آیا مری محفل میں…

نادر شاہ عادل  جمعرات 21 فروری 2019

1970-71 کی خوشگوار و دل فگار یادیں ہیں۔ لیاری میں ہم نوجوانوں کے طالب علمی کے شب و روز تھے ۔ زیست مشکل تھی ۔ نوجوان فٹ بال کے دیوانے تھے، فٹبال تو جیسے گھٹی میں پڑی تھی، پھر جی میں آیا کہ رضاکارانہ طور پر سماجی کام بھی شروع ہوں تو لیاری بدل جائے۔

سو تحریک انقلاب معاشرہ کی بنیاد رکھی ، پھر اچانک اس تجربہ کے بطن سے اسٹریٹ اسکول کے قیام کی انوکھی ترکیب ذہن میں آئی ، دوستوں سے تبادلہ خیال ہوا تو سب نے سوچا کہ اس چھوٹی سی گلی میں اسکول کیسے قائم ہوسکتا ہے ۔ راستہ کیسے بند کرسکتے ہیں، محلہ والے ہنگامہ کریں گے، بحث ہوئی کہ عارضی طور پر پانچویں سے میٹرک تک کی کلاسیں لگائیں گے، اسٹریٹ میں درمیان سے راستہ چھوڑ دیں تاکہ آتے جاتے لوگ  دیکھیں کہ تماشا کیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ سیفی لین کی اسٹریٹ  اتنی تنگ بھی نہ تھی،کیونکہ تمام انٹرنیشنل فٹبالر اسی گلی میں بارش کا مزہ لیتے ہوئے کرمچ کی گیند سے فٹبال کھیلتے تھے، ہم لوگوں نے رحمت باراں کے دوران خود ’’ ہیڈ والی ‘‘ کا منفرد کھیل ایجاد کیا، عباس ، غفور مجنا ، مولابخش گوٹائی ، فیض محمد ،  عبداللہ ہیرو، گل محد لاڑی اور کئی کھلاڑی نوجوانوں کو اپنے کھیل سے محظوظ کرتے۔

ملک بھر میں الیکشن ہوچکے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری تھی ۔ بھٹو نے پارٹی کی بنیاد رکھی تو فکری اور نظریاتی طور پر بالغ نظر اور سنجیدہ سیاست دانوں کو اپنے کارواں میں شامل کیا، لیکن لیاری سمیت ملک بھر سے افتادگان خاک کو بھی ساتھ ملا لیا، یہ ملکی سیاست میں غیر معمولی موڑ تھا جب تاج اچھالے گئے اور بڑے سیاسی بت الیکشن ہارگئے، ڈرائنگ روم سیاست کی پوری بساط الٹ دی گئی، تبدیلی کا گجر بجا ،گم نام محنت کش اور واجبی تعلیم یافتہ نوجوان پی پی پی کے منتخب نمایندے بن گئے۔ لیاری سے ستارگبول وفاقی وزیر برائے محنت جب کہ سید امداد حسین ، احمد علی سومرو رکن صوبائی اسمبلی چنے گئے۔

کراچی سے عبداللہ بلوچ، عبدالرحیم بلوچ، عبدالوحید عرشی، مولانا حسن حقانی سمیت بے شمار لوگ رکن اسمبلی بنے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب اسمبلی کا اجلاس ہوا تو لیاری سے منتخب رکن اسمبلی احمد علی سومرو کو گیٹ کے اندر جانے نہیں دیا گیا،کیونکہ اجلاس شروع ہوچکا تھا ، سومرو کی کار لیٹ تھی ۔ دوسرے دن احمد علی سومرو گدھا گاڑی چلاتے ہوئے خود اسی گیٹ پر آئے ،گدھا  سڑک کے مین روڈ پر درخت سے باندھا اور اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ یہ پہلی تبدیلی تھی۔

اسی دورانیے میں اسٹریٹ اسکول کے قیام کا اعلان ہوا، اہل محلہ سے رابطہ مہم چلی، والدین سے کہا گیا کہ وہ اپنے اسکول جانے والے نونہالوں یا کم سن بچوں کو شام 5 بجے اسٹریٹ اسکول بھیجیں ۔ ایک دلچسپ فری تعلیمی سفر شروع ہوا۔ ایک رات ستار گبول رفقا کے ہمراہ آئے، اسٹریٹ لائٹس جل رہی تھیں، کلاسوں میں بچے پڑھ رہے تھے، رضا کار ٹیچر درس وتدریس میں مصروف تھے ، گبول صاحب شگفتہ مزاج اور بے حد عوامی آدمی تھے، کلاسوں پر نظر ڈالی ، پوچھنے لگے کہ  حکومت سے کتاب کاپیوں کی مدد کی ضرورت ہو تو ابھی بتائیں، ہیڈ ماسٹر امام بخش نے کہا کہ یہ بتائیں آپ کو یہ تجربہ کیسا لگا ؟ قہقہہ لگایا اورکہنے لگے زبردست ،کیا ڈسپلن ہے اور بچوں میں تعلیم کا کتنا شوق ہے، ویل ڈن۔ پھر چلے گئے۔

کچھ روز گزرے، یہ بھی شب کا قصہ ہے کہ پروفیسر کرار حسین گلی میں داخل ہوئے ، ن م دانش نے پہچان لیا، میرے ابو سے ان کی دعا سلام تھی، تاج حیدر بھی لیاری والوں کے لیے نیا چہرہ نہ تھے، وہ پولیوکے قطرے پلانے کے لیے مجھے اور سکندر بلوچ کو اسکولوں میں پولیو ویکسین کے تھرمس میں پولیو باکس دیتے، ہم جینو بھائی جی الانہ ، ایس ایم لیاری اور دیگر اسکولوں میں انتظامیہ کو پولیو اسٹاک دے دیتے ، پھر ان سے  ویکسین کی خالی بوتلیں اور تھرماس لے لیتے۔پروفیسر کرار حسین اسٹریٹ اسکول کے خیال سے بے حد متاثر ہوئے، کہنے لگے میں کورنگی میں کالج کے قیام کے لیے سوچ رہا ہوں مگر آپ لوگوں نے عملی پیش رفت میں مجھے پیچھے چھوڑدیا۔ انھوں نے لاگ بک منگائی اور اپنے دست مبارک سے شاندار تاثرات لکھے۔ یہ ہمارے لیے ایک اعزاز تھا اور سارے ٹیچر بصد احترام احساس تفاخر سے سرشار تھے۔

اسی اسٹریٹ اسکول کے ایک طالب علم کا نام اسلم بلوچ  تھا ، اسے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کبھی فراموش نہ کر پائے، اسلم بلوچ نے اسٹریٹ اسکول سے بھی تعلیم حاصل کی، پھر احتشام مفتی کے ہمراہ اردوکالج میں داخلہ لیا، اسم بلوچ کی قرات دل نشیں تھی، ڈیبیٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت نے انھیں کہیں دیکھ لیا اور ان سے ہمیشہ محبت سے پیش آئے۔ ڈاکٹر صاحب جب روزنامہ ایکسپریس میں اپنا ہفتہ وارکالم ’’لائوڈ اسپیکر‘‘ شروع کرنے کے لیے دفتر تشریف لائے تو ان کا پہلا سوال اسلم بلوچ کے بارے میں تھا۔

اسلم کا تعارف یہ ہے کہ وہ ن م دانش کے خانوادے کا خرد افروز فرد ہے۔ آج کل ان کے معاشی معاملات دگرگوں ہیں ۔ اسٹریٹ اسکول نے موسم کی سختیاں برداشت کیں، بارشیں آئیں لیاری میں  دو سیلاب آئے، لیاری ندی برہم ہوئی تو گھٹنے گھٹنے پانی سڑکوں پر کھڑا تھا، گلیاں تالاب بن چکی تھیں، اسکول کی کلاسیں بارش کے ٹہرے پانی کے باعث قریبی اسکول میں منتقل ہوئیں، اجازت مل گئی تھی، پی پی کے رہنما خلیل ہوت  کے والد حسین بخش ہوت محکمہ تعلیم میں ڈی ای او تھے، بڑی شفقت فرماتے تھے،خود اسکول کی کلاسیں دیکھنے آتے، دوسری علمی شخصیت موسیٰ بلوچ کی تھی ، وہ بھی محکمہ تعلیم میں اعلیٰ افسر تھے، دونوں عجز اور بندہ نوازی کا پیکر تھے ۔

محمود عالم اور امین بلوچ سمیت ابراہیم رئیس ، اقبال تبسم ، ن م دانش اوردیگر ٹیچرز نے بے مثال کمٹمنٹ کا مظاہرہ کیا، اسی اسکول نے غلام حسین عرف گلوکو پروفیسر صبا دشتیاری کے مقام تک پہنچایا ۔ غلام حسین کی قلب ماہیت کی داستان لیاری کے نوجوان نسل کے لیے ایک مشعل راہ ہے، وہ لیاری کا تعلیمی جگنو تھا۔ اس نوجوان کی تعلیم پانچویں جماعت سے منقطع ہوئی تھی، گلو کا گھر میری رہائش گاہ سے ایک مکان چھوڑ کر تھا، وہ میری اماں بانل دشتیاری کے پاس زیادہ دیر بیٹھتے، اماں بلوچی ادب ، شاعری اور شاہ جو رسالو کا مطالعہ کرتیں، سید ہاشمی کی شاعری اور شخصیت ان کے شعور میں جاگزیں تھی، گل خان نصیر، عطا شاد ، اکبر بارکزئی ، مراد ساحر ، ظفر علی ظفر ، عبدالغنی پرواز، صاحب خان ، مبارک قاضی اور جی آر ملا سمیت بلوچستان کے ادیب و دانشوروں کی تحریریں ان کے زیر مطالعہ رہتیں۔

محمد بیگ بیگل کو رغبت سے پڑھتیں ۔ ایک  صبح کو صبا دشتیاری ٹرانسسٹر ریڈیو پر فریدہ خانم کی آواز میں ایک غزل سن رہے تھے ’’ ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گرکچھ خوابوں کے‘‘ تو تڑپ کر سوال کر بیٹھا ’’اماں یہ غزل کس کی ہے‘‘ اماں نے جواب دیا ’’ اطہر نفیس کی‘‘ اماں بانل اس وقت سید فصیح اقبال کے جریدہ پندرہ روزہ ’’زمانہ‘‘ کے لیے اپنا فکاہیہ بلوچی کالم ’’ بلک کپوت‘‘ لکھ رہی تھیں، یہ رسالہ صدیق آزات گھر پہنچایا کرتے،اس جریدہ کے وہ مدیر تھے۔

ایک روز صبا نے ریڈیو آن کیا تو سیماب اکبرآبادی کی مشہور غزل کانوں میں رس گھول رہی تھی، ’’ آیا مری محفل میں غارت گر ہوش آیا ۔ پیمانہ بکف آیا ، میخانہ بدوش آیا۔‘‘ بس کچھ نہ پوچھیے صبا کا کیف وسرمستی میں کیا عالم تھا،اس عنفوان شباب میں وہ درویشوں کی طرح جھومتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔ اس صبا کو لوگوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے وابستہ ہوتے ہوئے دیکھا ، کھدرکی قمیض اور شلوار ان کا لباس تھا، ایک کھدر کی چادر اوپر ڈال لیتے تھے۔

86 ء میں راقم کوئٹہ پہنچا تو دوسرے روز صبا مجھے بلوم لگژری ہوٹل سے اپنے ہاسٹل لے گئے۔ نواب اکبر بگٹی سے انٹرویو کے لیے جناح روڈ کی اسٹریٹ میں پہنچا تو دوران گفتگو بگٹی صاحب نے معلوم کیا کہ قیام کہاں ہے؟ میں نے صبا کے اوطاق ِجامعہ کا نام لیا، کہنے لگے کون صبا وہ درویش ، ملنگ؟  ان دنوں بگٹی صاحب نے اردو کا بائیکاٹ کیا تھا، اردو بولتے نہیں تھے۔

صبا دشتیاری کی بلوچی زبان وادب کے لیے خدمات بے پناہ تھیں، وقت نے جواں سال صبا سے وفا نہ کی ، زندہ رہتے تو بلوچی زبان کی زلفوں کو اور بھی سنوارتے، لیکن جھوٹ سے بیزاری میں زہرکے پیالہ کی طرف ان کے قدم تیزی سے بڑھتے گئے، انھوں نے بلوچستان کے سیاسی شعلوں کی تپش سے دوستی کر لی ، لفظوں کی بے حرمتی ، آزادی اظہار پر قدغن ، محکومیت ، بزدلی ، منافقت، معذرت خواہی، متاع کوچہ وبازار جیسی سیاسی فضا ، لاپتا افراد کے المیے اور بنیادی حقوق وعزت نفس کی کولیٹرل پامالی نے صبا کو طواف کوئے ملامت کی طرف دھکیل دیا ، پھر وہ گولیوں کا نشانہ بن کر بلوچستان کے ’’ہملٹ ‘‘ بن گئے۔ یوں اسٹریٹ اسکول کا ایک گوہر آب دار لیاری کا استعارہ بن گیا ۔ صابر ظفر نے اماں بانل اور صبا دشتیاری کو اس شعر میں بہت یاد کیا ہے۔

ہم نے بانل تری عقیدت میں

سارے خطے کو دشتیار کیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔