ایک نئی سیاسی لو اسٹوری

ایاز خان  پير 29 جولائی 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

ڈاکٹر عشرت العباد ریکارڈ ساز شخصیت بن گئے ہیں۔ ان سے زیادہ لکی کوئی اور ہو سکتا ہے؟ موصوف کو سندھ کا گورنر بنے پونے گیارہ سال کے قریب ہو چکے ہیں۔ اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے لیے ڈکٹیٹر کو بھی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کو اپنی گورنری بچانے کے لیے کچھ خاص محنت نہیں کرنا پڑتی۔ ان کی کوالی فکیشن ان کی جماعت ہے۔

جب تک ایم کیو ایم کی اہمیت برقرار ہے، عشرت العباد کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ جنرل پرویز مشرف نے جب ایم کیو ایم کی اہمیت کو تسلیم کیا تو انھوں نے عشرت العباد کو 27 دسمبر 2002ء کو سندھ کا گورنر نامزد کر دیا۔ یہ مشرف کی جمہوری حکومت کے گورنر تھے۔ وہ جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہوئی۔ نئے جمہوری دور کا آغاز ہو گیا۔ مشرف کا اقتدار کمزور پڑ گیا لیکن متحدہ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ پہلے پرویز مشرف اس کے اتحادی تھے پھر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کی مسلمہ حقیقت اور اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ وفاق اور سندھ میں حکومت چلانے کے لیے ان کی بیساکھی کا سہارا بھی لے لیا۔

گزشتہ دس گیارہ سال میں سب کچھ ٹھیک چلتا رہا سوائے کراچی کے حالات کے جو مسلسل خراب ہوتے رہے۔ 5 سالہ جمہوری دور میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی جماعتیں تھیں۔ اے این پی اور جے یو آئی (ف) بھی اس اتحاد کا حصہ تھیں۔ ہاں یاد آیا آخری دور میں قاف لیگ بھی پیپلز پارٹی کی اتحادی بن گئی تھی اور پھر الیکشن ہوئے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ قاف لیگ نامی جماعت کا کوئی وجود بھی تھا۔ ایسا ہوتا ہے‘ غیر فطری اتحادوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی اب اسی لیے کہتے ہیں کہ اس اتحاد کا بہت نقصان اٹھا لیا۔ آخر وضع داری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

پیپلز پارٹی سے پہلے متحدہ 1997ء میں مسلم لیگ ن کی بھی اتحادی تھی۔ اس کے بعد 12 اکتوبر99ء برپا ہوا تو ن لیگ کی حکومت کو جدہ کے سرور پیلس میں جلا وطن ہونا پڑا۔ ایم کیو ایم نے ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے پرویز مشرف کا بھرپور ساتھ دیا تو میاں نواز شریف ان سے ناراض ہو گئے۔ نواز شریف جب جدہ سے نکل کر لندن جانے میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے وہاں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ مشرف سے اتحاد کرنے پر میاں صاحب متحدہ پر اس قدر برہم تھے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں ان کے اصرار پر یہ نکتہ شامل کیا گیا کہ مستقبل میں ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی سیاسی جماعت اتحاد نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی نے اس پوائنٹ کی مخالفت کی تھی اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سیاست میں دروازے کبھی بند نہیں کیے جاتے۔ پیپلز پارٹی نے اے پی سی کے اعلامیہ میں باقاعدہ اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

گذشتہ جمہوری دور میں ایم کیو ایم اور ن لیگ میں شدید اختلافات تھے۔ دونوں طرف سے سخت جملوں کا تبادلہ بھی کئی بار ہوا۔ متحدہ کے وسیم اختر نے پنجاب کے بارے میں جو قابل اعتراض ریمارکس دیے تھے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ن لیگ متحدہ کو کراچی کے حالات کا ذمے دار ٹھہراتی رہی۔ عمران خان نے کراچی میں مزار قائد پر جلسہ کیا تو ان پر الزام لگا کہ انھوں نے ایم کیو ایم کی مدد اس میں حاصل کی تھی۔ معاملات جوں کے توں چل رہے تھے کہ درمیان میں صدارتی الیکشن آ گیا۔

ن لیگ کے پاس اپنا امیدوار کامیاب کرانے کے لیے مطلوبہ اکثریت موجود تھی لیکن اس نے ضروری سمجھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی ساتھ حاصل کیا جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں یہ کہا تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک جن مسائل کا شکار ہے ان پر کوئی جماعت تنہا قابو نہیں پا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر جماعتوں کا ساتھ ضروری ہے لیکن ن لیگ کی ترجیحات میں ایم کیو ایم بھی ہوگی یہ بہت سے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

اسحاق ڈار‘ پرویز رشید اور صدارتی امیدوار ممنون حسین پر مشتمل وفد نائن زیرو گیا تو دونوں طرف سے بڑی گرمجوشی کا مظاہر کیا گیا۔ ن لیگی وفد نے اپنے نئے اتحادی کو وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دے ڈالی۔ ایم کیو ایم نے اگرچہ ن لیگ کے صدارتی امیدوار کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ جلد ایم کیو ایم قومی اسمبلی اور سینٹ میں سرکاری بنچوں پر آ بیٹھے۔ پورٹس اینڈ شپنگ سمیت دو تین وزارتیں بھی لینے پر آمادہ ہو جائے۔ اس کے ساتھ اگر وہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں شامل ہو جائے تو اس پر بھی کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ مفاہمت کی جس سیاست کا رواج صدر زرداری ڈال چکے ہیں اس میں یہ سب ممکن ہے۔

ن لیگ نے ایم کیو ایم کے در پر جانے سے پہلے یقیناً اس اتحاد کے فائدے اور نقصانات کا اندازہ لگایا ہو گا۔ انتخابی مہم کے دوران اندرون سندھ اس کے لیے سافٹ کارنر پیدا ہوا تھا، ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کے بعد اس میں کمی آئے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات کہتے ہیں صدارتی امیدوار کے لیے اربن سندھ کے حمایت ضروری تھی۔ یہ فیصلہ شاید اسی تناظر میں کیا گیا ہے۔ اس اتحاد سے ن لیگ کو صرف یہ فائدہ ہو گا کہ اس کے صدارتی امیدوار کے ووٹ بڑھ جائیں گے۔ اصل فایدے میں ایم کیو ایم رہے گی جو کافی حد تک سیاسی تنہائی کا شکار تھی۔ لندن سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ یہ سیاسی تنہائی اب ختم ہو گئی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کہتے ہیں ن لیگ سندھ اسمبلی سے اپنے امیدوار کے لیے مینڈیٹ لینا چاہتی تھی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن فنکشنل لیگ اگر ان کے امیدوار کو ووٹ دیتی تو وہ سندھ کی ہی نمایندگی کر رہی ہوتی۔

یہ مقولہ ایک بار پھر سچ ثابت ہو گیا ہے کہ سیاست میں سب جائز ہوتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر بدترین دشن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اور جب ضرورت نہیں رہتی تو دوستوں سے بھی منہ پھیر لیا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اور ایم کیو ایم کی تازہ سیاسی ’’لو اسٹوری‘‘ کب تک چلتی ہے۔ اس ساری صورتحال پر پیپلز پارٹی کی قیادت بہت خوش ہے۔ اس پر یہ الزام لگتا رہا کہ وہ اپنے اتحادی کے جائز ناجائز سارے مطالبات مانتی رہی ہے جس کہ وجہ سے کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ اس اتحاد کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے یہ بات طے ہے کہ عشرت العباد کی ایک بار پھر لاٹری نکل آئی ہے۔ حافظ حسین احمد اپنے دلچسپ اور حسب حال جملوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انھوں نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ عشرت العباد نے گورنری کا آب حیات پی رکھا ہے‘‘۔ کسی کو کوئی شک ہے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔