پنجاب کابینہ میں ردّوبدل عمران خان کیلئے ناگزیر بن رہا ہے

رضوان آصف  بدھ 20 فروری 2019
نکمّے وزراء کی اکثریت کی وجہ سے محنتی وزراء کی کارکردگی نظر انداز ہوجاتی ہے۔ فوٹو: فائل

نکمّے وزراء کی اکثریت کی وجہ سے محنتی وزراء کی کارکردگی نظر انداز ہوجاتی ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: وزیر اعظم عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ان دنوں برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ولی عہد کے کامیاب دورہ پاکستان کے ’’ثمرات‘‘کا کریڈٹ لیتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے لیکن واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی حالیہ نوازشات اور ولی عہد کے دورہ کا اصل کریڈٹ آرمی چیف کو جاتا ہے جنہوں نے عمران خان حکومت کیلئے راہیں آسان کی ہیں اور سعودی ولی عہد کے دورہ کے حوالے سے بھی ’’انتظامی کمان‘‘ فوج کے ہاتھ میں ہی تھی،قطر اور متحدہ عرب امارات کی پاکستان کیلئے مالی امداد کا سہرا بھی افواج پاکستان کو ہی جاتا ہے.

آرمی چیف نے عمران خان کے دوروں سے قبل ان ممالک کا دورہ کر کے تمام معاملات کو اصولی طور پر طے کر لیا تھا، سعودی عرب ہو یا قطر یا متحدہ عرب امارات یہ تمام ممالک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر خصوصی اعتماد کرتے ہیں اور ان کی رائے یا درخواست کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں،اس حوالے سے آئندہ مضمون میں تفصیلی ذکر ہوگا لیکن اس مرتبہ پنجاب کابینہ کی زوال پذیر کارکردگی کے حوالے سے دن بدن بگڑتی صورتحال توجہ طلب ہے۔

عمومی تاثر پایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ’’خودمختار‘‘ نہیں ہے، جن قوتوں نے حکومت بنوائی انہی کے ’’مشوروں‘‘ پر عمل ہو رہا ہے ۔ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی وفاق کی مانند غیر تسلی بخش ہے۔ اس وقت پنجاب کابینہ میں صوبائی وزراء کی تعداد 35 ہے جبکہ 5 مشیر برائے وزیر اعلی اور 5 خصوصی معاون حکومت کا حصہ ہیں۔2 درجن کے لگ بھگ وزیر ایسے ہیں جنہوں نے صرف ’’وزیر‘‘کا سٹیٹس ’’انجوائے‘‘ کیا ہے وہ اپنے محکموں میں کوئی ٹھوس اور قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

نیب کی بیلنسنگ ایکٹ پالیسی کا شکار ہونے والے سابق سینئر وزیر اور وزیر بلدیات عبدالعلیم خان نے نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل کیلئے انتھک محنت کرتے ہوئے اسے تکمیل کے قریب پہنچایا تھا جبکہ انہوں نے پنجاب میں ناجائز تجاوزات کے خلاف تاریخ ساز آپریشن کے ساتھ ساتھ لاہور میں صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے بھی محکمہ بلدیات کو بخوبی استعمال کیا لیکن ان کی گرفتاری کے بعد نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے پیش رفت بھی سست ہو گئی ہے۔

فی الوقت بلدیات کی وزارت کا عارضی چارج ق لیگ کے راجہ بشارت کو سونپا گیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ پہلے سے جاری معاملات کو منطقی نتیجہ تک پہنچانے کیلئے اپنا سیاسی تجربہ اور بصیرت بروئے کار لائیں۔ وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید نہ صرف تحریک انصاف کے اہم رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ وہ بحیثیت صوبائی وزیر بھی متحرک ہیں اور انہوں نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کیلئے پنجاب کی سطح پر نمایاں کام کیا ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جاتے جاتے اگر ڈی جی ایل ڈی اے کو لاہور سٹی پراجیکٹ حل کرنے کیلئے تبدیل نہ کرنے کا حکم جاری نہ کرتے تو پنجاب میں ہاوسنگ سے متعلقہ حکومتی معاملات مزید بہتر ہو سکتے تھے۔

اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ڈی جی ایل ڈے کی حکومت کے ساتھ نہیں بن پا رہی اور محترمہ صوبائی وزیر ہاوسنگ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہیں، وہ بھول رہی ہیں کہ حکومت کے پاس اور بھی بہت سے راستے ہوتے ہیں لہذا امکان یہی ہے کہ آئندہ ماہ انہیں تبدیل کردیا جائے گا اور وہ بھی عدالتی اجازت کے ساتھ ۔

پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ماضی میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی بہت متحرک رہنما رہ چکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں صحت کی وزارت دی گئی تھی تا کہ وہ ینگ ڈاکٹرز کے فتنہ سے بھی نبٹ سکیں گی اور پروفیسرز لابی بھی ان کے سامنے ہٹ دھرمی نہیں دکھائے گی لیکن ابھی تک ڈاکٹر یاسمین راشد صحت کے شعبہ میں غیر معمولی کارکردگی نہیں دکھا سکی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحت کے شعبہ میں برسوں سے براجمان مافیاز کے سامنے کمزور ہیں ۔

وزیر صنعت میاں اسلم اقبال ایک عوامی مزاج رکھنے والے سیاستدان ہیں اور ماضی میں بھی وزارت نبھاہ چکے ہیں۔ پنجاب میں چھوٹی صنعتوں کے حوالے سے کرنے کو بہت کام ہے اور میاں اسلم اقبال اس حوالے سے دستیاب وسائل میں کوشش کر رہے ہیں کہ محکمہ صنعت کی کارکردگی اور افادیت کو بڑھایا جا سکے۔

وزیر ایکسائز پنجاب حافظ ممتاز احمد کا شمار پنجاب کے ان چند نوجوان وزراء میں ہوتا ہے جن کی کارکردگی سے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار مطمئن ہیں، اس وقت سیکرٹری ایکسائز شیر عالم محسود اور ڈی جی اکرم اشرف گوندل محکمہ کی مزید ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔

وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری کے پاس محکمہ کے سیکرٹری کی حیثیت سے تو شوکت علی جیسا بہترین افسر موجود ہے جو محکمہ کو سرپلس گندم کے بحران سے کامیابی سے باہر نکال لایا ہے لیکن ڈائریکٹر کے عہدہ پر تعینات ڈاکٹر شاکر کے حوالے سے پورا محکمہ غیر مطمئن ہے اور بعض حلقے دعوی کرتے ہیں کہ خود وزیر خوراک اور سیکرٹری فوڈ بھی اس عہدہ پر تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔

پنجاب کابینہ کے بعض وزراء کی کارکردگی صرف غیر تسلی بخش ہی نہیں بلکہ قابل تفتیش بھی ہے۔ یہ وزیر اپنے محکموں میں کوئی قابل ذکر تبدیلی، منصوبہ اور اصلاحات متعارف نہیں کروا سکے ہیں۔ ان وزراء میںمراد راس(سکولز ایجوکیشن)، سبطین خان(جنگلات)، سردار آصف نکئی(سی اینڈ ڈبلیو)، حافظ عمار یاسر(معدنیات)، یاسر ہمایوں( ہائیر ایجوکیشن)، راجہ راشد حفیظ(لٹریسی)، حسین بہادر دریشک(لائیو سٹاک)، ملک محمد انور(ریونیو)، تیمور خان (سپورٹس)، محسن لغاری(آبپاشی)، عنصر مجید خان(لیبر)، ہاشم ڈوگر(پاپولیشن ویلفیئر)، سعید الدین حسن شاہ(اوقاف)، مہر محمد اسلم(کو آپریٹو)، سید حسین جہانیاں گردیزی(ایم پی ڈی ڈی)، محمد اجمل(سوشل ویلفیئر)، محمد اخلاق(سپیشل ایجوکیشن)،آشفہ ریاض(وویمن ڈویلپمنٹ)، شوکت علی لالیکا(زکوۃ)، زوار حسین وڑائچ(جیل خانہ جات)،میاں خالد محمود(ڈیزاسٹر مینجمنٹ)،جہانزیب خان کچھی(ٹرانسپورٹ)، اعجاز مسیح(انسانی حقوق و اقلیتی امور) اور محمد اختر وزیر توانائی شامل ہیں۔

میڈیا اور اپوزیشن کی شدید تنقید کا شکار وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ذاتی حیثیت میں بہتر کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اصل مسئلہ اپنی کابینہ کی ناقص کارکردگی کا درپیش ہے اور کابینہ کے کپتان ہونے کی حیثیت سے نکمے وزراء کی کارکردگی بھی ان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔اس وقت پنجاب کابینہ کے 20 سے زائد ایسے وزراء ہیں جن کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد اور ہنگامی ضرورت ہے۔

اتحادی حکومت کی مشکلات اور مجبوریاں عمران خان کو زیادہ دیر تک کابینہ میں ردوبدل کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ اس لئے وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہئے اور وہ بھی حقیقت میں، اپنے میڈیا منیجرز کے ذریعے انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش انہیں مزید خوار کر سکتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔