صدارت کا ہما ممنون حسین کے سر پر آن بیٹھا

انوار فطرت / غلام محی الدین  منگل 30 جولائی 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 مسلم لیگ نواز کے امیدوار ممنون حسین بھاری اکثریت سے ملک کے بارہویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

اس انتخاب میں حکم ران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین اور تحریکِ انصاف کے جسٹس (ر) وجیہ الدین مدِمقابل تھے۔ صدارتی امیدوار کو کام یابی کے لیے کم از کم 353 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ نتائج کے مطابق ممنون حسین نے اب تک 432 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ان کے مدِمقابل تحریکِ انصاف کے جسٹس (ر) وجیہ الدین نے 77 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی کے معاملے پر اس الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہوا تھا۔ صدر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوا اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی کے ہال میں ہوئی جب کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے اپنی اپنی اسمبلی میں منعقدہ پولنگ میں ووٹ ڈالے۔ قومی پارلیمان میں پولنگ کی کارروائی کے لیے اجلاس کی صدارت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی اسمبلیوں میں متعلقہ صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے کی۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل 314 ارکان نے ووٹ ڈالے جن میں سے ممنون حسین نے 227 اور جسٹس (ر) وجیہ الدین نے 34 ووٹ حاصل کیے جب کہ 3 ووٹ مسترد ہوئے۔ سندھ اسمبلی سے ممنون حسین کو 24.8، بلوچستان سے 55، اور خیبر پختونخوا سے 21.5 الیکٹورل ووٹ ملے، جب کہ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے سندھ سے 1.93، بلوچستان سے ایک اور خیبر پختونخوا سے 36.3 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ صدر کے انتخاب کے الیکٹورل کالج کے کل ووٹوں کی تعداد 1174 بنتی ہے لیکن صدارتی انتخاب میں ووٹوں کی گنتی کے فارمولے کے مطابق کل صدارتی ووٹ 706 بنتے ہیں۔

آئین کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ مانا جاتا ہے جب کہ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں جس اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد سب سے کم ہو، اس اسمبلی میں فی رکن فی ووٹ گنا جاتا ہے۔ اس وقت بلوچستان اسمبلی کے اراکین سب سے کم ہیں اور آئین کے مطابق سینیٹ کے 104 اراکین، قومی اسمبلی کے 342 اور بلوچستان کے 65 اراکین کا فی رکن فی ووٹ گنا گیا۔ آئین میں دیے گئے صدارتی انتخاب کے فارمولے کے مطابق پنجاب کے 371، سندھ کے 168 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے 124 اراکین میں سے جس امیدوار کو جتنے ووٹ ملیں گے انہیں 65 سے ضرب دے کر متعلقہ اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد سے تقسیم کریں تو اس اسمبلی میں حاصل کردہ صدارتی ووٹوں کا عدد حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان کے بارہویں صدر کے انتخاب کے لیے منگل کو قانون سازوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مرکز میں حکم ران مسلم لیگ ن کے ممنون حسین اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وجیہ الدین صدارتی امیدوارتھے۔ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کا جو اعلان کیا تھا وہ اس پر ڈٹی رہی جب کہ مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ یاد رہے کہ موجودہ صدر آصف علی زرداری کی پانچ سالہ مدت صدارت نو ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کے بعد ہونے والا یہ پہلا صدارتی انتخاب تھا۔

صدارتی انتخاب سے پہلے کے مراحل
حالیہ جمہوری پنج سالہ جیسا بھی گزرا سو گزرا ۔۔۔۔ بھلا یا برا ۔۔۔۔ ایک الگ بحث ہے البتہ اس میں سے جو خوش آئند پہلو برآمد ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف حکومت نے اپنے اقتدار کی مدت پوری کی وہیں ریاست کے منتخب صدر نے بھی اپنا آئینی عرصہ صدارتی محل میں تکمیل تک پہنچایا۔

ویسے کتنے دکھ اور بدنصیبی کی بات ہے کہ اس قوم پر ایک ’’آزاد قوم‘‘ کی حیثیت سے چھیاسٹھواں برس بیت رہا ہے اور اسے تاحال دو ہی ایسے منتخب صدور مل پائے جو اپنے ایوان میں اپنی مدت پوری کر سکے، پہلے فضل الٰہی چودھری اور پھر آصف علی زرداری اور اگر کوئی ناگہانی نہ ٹوٹ پڑی تو انشاء اللہ صدر ممنون حسین بھی اپنی مدت پوری کریں گے۔ حالیہ صدارتی انتخاب کے مرحلے تک پہنچتے پہنچتے قوم کو متعدد مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہ مراحل صدارتی امیدواروں کی نام زدگی کے تھے، الیکشن کمیشن اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ۔

صدارت کے لیے ایک کے بعد ایک نام سامنے آتا رہا اور کچھ دن اشاعتی اور برقی ذرائع ابلاغ پر گردش میں رہنے کے بعد پس منظر میں چلا جاتا رہا۔ خاص طور پر مقتدر پارٹی مسلم لیگ نواز کی طرف سے کئی نام سامنے آئے۔ صدارتی انتخاب کے لیے ناموں کا ذکر آغاز ہوا تو پہلا نام سندھ کے قوم پرست رہ نما ممتاز علی بھٹو منظر پر نمودار ہوئے، مبصروں اور تجزیہ نگاروں کا موقف تھا کہ ممتاز علی بھٹو نے مسلم لیگ نواز کا ساتھ کچھ ایسے پرجوش انداز میں دیا کہ اپنی پارٹی میاں صاحب کی جماعت میں ضم کر دی، نہ صرف یہ بل کہ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا، ایک مردانہ اقدام! یہ بات بھی ان کے حق میں جاتی تھی کہ ان کا تعلق ایک چھوٹے صوبے سے ہے لہٰذا قوی گمان یہ تھا انہیں ن لیگ کی طرف سے صدارت کے عہدے کے لیے نام زد کر دیاجائے۔

یہ نام کچھ دن زیرگردش رہا اور پھر یہ ستارہ معدوم ہو گیا۔ اسی دوران سندھ ہی کے ایک گرم و سرد چشیدہ رہ نما غوث علی شاہ مطلع پر نمودار ہوئے لیکن بات نہ بنی، یہ بھی غروب ہو گئے۔ پھر مسلم لیگ نواز کی صفوں میں ایک بہت ہی محترم نام سرتاج عزیز کا سامنے آیا۔ اپنی جماعت کے لیے ان کی خدمات اور وابستگی اظہر من الشمس ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، وہ پارٹی پر ابتلاء کے موسم میں ساتھ رہے اور اچھے دنوں میں ہمیشہ بے لوث لیکن یہ نام بھی چندے جھلملا کر کمہلا گیا۔

کہا یہ گیا کہ ان کی خدمات پارٹی کے لیے مسلمہ ہیں اور یہ کہ ان کا بھی تعلق ایک چھوٹے صوبے یعنی خیبر پختون خوا سے ہے لیکن صدارت کے عہدے کے لیے ان کی صلاحیتیں ہی انہیں نااہل بناتی ہیں، ان میں خارجہ امور سے نمٹنے کی اعلیٰ درجے کی ا ستعداد ہے اگر انہیں صدر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا تو پارٹی ان کی ان صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر پائے گی لہٰذا ’’پھر کسی اور وقت مولانا‘‘، انہیں انتظار گاہ میں بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح بعض نظریں مہتاب عباسی کی طرف بھی اٹھیں لیکن یہ نام بھی زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر سکا۔

ظفراقبال جھگڑا بھی اس افق پر کچھ دیر کے لیے جھلملائے اور تاریکی میں چلے گئے۔ آخر میں جب پردہ اٹھایا گیا تو سب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ سامنے ایک ایسی شخصیت کھڑی تھی جو سیاست میں اجنبی محسوس ہوئی، دونوں پہلوؤں سے نام کے حوالے سے بھی اور کام کے حوالے سے بھی۔ بہت کم نے انہیں اس سے پہلے سنا اور بہت کم نے انہیں اس سے پہلے دیکھا۔ ہر چند وہ مسلم لیگ نواز سے ربع صدی سے وابستہ ہیں اور سندھ کی گورنری پر فائز رہے لیکن یہ عرصہ اس قدر مختصر تھا کہ ان کی گورنری ’’جنگل میں مور ناچا‘‘ کی ذیل میں آتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ جنابِ ممنون حسین نے مشکل دنوں میں نواز خاندان کا بہت ثابت قدمی سے ساتھ دیا۔

یہ نام بہتوں کے لیے اجنبی ہے تو اس کی وجہ غالباً ان کی کاروباری مصروفیات و محویات رہی ہوں اور یہ بھی کہ وہ کچھ زیادہ سیاسی ذہن کے مالک نہ ہوں، بہت ممکن ہے کہ ان کی یہ مؤخر الذکر صفت انہیں صدارت کے عہدۂ جلیل تک لانے میں زیادہ ممد و معاون رہی ہو، ان کی صورت دیکھ کر ان کی طبیعت کی ’’آمنا و صدقنا‘‘ کیفیت بھی خاصی نمایاں ہے، یقیناً وہ زیادہ بحث و تمحیص اور مین میخ نکالنے کے عادی نہیں ہوں گے۔ ان کے عہدِ صدارت میں مسلم لیگ نواز بالیقین مامون و پرسکون ہے گی۔

مسلم لیگ کے برعکس اپوزیشن کی دو پارٹیوں، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی انتخاب کے لیے نام زدگیوں کا مرحلہ پہلے ہی ہلے میں طے کر لیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے پاس دو نام بڑے محترم ہیں ایک چوہدری اعتزاز احسن اور دوسرا رضا ربانی۔ پیپلز پارٹی ان دونوں شخصیات پر بہ جا طور پر فخر کر سکتی ہے اور پارٹی پیچیدگیوں کے دوران ان شخصیات کو استعمال بھی کرتی ہے۔

کچھ دن پہلے چوہدری اعتزاز احسن ایک گلہ مند لیکن خوش گوار انداز میں کہ بھی چکے ہیں کہ جب صورت حال کچھ پیچیدہ ہو تو انہیں یا رضا ربانی کو آگے لایا جاتا ہے۔ بہ ہرحال رضا ربانی پیپلز پارٹی کی جانب سے ایسا نام تھا جس میں بہت کشش ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی طرف سے جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد صاحب بھی خاصے محترم ہیں، صاف ستھرے ایسے کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔

ایک بدمزگی اس وقت سامنے آئی جب صدارتی انتخاب کی تاریخ تبدیل کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے اس انتخاب کے لیے 6 اگست کی تاریخ مقرر کی تھی، مسلم لیگ نے قبل از وقت کی درخواست تو جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا تاہم سپریم کورٹ کی راہ بھی دکھا دی اور شیڈول بھی جاری کر دیا۔

مسلم لیگ نے الیکشن قبل از تاریخ کروانے کے لیے دل چسپ جواز یہ پیش کیاکہ 6 اگست کو ہو سکتا ہے کہ ماہ صیام کی 27 ویں شب ہو اور اس کے بہت سے ارکان عبادت میں مصروف ہوں گے، اعتکاف میں جا براجیں۔ مسلم لیگ (ن) مایوس ہوئی تو راجہ ظفرالحق فریاد لے کر عدالتِ عظمیٰ میں جا پہنچے اور وہی استدلال کیا، عدالت نے ان کا موقف تسلیم کر لیا اور نواز لیگ کو اس کی من چاہی تاریخ 30 جولائی دے دی۔

سپریم کورٹ کے اس فوری فیصلے پر تمام اپوزیشن جماعتیں حیران بھی ہوئیں اور پریشان بھی۔ پیپلز پارٹی تو خوب بھڑکی، آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا، اے ان پی نے بھی تقلید کی۔ پی پی پی نے اپنے اقدام کو جائز قرار دینے کا جواز یہ پیش کیا کہ اس قدر عجلت میں کیا گیا سپریم کورٹ کافیصلہ یک طرفہ ہے، ہمارا موقف لیا ہی نہیںگیا، اتنے قلیل وقت میں وہ اپنے امیدوار کے لیے دوسری جماعتوں سے رابطے نہیں کر سکتی۔ ان کے اس اقدام کو اکثر حلقے جلد بازی قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو اپنا امیدوار کام یاب کرانے کے لیے کھلا میدان دے دیا۔ ممنون حسین کی کام یابی کے امکانات پہلے ہی خاصے روشن تھے تاہم اگر پیپلز پارٹی میدان میں ڈٹی رہتی تو مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم ملتا۔ پیپلزپارٹی کے الیکشن سے باہر ہونے کے باعث ان کے سابق اتحادیوں ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو بھی مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کا جواز مل گیا۔ پیپلز پارٹی پیچھے نہ ہٹتی تو ان دونوں جماعتوں کے لیے خاصی گو مہ گو کی صورت بنتی، آخر پانچ برس مل بیٹھ کر رہنے، کھانے، پینے کی کچھ نہ کچھ حیا تو ہوتی ہے۔

پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو بھی اپنی راہ پر لانے کی کوشش کی۔ چوہدری اعتزاز احسن نے عمران خان سے ملاقات کی اور بڑے پرامید انداز میں میڈیا کو بتایا کہ ملاقات بہت خوش گوار رہی۔ ان کی مسکراہٹ سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید پی ٹی آئی بھی اکھاڑے سے باہر ہونے کو ہے۔ سیاسی حلقوں میں چندے تشویش و اضطراب رہا لیکن اگلے ہی دن تحریک انصاف نے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا اور ان حلقوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی جو توقع لگائے بیٹھے تھے کہ تحریک انصاف بھی باہر آ گئی تو صدارتی انتخاب کو دھچکا لگے گا۔

اطلاعات کے مطابق آغاز میں تحریک انصاف کے اندر بھی ایک حلقہ بائیکاٹ کا حامی تھا اور خود عمران خان کو بھی صدارتی انتخاب کے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھایا نہیں تاہم اس معاملے پر پارٹی کے اندر جب بات کی گئی تو جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کی تقریر خاصی مؤثر رہی۔ انہوں نے قائل کیا کہ پیپلز پارٹی کی تقلید کرنا تحریک انصاف کے لیے مناسب نہیں اور یہ کہ صدارتی لڑنے کا عالمی سطح پر یہ فائدہ ہوگا کہ اسے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے پذیرائی ملے گی۔

بعض حلقے ایسے بھی ہیں جو پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کو مسلم لیگ نواز کے لیے سوچے سمجھے انداز میں آسانی فراہم کرنے کا منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گزشتہ پانچ برس کے دورانیے میں مسلم لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن کا صلہ ہے جو پیپلز پارٹی نے ادا کر دیا۔

ممنون حسین کی شخصیت کے چند پہلو
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدارتی امیدوار ممنون حسین نے 23 دسمبر 1940 کوہندوستان کے شہر آگرہ میں ایک روایتی مسلمان مذہبی گھرانے میںآنکھ کھولی۔

قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان 1949 میں پاکستان منتقل ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، دینی اور دنیاوی تعلیم کی غرض سے آپ کے والد حاجی اظہر حسین نے گھر میں تعلیم دلانے کے لیے عربی، انگریزی، فارسی، تاریخ، ریاضی، الجبرا اور خوش نویسی میں مہارت رکھنے والے بہترین اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔

ممنون حسین نے 1958 میں پرائیویٹ حیثیت سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1963 میں کراچی یونی ورسٹی کے ماتحت گورنمنٹ کامرس کالج سے بی کام آنرز کی ڈگری حاصل کی اور 1965 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن’’آئی بی اے‘‘ کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ایم بی اے کرنے کے بعد ممنون حسین اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں شامل ہو گئے اور 1983 میں ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ ہوئے۔ ممنون حسین کے تین بیٹے ہیں۔ ان کا گھرانہ ایک روایتی اور مسلمان گھرانا ہے۔

انہوں نے ایک کارکن کی حیثیت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ 1967 میں مسلم لیگ کراچی کے اس وقت جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے جب معروف سیاست دان اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ زین نورانی، کراچی مسلم لیگ کے صدر تھے،19 جون 1997 کو گورنر سندھ کی مسند پر فائز ہوئے۔ ممنون حسین مسلم لیگ (ن) سندھ کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی رہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے صدارتی منصب کے امیدوار ممنون حسین مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تاجر اور غیرسرگرم سیاسی شخصیت رہے ہیں۔ 1993 میں جب پاکستان کے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو ان ہی دنوں ممنون حسین شریف برادران کے قریب ہوئے اور بعد میں وہ مسلم لیگ سندھ کے قائم مقام صدر سمیت دیگر عہدوں پر فائز رہے۔ ممنون حسین 1997 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کے مشیر رہے، 1999 میں انہیں گورنر مقرر کیا گیا مگر صرف چھ ماہ بعد ہی میاں نواز شریف کی حکومت کا تخہ الٹ گیا اور وہ معزول ہوگئے۔

کراچی کے علاقے جامع کلاتھ مارکیٹ بندر روڈ پر ممنون حسین کپڑے کی تجارت کرتے رہے ہیں، اسی علاقے میں ان کا گھر بھی تھا، بعد میں وہ شہر کے پوش علاقے ڈیفنس منتقل ہوگئے۔ میاں نواز شریف کے دورِ اسیری اور جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ نواز کے احتجاج میں ممنون حسین شاذو نادر ہی نظر آتے تھے، ان کا کردار انتہائی غیر متحرک رہا۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ممنون حسین دوبارہ منظرِ عام پر آئے، انھیں مسلم لیگ نواز کے جلسے اور جلوسوں میں انہیں کبھی خطاب کرتے نہیں دیکھا گیاالبتہ ان کی تقریر سیاست کی بجائے میاں صاحب کی شخصیت کے گرد گھومتی تھی۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ نواز نے کراچی سے تعلق رکھنے والی قیادت کا دوسری بار انتخاب کیا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صدر پاکستان کا کردار روایتی بن چکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز اس سے اردو بولنے والی کمیونٹی اور تاجروں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ انھوں نے ان کے نمائندے کا انتخاب کیا ہے۔ کہا جاتا ہے میاں نواز شریف کے لیے ممنون حسین بھی رفیق تارڑ کی طرح بے ضرر اور فرماں بردار صدر ثابت ہوں گے۔

وجیہ الدین
کے حالات زندگی پر ایک نظر

2007 میں وکلا تحریک کے اہم کردار جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد یکم دسمبر 1938 کو نئی دہلی میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد نئی دہلی میں وکیل کی حیثیت سے کام کرتے رہے، ہندوستان کی تقسیم کے بعد انہوں نے نقل مکانی کرکے پاکستان میں سکونت اختیار کی۔ فورمین کرسچین کالج یونی ورسٹی سے 1962 میں لبرل آرٹ میں بی اے کیا، 1963 میں قانون پڑھنے کے لیے سندھ مسلم لا کالج میں داخلہ لیا اور 1967 میں ایل ایل بی کی ڈگری کے ساتھ گریجوایشن کیا، 1971 میں کراچی یونی ورسٹی سے جے ڈی کی ڈگری لی۔ وجیہ الدین احمد سپریم کورٹ آف پاکستان، انسانی حقوق کے سرگرم رکن اور سندھ مسلم لا کالج میں قانون کے پروفیسر بھی رہے۔

جسٹس وجیہ الدین نے 1998 میں سپریم کورٹ میں سینیئر جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا، 2007 میں وکلا تحریک میں ایک اہم کردار بھی ادا کیا۔ 2011 کے بعد سے وہ پاکستان تحریک انصاف کے ذریعے قومی سیاست میں سرگرم ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے صدارت کے عہدے کے لیے کھڑے ہوئے۔

2007 کے صدارتی انتخاب میں ان کواس وقت کے فوجی صدر مشرف کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نام زد کیا گیا تھا۔اس انتخاب میں جسٹس وجیہ الدین احمد صرف دو ووٹ لے پائے تھے۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے اصولوں کی بنیاد پر 2000 میں پی سی او یعنی عبوری آئینی حکم کے تحت سپریم کورٹ کے جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا جس پر انہیں ریٹائر ہونا پڑا۔ وہ 1997 میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے اور 1998 میں انہیں سپریم کورٹ کے جسٹس کے فرائض سونپے گئے جہاں وہ جنوری 2000 تک فرائض انجام دیتے رہے۔

پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنے پر انہیں ریٹائر کر دیا گیا۔ ان کے والد وحید الدین احمد مختصر عرصہ کے لیے ویسٹ پاکستان سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں جسٹس کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اس وقت کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں اس وقت کی بنچ کے ممبر تھے لیکن ناسازیِ طبیعت کی وجہ سے مقدمہ کی سماعت میں حصہ نہیں لے سکے اور بعد میں انتقال کر گئے۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد وکلا تحریک میں سرگرم رہے۔ تین نومبر 2007 کو فوجی صدر جنرل مشرف کی ایمرجنسی کے دوران انہیں مختصر مدت کے لیے حراست میں بھی لیا گیا۔ انہوں نے 2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔