- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
بیرونی سرمایہ کاری اور انشورنس کے کاروبار میں ترقی کا امکان، ایکسپریس فورم
لاہور: انشورنس انڈسٹری کے مسائل کے حل کیلیے تمام فریقین کی مشاورت سے قومی انشورنس پالیسی بنائی جائے۔
وفاقی انشورنس محتسب، انشورنس ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’’انشورنس انڈسٹری کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کہا کہ انشورنس کمپنیوں و صارفین کی دادرسی کے لیے وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ موجود ہے جو بہترین کام کر رہا ہے۔ اسے موصول شکایات کی روشنی میں آئندہ بجٹ میں انشورنس ریلیف پیکیج دیا جائے۔ لوگوں کو انشورنس کے حوالے سے آگاہی نہیں جبکہ ایجنٹ بھی انھیں پالیسی کے شرائط و ضوابط نہیں بتاتے، اس حوالے سے ریگولیٹری ادارہ SECP بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائے۔
وفاقی انشورنس محتسب رئیس الدین پراچہ نے کہا ہم3 برسوں سے عوام کو آگاہی دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ابھی بہت کام کی ضرورت ہے ۔ہمارے جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم انشورنس سے حاصل ہوتا ہے، بھارت میں یہ شرح3 فیصد ہے۔ عدالتی نظام سست ہے،ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں برسوں لگ جاتے ہیں تاہم ہمارے ادارے میں جلدداد رسی ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا 80 فیصد بزنس لائف انشورنس جبکہ 20 فیصد جنرل انشورنس ہے۔لائف انشورنس کا 55 فیصدکاروبار سٹیٹ لائف اور 45 فیصدنجی کمپنیاں کر رہی ہیں۔ہمارے پاس ان کی شکایات آتی ہیں جبکہ سرکاری ادارہ ہونے کے باعث اسٹیٹ لائف کے مقدمے وفاقی محتسب کے پاس جاتے ہیں، ہم اس حوالے سے قانون میں ترمیم کی کوشش کر رہے ہیں۔
عوام کو انشورنس کی آگاہی دینے کی ضرورت ہے،وہ پالیسی خریدتے وقت شرائط و ضوابط ضرور پڑھیں، وکیل کی مددلیں،پریمیم کمپنی کے نام چیک کی صورت میں دیں۔وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ 90 روز میں شکایت نمٹادیتاہے۔ صارف کی جانب سے کمپنی کو 30 دن کا نوٹس لازمی ہوتا ہے، اس کے بعد کارروائی شروع ہوتی ہے، اگر مقدمہ عدالت میں چل رہا ہو تو کارروائی نہیں کر سکتے۔
2018ء میں ہمیں 2 ہزار شکایات ملیں،جن میں16ہزار کا فیصلہ ہوچکا۔ محتسب کے فیصلے کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا،صرف صدرمملکت کواپیل کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا بیرونی سرمایہ کاری کی بدولت چند برسوں میں انشورنس کے کاروبار میں ترقی کاامکان ہے مگر ہماری کمپنیوں کی صلاحیت کم ہے، انھیں استعدادبڑھانی چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔