اقوام متحدہ کا کردار

نسیم انجم  منگل 30 جولائی 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی نے اقوام متحدہ سے میانمار کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے یہ مطالبہ نیویارک میں او آئی سی کے نمایندوں نے یو این سیکریٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد میں شریک سعودی سفیر عبداللہ المصطفیٰ نے کہا کہ میانمار دنیا کے ساتھ ہنی مون منانے میں مصروف ہے جو روہنگیا مسلمانوں کی لاشوں پر ترتیب دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے برما میں بدھوں کی جانب سے مسلمانوں پر کیے گئے ظلم پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ آباد 10 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ بھی جلد حل کیا جائے۔

آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو ہر طرح سے تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔ ہم جس اقوام متحدہ سے امید اور مدد کی درخواست کرتے ہیں وہ تنظیم خود مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہے ورنہ کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی تسلط ختم ہو چکا ہوتا جہاں بے شمار نوجوانوں کو موت کی وادی میں دھکیلا جاتا، کشمیری حریت پسندوں کو نہ قید کیا جاتا اور دار پر چڑھایا جاتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کو مسلم قوم سے زرہ برابر بھی ہمدردی ہوتی تو 18 سال قبل بوسنیا کے بے قصور مسلمانوں کو ہر گز بے دردی کے ساتھ قتل نہ کیا جاتا۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد 18 ویں برسی کے موقعے پر 409 شہداء کی شناخت کے بعد باقاعدہ تدفین عمل میں آئی، بوسنیا کے علاقے سربرنیتزا میں 1995 میں سیکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا، شہداء کی باقیات کی تدفین کے موقع پر ہزاروں افراد نے شرکت کی، دفن ہونے والوں میں 43 نوعمر لڑکے اور ایک نوزائیدہ بچہ بھی تھا۔

بوسنیائی سرب فوج نے جس قدر معصوم بچوں اور بے خطا لوگوں کا قتل عام کیا وہ ظلم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پوری دنیا پر صیہونیوں اور دوسرے غیر مسلموں کی درندگی عیاں ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انسانیت کا پرچار کرنے والوں کی منافقانہ پالیسی نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ، گھروں کے گھر اجاڑ دیے، مسلم بستیوں میں آگ لگا دی، گھروں میں جا کر عزت و مال اور انسانی جانوں کی تکہ بوٹی کی۔ گجرات کے سنگین واقعے کو بھی آج تک کوئی نہیں بھول سکا، امن کی تمام تنظیمیں خاموش تماشائی بنی تماشا دیکھتی ہیں۔ مجال ہے جو خلوص دل کے ساتھ بیانات دیں اور اپنی طاقت کے بل پر ظالموں کو ان کے ہتھکنڈوں سے آزاد کرائیں۔

اسرائیل آئے دن معصوم بچوں کو درندے کی طرح اٹھا کر لے جاتا ہے اور انھیں بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ صہیونی و نصرانیوں اور دوسرے غیر مسلموں کے دلوں میں نہ رحم ہے اور نہ اس بات کی تمیز کہ عورتوں اور بچوں نے کیا قصور کیا ہے؟ قصور تو مردوں کا ہو سکتا ہے؟ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بچے اور عورتیں نازک اور کمزور ہوتی ہیں، اگر بہادری ہے ان میں تو مقابلہ برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ فلسطینیوں کے گھر مسمار کر دیے جاتے ہیں ان کے رہنے کی جگہ تنگ کر دی گئی، زندگی گزارنا اجیرن کر دی ہے۔

مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، اسرائیل نے بیت المقدس کو جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور نہایت مقدس ترین مقام ہے اس پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ اس کی بے حرمتی بھی کی اور اس کے تاریخی اور مذہبی آثار کو تباہ و برباد کیا ان کی اس مذموم حرکت سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور آج بھی مسلمان اسرائیلیوں کے ہاتھوں جسمانی و روحانی طور پر اذیت برداشت کر رہے ہیں کوئی ایسا نہیں جو فلسطینیوں پر اسرائیل کے جارحانہ اقدامات روک سکے، اقوام متحدہ خاموش ہے، مسلم ممالک کے سربراہ خاموش ہیں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں کوئی ظلم و بربریت سے فلسطینیوں اور کشمیریوں کو آزاد کرانے والا نہیں، وہاں کے مکین اپنے طور پر جدوجہد کر رہے ہیں نہ ان کے پاس جدید ہتھیار ہیں اور نہ تربیت یافتہ فوج، فلسطین کا بچہ بچہ آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے کشمیر کی بھی یہی صورتحال ہے۔ شکر ہے کہ سعودی سفیر نے میانمار کی بات کی ہے۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں یکجہتی نہیں ہے، اتحاد دم توڑ گیا ہے مسلم آپس کے حقوق و فرائض بھول چکے ہیں، ہمارے پیارے نبی ؐ نے مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی مانند بتائی ہے اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو تمام مسلمانوں کو اس کا احساس ہو گا لیکن لوگوں نے اسلامی تعلمات کو فراموش کر دیا ہے اور اپنے بھلے کی ہی بات کرتے ہیں۔

خلیجی ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اگر امریکا بہادر اور اس جیسی دوسری طاقتوں کو سعودی عرب اور دوسری ریاستیں کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ تیل فراہم کریں تو آج صورتحال مختلف ہوتی کم از کم مسلمانوں کے تحفظ کی ہی شرائط عائد کر دی جاتی۔ غیر مسلموں کی طرف سے بے جا ظلم کی مخالفت کی بات کی جاتی، امت مسلمہ کی حفاظت کے لیے قوانین کا نفاذ ہوتا تو آج ان طاقتوں کی تو درکنار بلکہ ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتے۔ سعودی عرب میں جب شاہ فیصل کی حکومت تھی تو اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، امریکا کو دن میں تارے نظر آنے لگے لیکن افسوس سازش کے تحت دونوں کو قتل کروایا گیا، شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے نے قتل کیا جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔

مسلم حکمرانوں کی غفلت اور بے حسی نے غیر مسلموں کو شیر کر دیا ہے، تیل بھی فراہم کرتے ہیں اور ان کے بینکوں میں مال و دولت جمع کر کے انھیں معاشی طور پر مضبوط کیا جاتا ہے۔ اس کا صلہ وہ مسلمانوں اور ان کے ملک کو تباہ و برباد کر کے دیتے ہیں۔ عراق پر بھی حملہ محض ہتھیاروں کی موجودگی کا سہارا لے کر کیا گیا اگر ہتھیار تھے بھی تو ان کا ملک وہ جانیں ، لیکن امریکا نے طاقت کے بل پر اور مسلمانوں سے خصوصی دشمنی رکھنے کی بنا پر عراق کو تہہ و بالا کر دیا اور اپنے ہی اتحادی صدام حسین کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ایسا ہی حال اسامہ بن لادن کا کیا گیا، پہلے دوستی اور پھر موت۔

بس غیر مسلموں کا مسئلہ یہی ہے کہ مسلمان متحد نہ ہو سکیں بلکہ کمزور سے کمزور تر ہوتے رہیں ان کی حیثیت ان چوہوں جیسی ہو جائے جنھیں بلی کھانے کے لیے تاک میں ہو، چوہے بلی کا کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے، اب امریکا کو ایران کھٹک رہا ہے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو بنیادی اہم کام اور ضرورت بنا لیا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کی مسلمانوں سے دشمنی کی تازہ مثال سامنے آئی ہے، نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لیے امریکا سے پہلے ہم ایران پر حملہ کر دینگے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو اس بات کی شدید تکلیف ہے کہ بقول ان کے ایران کے پاس 190 کلو گرام افزودہ یورینیم موجود ہے جب کہ ایٹم بم بنانے کے لیے 250 کلو گرام یورینیم درکار ہوتا ہے۔ نئے منتخب صدر حسن روحانی بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہیں۔ انھوں نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں مزید کہا کہ اسرائیل ایران سے قریب ہے اس لیے زیادہ خطرے میں ہے، ہمیں امریکا سے پہلے ہی تیاری رکھنی ہو گی۔ ایران کے پیچھے ہاتھ دھو کر امریکا اور اسرائیل پڑے ہوئے ہیں اور اس کی آزادی انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کو کچھ نظر نہیں آتا کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم؟ محض طاقت کے بل پر اپنے حریف کو پسپا کرنا کون سی اور کہاں کی بہادری ہے۔

پاکستان میں بھی دشمن طاقتوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے ، ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں نے پاکستانیوں کا سکون لوٹ لیا ہے۔ پاکستان کی ایجنسیوں اور فورسز کا فرض ہے کہ دشمن کو تلاش کر کے ٹھکانے لگائیں۔ پاکستان اندرونی و بیرونی ہر طرح کے خطرات میں گھرا ہوا ہے، ڈرون حملوں نے ہزاروں معصوم بچوں، خواتین و مردوں کی جانیں لے لی ہیں۔ موجودہ حکومت کی کوشش رنگ لے آئے تو شاید ڈرون حملوں سے نجات مل جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔