افغان بحران کے حل میں مثبت امکانات

سلمان عابد  جمعـء 22 فروری 2019
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

جنوبی ایشیا اور خطہ کی سیاست میں افغان بحران کا حل خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ بحران اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے مسائل محض افغانستان تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات براہ راست خطہ سمیت پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے مسائل کا حل اس وقت دو ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات او رسازگار ماحول اور دوطرفہ تعاون کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان ممالک میں بھارت اور افغانستان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جن فریقین یا طاقتور طبقات نے پاکستان کو باہر نکال کر افغانستان کے حل کی طرف پیشقدمی کی اسے سوائے ناکامی کے کچھ نہیں مل سکا۔ پاکستان افغان بحران کے حل کا ایک بڑا فریق ہے اور اس کا اندازہ اب افغانستان سمیت خطہ کے تمام ممالک اورامریکا یا بڑی طاقتوں کو بھی ادراک ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت عالمی، علاقائی اور افغانستان کے درمیان جو افغانستان کے بحران کا حل تلاش کیا جارہا ہے اس میں پاکستان کا اہم اور کلیدی کردار ہے۔امریکا بھی پاکستان کے کردار کو خاص نظر سے دیکھ رہا ہے اوراس کاایک بڑا انحصار پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر ہے کہ وہ بحران کے حل میں موثر کردار ادا کرے۔ حالیہ کچھ عرصہ میں افغان حکومت اور افغان طالبان سمیت بڑی طاقتوں کے درمیان جو مفاہمت یا مذاکرات کا دربار سجایا گیا ہے اس میں پاکستان کے اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکا کا بہت برسوں سے یہ مطالبہ پاکستان سے رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں اورمسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ دنیا اس نکتہ کو سمجھے کہ افغان طالبان ایک علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں اور یہ سمجھنا کہ وہ محض ہمارے اشارے پر سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں غلط سوچ ہے۔

افغان طالبان اپنے مفادات کے تحت ہی آگے بڑھیں گے اورہم اس عمل میں یقینی طور پر مفاہمت کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں مگر فریقین میں اعتماد سازی کا بحران بنیادی مسئلہ ہے ۔ ماضی میں بھی ہم نے جو بھی افغان حکومت، افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکراتی عمل میں کردار ادا کیا تو اسے خود افغان اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خراب کیا اورنتیجہ مزید بداعتمادی کی صور ت میں نکلا لیکن اب جو حالیہ بڑی پیشرفت ہورہی ہے اس مفاہمتی عمل کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔

افغان حکومت، افغان طالبان اورامریکا سمیت دیگر بڑی طاقتوں کا جنگ و جدل سے نکل کر مفاہمت کی میز پر آنا ایک بڑا سیاسی بریک تھرو ہے ۔اس وقت خطہ کی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے یا جو لوگ براہ راست اس مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں ان کی نظریں حالیہ مذاکرات کے عملی نتائج پر ہے کیونکہ پہلی بار بہت سے فریقین میں کافی نئی امیدیں، توقعات بڑھ رہی ہیں کہ یقینی طور پر ہم مسئلہ کے حل کی طرف پیشرفت کررہے ہیں۔

افغان بحران کا حل آخری مراحل میں ہے۔ اس کے دو ہی عملی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ اول ہم پرامن خطہ سمیت افغان حل کی طرف بڑھیں گے اور امن کے نئے دریچے کھلیں گے ۔ دوئم اگر مسئلہ حل نہیں ہوتا او رفریقین کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مسئلہ کے حل کی طرف نہیں پہنچتے تو ا س کا نتیجہ مزید بدامنی کی صورت میں ابھر سکتا ہے۔اگرچہ ماسکو میں ہونے والی دو روزہ افغان امن بات چیت کسی بڑے نتیجے پر نہیں پہنچ سکی، لیکن سیاسی پنڈتوں کے بقول ان مذاکرات کا روس میں ہونا ہی ایک بڑی پیشرفت ہے ۔

ان مذاکرات کی اہمیت یہ ہے کہ دوسری بار روس میں مذاکراتی عمل کا ہونا اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کا خود شامل ہونا اہم ہے ۔اہم پیشرفت یہ بھی ہے کہ اب صرف مذاکرات میں مسائل یا بداعتمادی یا الزام تراشی کا ماحول نہیں بلکہ مسئلہ کے حل کی طرف زیادہ غوروفکر جاری ہے تاکہ ان مذاکراتی عمل کو کسی عملی نتیجہ پر پہنچا کر مسئلہ کا پرامن اورقابل قبول حل تلاش کیا جائے۔

اسی طرح روس کا دبنگ انٹری کے طور پر افغان حل میں بطور فریق بننے کے عمل کو ایک معمولی عمل نہ سمجھا جائے ماسکو مذاکرات کی کامیابی کی ایک وجہ طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان شیر محمد عباس اور ملا عبدالاسلام ضعیف جیسے اہم طالبان راہنماوں اور سابق افغان صد حامد کرزئی سمیت دیگر طالبان مخالف قوتوں کی ایک چھت تلے ایک میز پر ان کی موجودگی اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول کا ہونا تھا۔

امریکا سمیت دیگر بڑی طاقتیں جو افغان بحران کے حل میں ایک بڑے فریق کے طور پر موجود ہیں ان کا ایک بڑا انحصار افغان طالبان پر ہے اوروہ جانتے ہیں کہ افغان طالبان کو راضی کیے بغیر کوئی کامیابی کا نتیجہ نہیں نکل سکے گاکیونکہ اس وقت سب سے نمایاں قوت ان فریقین میں افغان طالبان ہی ہیں جو عملی طو رپر 60فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ یہ ہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادی سمیت افغان حکومت افغان طالبان کے کنٹرول سے باہر نہیں نکل سکے اس لیے افغان طالبان کا اعتماد ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے مخالفین دباو میں بھی ہیں اور تھکن یا مایوسی کا شکار بھی ہیں ۔

خود افغان طالبان بھی اس اہم موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ بھی اب اس جنگ کے نتیجے میں اپنے لیے زیادہ سیاسی فائدہ سمیٹنا چاہتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ طاقتور طبقات پر یہ دباو ڈال رہے ہیں کہ ہم ہی بنیادی فریق ہیں اور افغان حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ محض امریکا کی کٹھ پتلی کی بنیاد پر موجود ہیں اوران کا افغان حل میں کوئی بڑا کردار نہیں۔

افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسا حل افغان طالبان سے چاہتے ہیں جس میں ان کا سیاسی کردار بھی موجود رہے اور وہ اس مذاکراتی عمل میں سیاسی طورپر تنہا نہ ہو۔یہ ہی وجہ ہے کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جو بار بار مایوسی نظر آرہی ہے اس کی وجہ ان کو لگتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کھیل انکا سیاسی وجود بوجھ بن جائے ۔

امریکا کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ طالبان کو ایسے فارمولہ پر لانا چاہتا ہے جس میں افغانستان کا موجود آئین بھی برقرار رہے اورانتخابات کے نتیجے میں ایک ایسا سیاسی نظام بن جائے جو امریکا سمیت سب کے لیے قابل قبول ہو۔سب کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو بھی فریق سخت گیر موقف کے ساتھ موجود رہے گا وہ پیچھے بھی جاسکتا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کی بڑی کنجی فیصلوں اور مطالبات میں لچک کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اس لیے افغان طالبان سمیت سب فریق کو اپنی اپنی پوزیشن میں جہاں لچک پیدا کرنی ہے وہیں دوسروں کو بھی قبول کرکے انکو بھی سیاسی راستہ دینا ہوگا۔

طالبان کی قوت میں جو حالیہ اضافہ ہو ا ہے اس کی ایک وجہ امریکا کے صدر ٹرمپ بھی ہیں جنہوں نے اپنے اس بیان سے سیاسی ہلچل مچادی کہ ہم چودہ ہزار امریکی فوجیوں کا جلدی سے افغانستان سے انخلا چاہتے ہیں ۔اس بیان کے بعد عملی طور پر کابل کی حکومت کمزور ہوئی ہے اور ڈاکٹر اشرف غنی سیاسی جنجھلاہٹ کا بھی شکار نظر آتے ہیں ۔پاکستان نے عملا حالیہ ابوظہبی مذاکرات کی میز کو سجا کر اپنی اہمیت کو اور زیادہ بڑھادیا ہے اورسب فریقین پاکستان پر زیادہ انحصار کیے ہوئے ہیں۔

اسی طرح ایران نے بھی اپنے سفارتی تعلقات کی بنیاد پر شمالی اتحاد کے عناصر کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا ہے اور خود روس نے بھی نئے امکانات کو پیدا کرکے خود کو ایک بھی ایک اہم فریق کے طور پر شامل کرلیا ہے ۔خود سعودی عرب دیگر عرب ممالک یا یو اے ای کی مدد سے افغان مذاکرات کے حل میں معاونت فراہم کرکے خود بھی فریق کے طور پر سامنے آیا ہے۔اسی طرح اس بحران کے حل میں چین کا بھی اہم کردار ہے جو اپنے کارڈ کھیل کر مسئلہ کے حل میں خود بھی بڑا فریق بن سکتا ہے ۔

طالبان کی اس وقت کوشش ہے کہ وہ امریکا سمیت دیگر طاقتوں پر دباو ڈال کر انخلا کا وقت، قیدیوں کی رہائی اور اپنے اوپر سفری پابندیوں کا خاتمہ کرواکر معاملات کو آگے بڑھا سکتا ہے اورامریکا ان شرائط کو مان بھی سکتا ہے البتہ دو معاملات میں مسائل ہیں اولامریکا کی موجودگی مستقبل میں اور دوسرا افغان داخلی مذاکرات کیونکہ طالبان مستقبل کے تناظر میں امریکی موجودگی کے حامی نہیں جب کہ دیگر فریقین امریکا کا کسی نہ کسی شکل میں کردار رکھنا چاہتے ہیں پاکستان کو اس سارے کھیل میں اپنے کارڈ زیادہ موثر اوربہتر انداز میں کھیلنے ہونگے،اسی میں ہمارا اور خطہ کا مفاد بھی جڑا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔