بہترین سفارتکاری !

علی احمد ڈھلوں  منگل 19 فروری 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پاکستانی قوم سعودی عرب کے ولی عہد،شہزادہ محمد بن سلمان السعود، اور ان کے وفد میں شامل دیگر مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہتے ہوئے بجا طور پر فخر محسوس کررہی ہے۔ہر طرف خوشی کا سماں ہے، اسلام آباد میں ایک عرصے بعد شاندار استقبالیہ دیا جا رہا ہے۔

اگر ہم مختصراً بات کریں تو بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل سعودی ولی عہد نے قانون کی تعلیم کنگ سعود یونیورسٹی سے حاصل کی، ان کی وجہِ شہرت ان کا متحرک اور موثر اندازِ حکمرانی ہے۔ وہ سعودی عرب کو روشن خیالی‘ ترقی پسندی اور معاشی استحکام وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جون 2017ء سے لے کر آج تک، یعنی 2 برس کے مختصر عرصے میں، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کے مذہبی حلقوں کو حاصل وسیع تر اختیارات کے لیے مناسب حدود مقرر کیں، سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دیا اور ان کے کھیلوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ای ویزا کی سہولت کو یقینی بنایا۔30 سالہ سعودی ولی عہد ایک  صاحبِ بصیرت رہنما کے طور پر سعودی معیشت کے صرف تیل کی پیداوار پر انحصار کے بجائے اس میں تنوع پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیاحت اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر ان کی خصوصی توجہ مرکوز رہتی ہے۔

وہ پاکستان کے تاریخی دورے پر ہیں اور یہ حکومت کی کامیابی اور بہترین سفارتکاری ہے کہ اُس نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کو ’’رام‘‘ کر لیا ہے ورنہ گزشتہ دور حکومت میں ایسا نہیں تھا۔ میاں نوازشریف نے تو بوجوہ اپنے دور اقتدار کے قریباً پہلے چار برس وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھا، لیکن اس پالیسی کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا اور پاکستان دنیا بالخصوص خطے میں قریباً تنہا نظر آنے لگا۔

حالات کا پوری طرح ادراک کیے بغیر میاں نواز  شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے جپھی ڈالنے کے لیے کچھ زیادہ ہی کوشاں ہو گئے تھے،وہ مودی کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے مئی 2014 ء میں خود دہلی پہنچ گئے۔نہ جانے میاں صاحب ہمیشہ یہ کیوں سمجھتے رہے ہیں کہ ایک سیاسی جپھی سے کئی دہائیوں پرانے تنازعات کو حل کیا جاسکتا ہے۔

بعدازاں دسمبر 2015 ء میں ان کی نواسی اور مریم نواز کی صاحبزادی مہرالنسا کی شادی کے موقعے پر اسٹیل ٹائیکون سجن جندال کے ہمراہ مودی اچانک جاتی عمرہ وارد ہو گئے۔ میاں نوازشریف کی بظاہر نیت پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور دونوں ملکوں میں اقتصادی روابط بہتر بنانے کی ہی تھی مگر اُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سابقہ حکومت ہی میں امریکا تو مسلسل یہ گردان کر رہا تھا کہ پاکستان میں پناہ لیے ہوئے دہشت گرد گروپ افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی آشیرباد سے شورش پھیلا رہے ہیں۔افغانستان سے تعلقات خراب تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں امریکا تو ہمیں ویسے ہی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔

اب وزیراعظم عمران خان کے دور میں صورتحال بدرجہا بہترہے۔شاہ محمود قریشی جو پہلے بھی آصف زرداری کے دور میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، اب اس وزارت کے تقاضوں کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔یقیناً میاں نوازشریف کے دور کے مقابلے میں اب بین الاقوامی اور علاقائی حالات میں کچھ مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان تال میل مثالی ہے، اسی بنا پر افغانستان کی سترہ سالہ حالیہ جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان، امریکا اور افغان طالبان کے مذاکرات کرا رہا ہے جس کا پہلا دور جو خاصا کامیاب رہا قطر میں ہوا تھااور دوسرا دوراب ہونے والا ہے۔

یہ کہنا کہ امریکا سے تجدید تعلقات ہوگئی ہے مبنی برحقائق نہیں ہو گا لیکن مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے حالیہ مثبت کردار کی بنا پر کچھ نہ کچھ برف ضرور پگھلی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر خود کش حملے میں 47 بھارتی نیم فوجی دستوں کی ہلاکت کا ملبہ پاکستان پر گرایا گیا ہے،یہ خودکش حملہ گزشتہ تیس برسوں میں بھارتی فورسز پر سب سے بڑا حملہ ہے۔اس کی پاداش میں بھارت نے پاکستان کا پسندیدہ ترین ملک کا اسٹیٹس ختم کر دیا ہے۔لیکن اس سلسلے میں بھی موجودہ حکومت، پاک فوج اور سیاسی قیادت ایک پیج پر نظر آرہی ہیں۔

بہرکیف پاکستان کے اس مشکل ترین معاشی حالات میں موجودہ حکومت کی بہترین سفارتکاری حقیقت میں دنیا کو ’’نئے پاکستان‘‘ سے روشناس کرا رہی ہے۔ سعودی ولی عہد کا پاکستان آنااسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، پاکستانی قوم کی سعودی عرب کے ساتھ اس والہانہ محبت کا جواب سعودی قیادت اور عوام نے ہمیشہ اسی جوش و جذبے سے دیا ہے۔ 1947ء میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک سعودی عرب کی قیادت نے ہر معاملے پر پاکستانی عوام کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔

بھارت کے ساتھ جنگیں ہوں یا مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف‘ پاکستان کو معاشی بحران درپیش ہو یا خدانخواستہ کسی قدرتی آفت کا سامنا ہو‘ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کی مدد کے لیے سب سے پہلے آگے بڑھتا ہے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے تو ہم پر عالمی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ اس موقعے پر بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد اور اعانت کو ہر حوالے سے مقدم رکھا تھا۔ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ نوجوان سعودی رہنما سیاسی بالغ نظری، معاملہ فہمی، بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے بل پر ان تمام چیلنجز سے موثر اور بہترین طریقے سے عہدہ برآ ہوں گے۔

pew ریسرچ سینٹر کے جاری کردہ ایک سروے کے مطابق 95 فیصد پاکستانی سعودی عرب کے لیے محبت اور برادرانہ جذبات رکھتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں پاکستانیوں کی یہ محبت اور خلوص صرف اور صرف سعودی عرب کے لیے ہی مخصوص ہے۔ اسی محبت کو حکومت نے بہترین سفارت کاری میں ڈھال کر انھیں ایسے وقت میں پاکستان آنے پر قائل کیا ہے، جب ہمارے اپنے ہمسائے پاکستان کی ترقی میں رخنے ڈال رہے ہیں۔

جب کہ اس دورہ میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان20ارب ڈالر مالیت کے مختلف منصوبوں پر معاہدے اور ایم او یوز پر دستخط کیے گئے۔ پاکستان کی جانب سے وزیر خزانہ اسد عمر اور سعودی وزیر خزانہ نے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے معزز مہمان کے اعزاز میں عشائیہ دیا، سعودی ولی عہد نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔

سعودی عرب پاکستان کے ساتھ مزید سرمایہ کاری بھی کرے گا، امید ہے آیندہ 20 سال میں پاکستان میں سیاحت کا شعبہ فروغ پائے گا اور یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان ترقی کرے گا۔اس کے علاوہ سعودی ولی عہد نے سعودی عرب میں قید 2ہزار سے زائد قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

بہرکیف اس اہم ترین دورے کی خاص بات یہ ہے کہ کسی حکومتی شخصیت نے شہزادہ محمد بن سلمان سے ذاتی تعلقات بنانے یا سعودی عرب میں ذاتی انڈسٹریاں لگانے کی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی قسم کا کمیشن وصول کرنے کی بات کی۔

پاکستان کی پوری قیادت نے سعودی عرب کی قیادت پر محض اس حوالے سے زور دیا کہ وہ اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں کے بجائے پاکستان میں لگائیں ، حتیٰ کہ صدر پاکستان عارف علوی نے بھی شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے فروغ کے لیے سعودی قیادت کو قائل کرنے اور وہاں سرمایہ لگانے پر زور دیا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسی ڈگر پر چل کر امریکا و یورپ کا دورہ کریں اور وہاں کی قیادت کو پاکستان میں لانے کے لیے کوششیں کرے کیوں کہ پاکستان کا امیج اسی صورت بہتر ہو سکتا ہے، جب دنیا ہمیں مہمان نواز ی کا موقع دے اور ہم اُس پر پورا اُتریں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔