پر سکون، آزاد اور کامیاب زندگی کا راز

محمد بلال مصطفیٰ  ہفتہ 23 فروری 2019
ایک امتحان ختم تو دوسرا شروع، اب انسان یا تو واویلا مچائے یا پھر اللہ کی رضا سمجھ کر برداشت کرے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک امتحان ختم تو دوسرا شروع، اب انسان یا تو واویلا مچائے یا پھر اللہ کی رضا سمجھ کر برداشت کرے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دوسروں کے نظریئے سے زندگی کو دیکھنا اور ان کے تجربات سے سیکھنا ہی عملی زندگی کو منفرد بناتا ہے۔ ہر دوسرا شخص آپ کو ایک الگ زاویئے سے زندگانی کی سیر کرواتا ہے۔ اپنی اپنی نگاہ کی بات ہے۔ ایک ہی کھڑکی سے بیک وقت دو لوگ گلی میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک کو بارش سے بننے والی کیچڑ نظر آتی ہے تو دوسرا آسمان سے برستی اللہ کی نعمت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

اللہ نے کسی انسان کو کمتر نہیں بنایا۔ اللہ کی تخلیق ہے، کمتری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بندہ اپنی عادات و فطرت کی وجہ سے اپنا مقام کھوجائے تو وہ الگ بات ہے۔ باوجود اس کے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تو بھلائی، مساوات اور انسانیت کا ہی درس دیا ہے۔ امیری غریبی تو انسان کے بنائے ہوئے قانون ہیں۔ اگر امیری معیار ہوتا تو کوئی غریب جنت کی آرزو بھی نہ کر پاتا۔

چند روز قبل میرے ایک دوست دھوپ میں کھڑے گہری سوچ میں مبتلا تھے اور تھوڑے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ میں ان کے پاس گیا، حال احوال پوچھا تو وہ بولے ’’سوچ کتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ناں؟‘‘

میں نے کہا ’’بالکل، لیکن اچانک آپ کو اس کا خیال کیوں آیا؟‘‘

وہ بولے ’’مجھے چند دنوں کےلیے تیز بخار ہوگیا جس کی وجہ سے بستر پر لیٹنا کیا پڑا، اپنے ارد گرد مایوسی نظر آنے لگی۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔ حالانکہ سب کچھ تو ویسے کا ویسا ہی تھا۔ میری نوکری ٹھیک تھی، میرے گھر والے میرے ساتھ تھے، کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی لیکن باوجود اس کے مجھے سب بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ جیسے چیزیں میرے اختیار سے باہر ہو رہی ہیں۔‘‘

مجھے ان کی بات میں ہر انسان کی کہانی نظر آئی کہ بندہ واقعی بہت جلدی ہمت ہار جاتا ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور پوچھا ’’درست کہا آپ نے۔ تو آپ نے پھر اس سے کیا سیکھا؟ یعنی کیا اخذ کیا؟‘‘

وہ بولے ’’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کو اس زندگی میں آرام و سکون میسر ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی ہر جستجو کا محور، سکون حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن یہ تقریباً ناممکن بات ہے۔ وہ کھاتا ہے کہ اسے سکون ملے گا۔ کام کاج مستقبل محفوظ کرنے یعنی سکون حاصل کرنے کےلیے کرتا ہے۔ وہ خود مشکلات برداشت کرتا ہے کہ اس کے اپنے سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ہر کام ختم کرنے کے بعد سوچتا ہے کہ اب سکون مل جائے گا۔ لیکن درحقیقت ہوتا کیا ہے؟‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا ہوتا ہے؟‘‘

وہ بولے ’’ایک امتحان ختم تو دوسرا شروع… اور اس وقت انسان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو واویلا مچائے یا پھر اللہ کی رضا سمجھ کر برداشت کرے اور ان حالات کو دل سے تسلیم کرکے ان سے نبرد آزما ہونے کےلیے محنت شروع کردے۔ ایک مشکل سے دوسری مشکل کے دوران جو چند لمحات آتے ہیں درحقیقت وہی سکون ہیں۔ وہ کچھ برسوں پر بھی محیط ہوسکتے ہیں اور چند لمحوں کے لیے بھی۔‘‘

میں ان کی بات غور سے سن رہا تھا۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد بولے ’’انسان کی سب سے بڑی خوش فہمی یہی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔‘‘

میں بولا ’’آپ کے خیال میں یہ سوچ ذمہ داری کی علامت نہیں؟ میرے خیال میں تو یہ سوچ اسے کام کرنے کی ہمت دیتی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟‘‘

وہ بولے ’’میں کچھ حد تک اس بات سے متفق ہوں لیکن دیکھو، اس خوش فہمی میں رہنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ کمرہ امتحان میں ہماری ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ اس امتحان کو اچھے نمبروں سے پاس کرنا ہے اور اپنا مستقبل محفوظ کرنا ہے۔ اس وقت بندے کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ گھر میں کھانے کےلیے سامان بازار سے کون لا کر دے گا۔ بچوں نے جانے سے پہلے ناشتہ کیا ہوگا یا نہیں۔ گیس، بجلی آرہی ہوگی یا نہیں۔ بارش کے بعد پانی چھت پر کھڑا تو نہیں ہوگا۔ خدا جانے کسی نے جا کر پائپ میں پھنسے کچرے کو صاف بھی کیا ہوگا یا نہیں۔

’’ایسا کوئی خیال پاس سے بھی نہیں گزرتا۔ اگر کوئی سوچ آتی ہے تو صرف امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے کی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس امتحان میں سرخرو ہونا مستقبل میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

’’بالکل درست کہا،‘‘ میں نے مسکرا کر ان کی تائید کی، ’’اس وقت تو بندہ ہر چیز سے بے پرواہ ہوتا ہے اور اس کی مکمل توجہ اس امتحان پر ہوتی ہے۔‘‘

’’درست کہا،‘‘ وہ بولے ’’انسان کو بس ایسے ہی اگلے جہاں کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سوچ لے کہ یہاں آرام میسر نہیں، تو زندگی میں خود بخود سکون آجائے گا۔ بس ایک بات یاد رکھنا…‘‘

میں نے پوچھا، ’’وہ کیا؟‘‘

وہ گویا ہوئے، ’’کسی کام میں دیر نہ کرنے کی عادت بنا لو۔ اور ساتھ ہی شیطان کی ’بس ایک جھوٹ بول لو، بس اس بار حرام کھا لو، بس دو منٹ آرام کرلو پھر نماز کےلیے اٹھ جانا‘ جیسی چالوں سے اپنے آپ کو بچالو، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اللہ نے قرآن پاک میں شیطان کی ان چالوں کو ’نہایت کمزور‘ بیان کیا ہے۔

’’ان چالوں میں پھنسنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہماری ہر کاوش کے پیچھے خوف چھپا ہوتا ہے۔ بیماری کا، غربت کا، فاقوں کا، لوگوں کا، ناکامی کا، اور نہ جانے کون کون سے خوف ہم انسان پال کر بیٹھے ہیں۔

’’اور ان خوف سے بچنے کا طریقہ یقیناً اللہ کا خوف ہے۔ خالق کی اطاعت اور بندگی کے ساتھ ساتھ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو صلاحیتیں اس نے عطا کی ہیں، انہیں لوگوں کی فلاح کےلیے استعمال کرو۔ طاقت، دولت، عزت، شہرت، علم، بولنے کا ہنر ہو یا لکھنے کا، بس اسے انسانوں کی بہتری کےلیے بروئے کار لاؤ۔ زندگی میں خود بخود سکون آتا جائے گا۔ اللہ کی طرف سے غیبی مدد بھی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو نیک نیت سے ساتھ دوسروں کی بہتری کےلیے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ قرآن میں ان ہی لوگوں کو اللہ نے ’کامیاب‘ قرار دیا ہے۔‘‘

ان کی ایک ایک بات میرے دل میں اتر رہی تھی۔ چند لمحے خاموشی کے بعد وہ بولے، ’’ان چار پانچ دنوں میں اللہ نے میری زندگی کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں دور کر دیں۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ دنیا کے ڈر اور خوف سے آزاد زندگی دے۔ بالخصوص اپنا ہنر پہچاننے اور اسے انسانوں کی فلاح کےلیے استعمال کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد بلال مصطفیٰ

محمد بلال مصطفیٰ

بلاگر سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں لکھاری ہی اپنی مثبت تحریروں سے ملک میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے بزنس انالسٹ ہیں اور 6 سال سے فری لانسنگ سے وابستہ ہیں۔ اپنے بلاگ: http://bilalmustafaonline.com پرفری لانسنگ کے بارے میں لکھتے ہیں اور ان کا ٹوئٹراکاؤنٹ @b_mustafa965 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔