سرکاری عہدے کومنافع کے لیے ضروراستعمال کرناچاہیے؟

راؤ منظر حیات  پير 18 فروری 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

مہاتیرمحمد گہری سوچ میں تھا۔باربارذہن میں متضاد قسم کے سوالات جنم لے رہے تھے۔بطورانسان اسے کیا کرناچاہیے؟کیااسے جائزطریقے سے امیرہونے کاحق ہے کہ نہیں؟ بطوروزیراعظم اس کے تمام اخراجات حکومت پورے کررہی تھی مگرکیااسے حکومتی طریقوں سے متمول ہوناچاہیے کہ نہیں۔دوگھنٹے مسلسل سوچنے کے بعد مہاتیر اُٹھا۔نمازاداکی اور سکون سے سوگیا۔ سونے سے پہلے بڑا فیصلہ کر چکا تھاکہ حکومت ایک امانت ہے، اسے کسی صورت میں ذاتی مفادکے لیے استعمال کرناجائزنہیں ہے۔ درست ہے کہ بطوروزیراعظم اس کے پاس ایسے بے شمار مواقعے ہیں جن کے ذریعہ وہ بے تحاشا دولت کما سکتا ہے۔ مگراسے اپنے عہدہ کے ذریعے معمولی سافائدہ بھی نہیں اُٹھاناچاہیے۔مہاتیرآرام سے سوتارہااورصبح دفتر جاکراس نے ایک فائل پرمنظوری دے دی جواسے گزشتہ رات سوچنے پرمجبورکرتی رہی۔

یہ مسئلہ کیاتھا۔کون ساایساسوال تھاجوملایشیاکے وزیراعظم کے ذہن پرنشتربرسارہاتھا۔دراصل کوالالمپور سے چندگھنٹوں کی مسافت پرلنکاوی نام کاایک خطہ ہے۔ اس میں ننانوے چھوٹے بڑے جزیرے موجود ہیں۔آج کل یہاں کروڑوں سیاح سالانہ آتے ہیں۔اربوں ڈالر کا زرِمبادلہ حکومت وصول کرتی ہے۔مگردہائی قبل یہاں تفریح کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔مہاتیراسے ملایشیاء کاسب سے بہترین سیاحتی مقام بناناچاہتاتھا۔ایسی جگہ جہاں پوری دنیا سے سیاح مسلسل آتے رہے۔مگراس کی بنیاد صرف ایک تھی۔

اسے ٹیکس فری علاقہ قراردیناتھا۔یہ تدبیر صرف اورصرف مہاتیرکے ذہن میں تھی، پورے ملک میں کسی کو معلوم نہیں تھاکہ مہاتیران جزیروں پرٹیکس ختم کررہاہے۔مگریہیں سے قائدین کے کردارکابھی امتحان شروع ہوتاہے جس سے قومیں بگڑتی یا سنورتی ہیں۔ ملایشیا میں کسی کے علم میں نہیں تھاکہ لنکاوی کوبہت بڑی سہولت دی جارہی ہے۔

وہاں زمین حددرجہ سستی تھی۔ایک ایکڑزمین کی قیمت تقریباًچارسے سے پانچ سوملائیشین رنگٹ تھی۔مہاتیرمحمدکے صرف ایک فیصلے سے زمین کی قیمت میں قیامت خیزتیزی آگئی۔ فیصلے کے صرف کچھ عرصے کے بعدلنکاوی میں ایک ایکڑکی قیمت پانچ ملین ملائیشین رنگٹ ہوچکی تھی۔ مہاتیرکے لیے بہت آسان تھاکہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے خاندان کے افرادکولنکاوی میں کوڑیوں کے مول زمین خریدنے کاکہہ دیتا۔ ایک دوایکٹر نہیں، برسرِاقتدارخاندان وہاں سیکڑوں ایکٹرزمین بڑی آسانی سے خریدلیتااورصرف ایک سال بعدوہ اس زمین کی قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد کھرب پتی ہوجاتے۔مگرمہاتیرنے ایسا نہیں کیا۔اس نے لنکاوی میں ہرطرح کاٹیکس ختم کردیا۔اس کافائدہ ملایشیاء کے کاروباری طبقے نے اُٹھایا۔لنکاوی آج پوری دنیا میں ایک بہترین سیاحتی جنت بن چکاہے۔یہ روداد مہاتیرنے وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بعد ایک تقریب میں بیان کی۔ مہاتیرنے کہاکہ ہرمقتدرشخص کی زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں کہ اسے لالچ بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔

مگرکسی بھی حکومتی عہدہ دارکاامتحان ہی یہ ہوتاہے کہ اس لالچ کوکیسے شکست دے۔یہی امتحان ہے اوراس میں کامیاب ہوناہی قوم کوترقی کی طرف گامزن کرانے کا واحدراستہ ہے۔مہاتیرنے کھل کرکہاکہ وہ بھی ایک انسان ہے۔ لنکاوی کے فیصلے سے ذراپہلے وہ سب کچھ کر سکتا تھا۔ مگر اس نے ہرگزہرگزاپنے قانونی اختیارکوذاتی مفادمیں استعمال نہیں کیا۔اگرملایشیاآج دنیامیں ترقی کی شاہراہ پر دوڑرہاہے تویہ صرف اورصرف مہاتیرمحمدکے ایماندارانہ فیصلوں اورعملی تدبیرکی بدولت ممکن ہواہے۔

ہمارے ملک میں سرکاری عہدیداروں اور متعدد سیاستدانوں نے اپنے سرکاری عہدے کا کیسا خوفناک استعمال کیاہے۔آپ کوتسلیم کرناپڑتاہے کہ پورے ملک میں سرکاری اورنجی شعبے کی بنیادصرف اورصرف کرپشن ہے۔ضروری نہیں کہ وزیراعظم یا وزراء اعلیٰ یاوزیر،لوگوں سے کام کرانے کے پیسے لینے کوہی کرپشن کہاجائے بلکہ سب سے بڑی کرپشن اپنے بلند عہدے پر موجود ہوکر مالیاتی معلومات کو اپنی دولت بڑھانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ہمارے پورے نظام میں اس چیزکو بُرا نہیں سمجھا جاتا۔

زبانی جمع خرچ توخیربہت ہے۔مگرجس سرکاری عہدہ دار کے پاس جوبھی معلومات موجودہوتی ہیں، اسے اپنے مالی فائدے کے لیے استعمال کرنافرض سمجھتاہے۔اس کی سیکڑوں نہیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مثالیں ہمارے اردگردموجودہیں۔کیونکہ ہمارے نظام کی بنیادہی مالیاتی بے ضابطگی ہے،لہذاتمام اعلانات کے باوجودہم ترقی کرنے سے قاصرہیں۔ہم ایک ایسے اپاہج کی طرح ہیں جواعلان کردے کہ میں اولمپک مقابلے میں سب سے تیزدوڑکردکھائوں گا۔یہ جھوٹ نہ کوئی تسلیم کرتاہے اورنہ ہی کسی کوکرناچاہیے۔ہمارے ساتھ بعینہ یہی معاملہ ہو رہا ہے۔تمام ترلفظی اعلانات اورخوش نماتقاریرکے باوجودہم سیاسی، سماجی اور اقتصادی بدترین بدحالی کی مثال ہیں۔

چھوٹی سی مثال دیتاہوں۔لاہورکے اردگرد رنگ روڈ بننی تھی۔یہ کوئی نیا نہیں بلکہ خاصا پرانامنصوبہ تھا۔ مگر اصل چیزرنگ روڈکانقشہ تھا۔یہ کس بستی سے شروع ہوگی، کہاں ختم ہوگی۔کس کس زمینی ٹکڑے سے گزرے گی۔ کہاں پُل بنے گا۔کہاں سے ذیلی سڑکیں نکلیں گی۔یہ سب کچھ ایک نقشے کی صورت میں تھا۔ انتہائی ذمے داری سے عرض کررہاہوں کہ اس نقشے کو ماضی کے مقتدر لوگوں نے اپنی مرضی سے تبدیل کیا۔ صوبائی حکومت تبدیل ہوئی۔نیاگروہ اقتدارمیں آیا۔ ساتھ ہی پہلاحکم،رنگ روڈکے نقشہ کواپنی مرضی سے تبدیل کرناتھا۔اس کے اردگرد زمینوں کوسستے داموں خریدنے کی دوڑلگی رہی۔

آپ حیران ہوںگے کہ ایک وقت ایسابھی آیاکہ لوگوں کوبیوقوف بنانے کے لیے رنگ روڈکے جعلی نقشے مارکیٹ میں پھیلادیے گئے۔ مگراصل نقشہ صرف اورصرف دوتین آدمیوںکے پاس موجودرہا۔صرف رنگ روڈ میں، معلومات کی بنیاد پر اربوں روپے کمائے گئے۔اگرآپ سوال اُٹھائیں تو جواب بے حدسادہ ہے کہ یہ توجائزمنافع ہے۔ زمین کی قیمت بڑھی تومنافع کی شرح بھی بڑھ گئی۔ لیکن کوئی اس سوال کاجواب نہیں دے سکتاکہ آپ کو معلوم کیسے ہواکہ سستی زمین کہاں اورکب خریدنی ہے۔ اس سوال کاکسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔رنگ روڈ ایک معمولی سی مثال ہے جسکی الائنمنٹ کوتبدیل درتبدیل کرتے کرتے لاہورمیں کئی نئے ارب پتی شامل ہوگئے۔

اورآج وہ سینہ ٹھوک کرکہتے ہیں کہ ہم تو ایماندار ہیں۔ اگر دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہوجائے توسیاست چھوڑ دینگے۔یہ بیان مکمل طورپردرست ہے کیونکہ انھوں نے واقعی کوئی کرپشن نہیں کی۔انھوں نے توصرف اپنے عہدہ کی بدولت،مالیاتی معلومات کواپنے ذاتی فائدے کے لیے بروقت استعمال کیا ہے۔ان کی نظرمیں یہ تومعمول کی بات ہے۔ جائز کاروبارہے۔مگرجن ممالک نے ترقی کرنی ہو،وہاں یہ ایک سنگین جرم ہے۔چین جیسے ملک میں اس جرم کی سزا،گولی کے ذریعے سزائے موت ہے اورسرکاری گولی کی قیمت بھی مرنے والے کے لواحقین کواداکرنی پڑتی ہے۔

ملک کے کسی شعبے میں جھانک کردیکھ لیجیے۔ آپکو بالکل یکساں حالات نظرآئینگے۔کہاجاتاہے کہ سرکاری شعبے میں بہت کرپشن ہے۔درست بات ہے۔ مگر صاحبان! نجی شعبے کی مالیاتی کرپشن کے سامنے توسرکاری شعبے طفلِ مکتب ہے۔نجی شعبے میں زیادہ سے زیادہ منافع کو جائز گرداناجاتاہے۔کہاجاتاہے کہ نجی شعبے کامقصدہی پیسہ بناناہے۔مگریہ کوئی نہیں کہتاکہ جناب، جائز اور ناجائز منافع میں بے انتہا فرق ہے۔صرف امریکی سابقہ صدر، اوباما نے جائز اورناجائزمنافع میں فرق پربحث کی تھی۔ اس نے کہاتھاکہ وال اسٹریٹ میں کام کرنے والے افراد کے منافع اوربونس فُحش (Vulgar)ہیں۔شائداسی ایک جملے کی سزامیں امریکا کے کارپوریٹ سیکٹرنے مالیاتی وسائل استعمال کرکے اوباما کووائٹ ہائوس سے باہر نکال دیا۔اورکارپوریٹ سیکٹرکے ایک فرد کوامریکی صدر بنادیا۔ یہ نمایندہ ٹرمپ ہے۔

اپنے ملک کی طرف دیکھتاہوں توہرطرف حکومتی اور سیاسی عہدے دارپیسہ بنانے میں مصروف نظرآتے ہیں۔ دراصل ہمارے بدقسمت ملک میں سسٹم میں رہ کر،آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ کے لیے اردگردکے تمام گھروں کے سامنے کوڑے کرکٹ کے انبارلگواسکتے ہیں،تاکہ مکین تنگ آکرسستے داموں وہ جائیداد فروخت کردیں۔ یہاں، اپنی ذاتی متعددشوگرملیں لگانے کے بعدنئی شوگرملوں پر پابندی لگادی جاتی ہے کہ تاکہ لوگوں کوجائزکاروبارکرنے کی سوچ بھی نہ آئے۔یہاں ذاتی مرغی اورانڈے کے کاروبار کو بڑھانے کے لیے، دیگر تمام پولٹری فارموں کودفعہ144کے ذریعے مجبور کر دیاجاتاہے کہ وہ اپنا کاروبارضلع کی حدود سے باہرنہیں کرسکتے۔ صاحبان! یہاں سب کچھ جائز ہے۔سسٹم کی آڑمیں ناجائز طور پر امیرہونے کی بھرپور اجازت ہیھ۔لہذاکس بات کاڈر۔سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا!جویہ سب کچھ نہ کرے،وہ شائدبیوقوف ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔