سانحہ پلوامہ کومعمولی نہ سمجھا جائے!

تنویر قیصر شاہد  پير 18 فروری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کو اِس وقت کامل امن کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں مگر بد قسمتی سے نریندرمودی کی شکل میں اپنے ہمسائے میں ایک ایسا بنیاد پرست اور شدت پسند ہندو حکمران ملا ہے جو نظریاتی طور پر جنوبی ایشیا میں امن کا بھی دشمن ہے اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا بھی ۔پانچ سال پہلے یہ صاحب جب بھارتی وزیر اعظم منتخب ہُوئے تھے تو انھوں نے عہد کیا تھا کہ (۱)جب تک پاکستان کو اپنے ڈھب پر نہیں لے آتا، تب تک پاکستان سے کوئی بات چیت نہیںکروں گا(۲)نہ پاکستان سے پوری طرح سفارتی تعلقات بحال ہوں گے(۳)پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرکے چھوڑوں گا(۴) پاکستان سے کھلی تجارت نہیں ہو گی(۵) اور (مقبوضہ) کشمیر میں آزادی کی شمع بجھا کر رہوں گا۔یہ ایجنڈا مودی جی کا نہیں ، اُن دو بڑی بنیاد پرست ہندو جماعتوں کا تھا جو اپنے ہندوتوا پروگراموں کی تکمیل کے لیے بطورِ ہتھیار نریند مودی کو اقتدار میں لائی تھیں ۔

پانچ سال گزر گئے ہیں لیکن نریندر مودی نہ تو اپنے ملک میں عوام کی خوشحالی کے وعدے پورے کر سکے ہیں اور نہ ہی پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کسی بھی کمٹمنٹ پر پورے اُتر سکے ہیں ۔ ہر جگہ اور ہر میدان میں انھیں ناکامی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اور اب اگلے عام بھارتی انتخابات میں صرف ڈھائی ماہ رہ گئے ہیں ۔ ممکنہ انتخابی شکست کے الفاظ انھیں سامنے دیوار پر لکھے صاف نظر آ رہے ہیں ۔ یہ منظر دیکھ کر انھیں ہول آ رہا ہے۔ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے معروف علاقے ، پلوامہ، میں 14فروری 2019ء کو دن کے سوا تین بجے ایک فدائینی یا خود کش حملے کا سانحہ پیش آ گیا ہے جس نے بھارت کی نیم فوج (سی آر پی ایف، یعنی سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کے تقریباً چار درجن جوانوں کو ہلاک کر ڈالا ہے ۔

سی آر پی ایف وہ بھارتی پیرا ملٹری فورس ہے جس کے ہاتھ مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں شہدا کے خون سے رنگے ہُوئے ہیں ۔اِسی فورس کے کوئی دو ہزار ملازمین 70بسوں میں سوار ہو کر جموں سے پلوامہ جا رہے تھے ۔ پلوامہ کشمیر کا وہ خطہ ہے جہاں بھارتی قابض فوجوں ، پولیس اور بی ایس ایف کو سب سے زیادہ کشمیری مزاحمت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ۔ پلوامہ میں نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھا ڈھا کر بھارتی قابض افواج کے ہاتھ شل ہو گئے ہیں لیکن کشمیری مزاحمت ٹوٹ سکی ہے نہ اس میں کوئی کمی آئی ہے ۔

ستّر بسوں کا فوجی قافلہ پلوامہ جاتے ہُوئے جب ’’آونتی پورہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو اچانک ایک پُر اسرا ر گاڑی آئی اور پلک جھپکتے میں بسوں سے ٹکرا گئی ۔ ایک قیامت خیز دھماکا ہُوا۔ بازگشت ، دھوئیں اور شعلوں کی قیامت تھمی تو پتہ چلا کہ سی آر پی ایف کے44 باوردی ملازمین زندگیوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ زخمی بھی لاتعداد ہیں۔ پچھلے پانچ روز سے بھارت میں ایک قیامتِ صغریٰ بپا ہے۔
پاکستان نے اِس سانحہ کی بھرپور مذمت کی ہے ۔ متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور بھارت کو تحقیقات میں تعاون کی پیشکش بھی کی ہے لیکن بھارت حسبِ معمول بے بنیاد الزامات پاکستان کے سرتھوپتا جا رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا بھی حسبِ سابق بیک زبان پاکستان کے خلاف شعلے اُگل رہا ہے۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ حسبِ عادت اِس واقعہ کا کُھرا پاکستان میں ڈھونڈنے کی کوششوں میں ہے ، لیکن حسبِ ماضی یہ کوششیں ناکامی سے ہی دوچار ہو گی۔ پلوامہ کا یہ بھیانک سانحہ ایک بار پھر دُنیا پر عیاں کر گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںآزادی اور مزاحمت کی تحریکیں کس انتہا کو پہنچ چکی ہیں ۔ بھارت نے عالمی میڈیا پر مقبوضہ کشمیر کے سبھی دروازے بند کررکھے ہیں لیکن پلوامہ کے واقعہ نے بندش اور سنسر کے سارے دروازوں کو ایک ہی وار میں اُڑا کررکھ دیا ہے۔ بھارت مگر اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کشمیر کی جملہ تحریکیں مقامی ہیں ۔

باہر سے کوئی ریکروٹنگ ہورہی ہے نہ کوئی بیرونی ہاتھ اعانت کو پہنچ رہا ہے ۔ بھارت نے حادثے کے فوری بعد ایک مشتبہ ویڈیو کلپ کے ذریعے یہ تو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پلوامہ کا فدائی سانحہ عادل احمد ڈار نامی ایک کشمیری نوجوان نے انجام دیا ہے ، لیکن بھارت سرکار، کشمیر پر قابض فورسز اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ بیس اکیس سالہ یہ نوجوان خود کش حملے کی ہلاکت خیر نوبت کو کیوں اور کیسے پہنچا؟ بھارتی اور کشمیری میڈیا کے اندر سے متفقہ طور پر یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ اگر تین سال قبل عادل احمد ڈار کو بھارتی افواج اور سی آر پی ایف کے جوان تشدد اور بہیمانہ ظلم کا ہدف نہ بناتے تو شائد وہ بھی آج زندہ ہوتا اور 44کی تعداد میں مرنے والے بھی ۔ عادل ڈار کے کسان پیشہ والد ( غلام حسین) اور والدہ (فہمیدہ)اپنے بیٹے پر بھارتی تشدد کی داستان سناتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ بھارت پلوامہ میں ہلاک ہونے والے چوالیس افراد کا حساب تو کشمیریوں سے مانگ رہا ہے لیکن وہ خود کشمیریوں کے لاکھوں جوانوں کی شہادتوں کا حساب دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اُس کی سُوئی پاکستان پراٹکی ہُوئی ہے ۔کہتا ہے: پاکستان سے بدلہ لیں گے!!

بدلہ لینا مگر اتنا سہل نہیں ہے۔اُسے ٹھوس شہادتوں پر دُنیا کے سامنے پاکستان کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنا ہوگا۔ پاکستان کے خلاف ایسے خام اور تہمتی دعوے پہلے بھی کئی بار بھارت کی طرف سے کیے جاتے رہے ہیں۔بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کئی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ پلوامہ کے واقعہ میں پاکستان ملوث نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، منوج جوشی، بھارتی فوج کے ریٹائرڈ فوجی افسر آلوک آستھنا وغیرہ نے بھارتی نجی ٹی ویوں اور قابلِ اعتبار ویب اخبارات ( اے بی پی ٹی وی، دی وائر ڈاٹ کام ، سکرول وغیرہ)کو دیے گئے انٹرویوز اور لکھے گئے مفصل آر ٹیکلز۔

بھارتی اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ پلوامہ سانحہ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کے مشیرِ سلامتی اجیت ڈوول کے متشددانہ مشوروں کا فطری نتیجہ ہے۔ یہ دراصل کشمیریوں کو کچلنے کے لیے ڈوول ’’صاحب‘‘ کی اسٹرٹیجی کا اُلٹا نتیجہ نکلا ہے ۔بھارتی وزیر اعظم مگر کسی ضدی اور نااہل بچے کی طرح پاکستان کی جانب انگشت نمائی کرتے ہُوئے اپنی رَ ٹ لگا رہے ہیں:’’ بھارتی عوام کا خون پلوامہ واقعہ پر کَھول رہا ہے، اُبل رہا ہے ۔‘‘ مودی جی یاد رکھیں کہ یہ ہانڈی اُبلے گی تو اپنے ہی کنارے جھلسا ئے گی ۔

انسانیت کے ناتے پلوامہ کے خوفناک خود کش حملے میں ہلاک ہونے والوں کا ہم سب کو افسوس اور دکھ ہے ۔ وہ بھی تو کسی کے لختِ جگر، کسی کا سہاگ، کسی کے سر کا سایہ تھے۔ بھارت مگر یہ بھی یاد رکھے کہ اُس نے اب تک لاکھوں کی تعداد میں جن کشمیریوں کو تہ تیغ کیا ہے، وہ بھی تو کسی کے کچھ لگتے تھے ۔ اُن کی رگوں میں بھی تو سرخ خون ہی بہتا تھا۔ یہ واقعہ عین اُس وقت پیش آ یا ہے جب ہمارے معزز سعودی مہمان کی آمد سر پر تھی ۔ یہ نازک لمحات تھے لیکن پاکستان اِس بھارتی سازش، منصوبہ بندی، کذب گوئی اور منفی پروپیگنڈے کے طوفان سے بھی گزر جائے گا۔ انشاء اللہ۔ بھارت غصے میں پاکستان کو دیا گیا ایم ایف این اسٹیٹس ختم کرنے کا اعلان بھی کر چکا ہے ۔

وہ پلوامہ واقعہ کو ہیگ میں جاری کلبھوشن یادیو کے مقدمے اور 19فروری کو یورپی یونین میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے کیس کی سماعت پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کرے گا۔ وہ کرتار پور راہداری کو مسدود کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پاکستان کی قیامِ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھی کوئی قدم اُٹھا سکتا ہے ۔ لیکن کیا پاکستان نے ہاتھوں میں مہندی لگا رکھی ہے۔؟ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کو اپنے مقابل تیار پائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔