تھی کہ انہیں یہ پتا چلا کہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں اور لیکچر دینے کے لیے جاپان آیا تھا۔ شوہر کا نام یاشو میما تھا اور بیوی یاشو میما تھی۔ یاشو نے دو سال کا بچہ اپنی گود میں اٹھا رکھا تھا جب کہ ہوٹل کا نقشہ بیگم یاشو کے پاس تھا۔ دونوں آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مجھ سے بھی ہم کلام تھے۔ ایک جگہ رک کر کہنے لگے،’’ڈاکٹر تبسم! یہ ہوٹل تو نہیں۔‘‘

میرے چہرے پر چھائی فکرمندی دیکھ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ کوئی ایک گھنٹہ تک وہ میرے ساتھ اوساکا کی گلیوں میں گھومتے رہے۔ وہ خود اوساکا کے مضافاتی علاقے سے شاپنگ کرنے کے لیے اوساکا آئے تھے۔ میں کہاں ان کے درمیان آگیا تھا۔ خواہ مخواہ ان کے وقت کے ضیاع کا سبب بن رہا تھا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا۔ مجھے فکرمند، پریشانی میں مبتلا اور ہوٹل جلدی پہنچنے کی غرض سے میرے چہرے پر چھائی اداسی کو بھانپتے ہوئے بیگم یاشو کہنے لگیں،’’آپ فکر مند نہ ہوں، اگر آپ کا قیام دو تین دن ادھر ہوتا تو ہمیں آپ کو اپنے ساتھ گھر لے جانا تھا۔ لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہم آپ کو آپ کی منزل پر پہنچا کر جائیں گے۔ ہم جاپانی لوگوں کی سرشت میں یہ چیز شامل ہے کہ ہم کام ادھورا نہیں چھوڑتے۔‘‘

ان میاں بیوی کی طرف سے ملنے والا دلاسا میرے دل میں جاپانیوں کی قدرومنزلت بڑھاگیا۔ چلتے چلتے دونوں میاں بیوی ایک جگہ رک گئے۔ پوچھنے لگے کہ یہ ہوٹل تو نہیں ہے؟ میں نے پوچھا کہ اس ہوٹل کا فرنٹ والا حصہ کدھر ہے۔ وہ دونوں مجھے اوپر سے گھما کر اس ہوٹل کے سامنے لے آئے ۔ میں یک دم خوشی سے بول اٹھا کہ جی ہاں یہی میرا ہوٹل ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ وہ دیکھیں سامنے کوکو ہوٹل لکھا ہوا ہے۔ اب میں بڑھ چڑھ کے ہوٹل کی نشانیاں بتانے لگا تھا اور وہ خوشی اور طمانیت سے نہال ہونے لگے۔ اس سمے مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ ہم تینوں ایک عرصہ سے ایک دوسرے سے واقف ہوں اور تینوں کا باہم جدا ہونے کو دل بھی نہ چاہ رہا ہو۔

میں نے اپنی پاکٹ سے کچھ کرنسی نکالی اور ان کے بیٹے کو تھمانا چاہی مگر ان دونوں نے شکریے کے ساتھ مجھے واپس کردی۔ میں نے کھانے کی پیشکش کی مگر وہ کہنے لگے کہ آپ مسافر ہیں اور آپ کے پاس اگر زاد راہ کم پڑ گیا ہو تو ہم سے لے لیں ۔۔۔ میں نے شکریہ ادا کیا جس پر مسٹر یاشو میما الوداع ہونے کے لیے مجھ سے گلے ملے۔ میں نے بھی گرمجوشی سے بھرپور معانقہ کیا۔ پھر بچے کے گال تھپتھپائے تو بیگم یاشو بھی الوداعی معانقے کے لئے اپنے بازو اٹھائے ہوئے میری طرف بڑھیں مگر میرے قدم فوراََ رک گئے۔

وہ یک دم ساکت ہو گئیں، ان کا چہرہ ایسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کی من پسند چیز چھین لی ہو۔ ان کا شوہر مجھے حیرت سے تکنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ڈاکٹر تبسم نے میری بیوی کو معانقہ کیوں نہیں کرنے دیا۔ بیگم باشو کہنے لگیں کہ ڈاکٹر تبسم! یہ میری خواہش ہے کہ میں آپ سے معانقہ کروں۔ راستے میں آپ سے کی جانے والی باتیں تو مجھے پاکستان بھی جانے پر مجبور کر رہی ہیں کہ میں آپ جیسے چہرے کو ملنے آپ کے دیس پاکستان آؤں مگر آپ تو یہاں جاپان میں مجھے اپنے گلے ہی نہیں لگنے دے رہے۔

میاں بولا کہ ہم اپنے مہمانوں کو ایسے ہی رخصت کرتے ہیں گلے لگ کر۔ بیوی اپنے میاں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی، کسی کے گلے لگنے میں حرج ہی کیا ہے اور وہ بھی اگر مہمان ہو۔ میں چند لمحے ساکت رہا پھر مسٹر یاشو کی طرف ایک قدم بڑھا اور دھیرے دھیرے کہنے لگا کہ بھٹکے ہوئے راہی کو منزل تک پہنچانے والے میرے راہنماؤ، اگر آپ دونوں اس بات پر رضامند ہیں اور خاص کر مسز یاشو کی بھی یہی خواہش ہے کہ میں گلے لگوں، مگر میرے مذہب اسلام نے مجھے روک رکھا ہے کہ ہم لوگ کسی غیرمحرم عورت کے سینے سے نہ لگیں۔ اسی میں بھلائی ہے۔

مسز یاشو فوراً بولیں مگر میرے مذہب نے ہمیں یہ تلقین کر رکھی ہے کہ اگر کبھی کسی کو الوداع کرنے کا موقع آئے تو اپنے مہمانوں کو گرم جوشی سے رخصت کرو، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔ میں اپنے جاپانی میزبانوں کی دلیلیں سن کر، اس لمحے دل سے شکست تسلیم کرنے لگا اور بول اٹھا۔۔۔ ٹھیک ہے اگر آپ کی یہی بھلائی ہے اور دونوں کی خواہش بھی یہی ہے تو میں آپ کی ضرور خواہش کروں گا اور مسزیاشو کے جسم کی حرارت محسوس کروں گو۔ جس پر وہ خوشی سے سرشار ہوگئیں۔ میں ایک قدم مزید آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ مسز یاشو کے قدموں پر رکھ کر اس کے بدن کے لمس کو ہاتھوں کے ذریعے چوما اور اپنے ہوٹل کے اندر چلا گیا۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔