فتوے داغنا منع ہے

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 22 فروری 2019

تہوار ہر قوم اور ہر ملک میں منائے جاتے ہیں ۔ عموماً منائے جانے والے تہواروں کے پس پشت کوئی نہ کوئی فلسفہ یا منطق کار فرما ہوتی ہے جو اس تہوار کو منائے جانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اسلام میں عید اور بقر عید مسلمانوں کے لیے مقررہ تہوار ہیں ، بعض حضرات شب برأت کو بھی تہوار کے طور پر شامل کر لیتے ہیں ۔

مسلم تہوار مسرت و شادمانی کا موقع فراہم کرتے ہیں مگر ان کے تہواروں کے پس پشت ان کے دینی احکام شامل ہوتے ہیں ہر تہوار مذہبی عقیدت کے ساتھ اور احکامات کے تحت منایا جاتا ہے ۔ عید رمضان کے روزوں کے شکرانے کے طور پر ادا کی جاتی ہے اور دن کی ابتدا نماز سے کی جاتی ہے ۔ احباب سے ملنا ان کو روزوں کی مبارکباد دینا اور اس موقعے پر احباب کی تواضح کرنا اور بچوں کو کھیل کود کے مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں ۔ بقر عید پر حضرت ابراہیم کی انتہائی حیرت انگیز اطاعت و فرماں برداری اور خدا کی رضا پر راضی رہنے یہاں تک کہ اولاد تک کو قربان کردینے کی یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے اس دن قربانی کی جاتی ہے جس کا گوشت خود بھی ذوق و شوق سے کھاتے، احباب کو کھلاتے اور مساکین کو فراہم کرتے ہیں۔

یہی کیفیت دوسری اقوام و نسل کے تہواروں کی ہے اور ان کے تہوار کسی وجہ سے منائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندو بسنت کا تہوار مناتے ہیں ، یہ موسم بہارکی آمد کا اعلان ہے، اس لیے بہارکی دیوی کو خوش کرنے اور اس کی مہربانی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے ایک پادری کی بد چلنی کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ہر ملت و ہر قوم کو اپنے فلسفہ حیات کے مطابق اپنا تہوار منانے کا اختیار ہے لیکن اسلام نے دوسری اقوام کے رنگ ڈھنگ اپنانے کی مخالفت کی اور اس لیے ان کے تہوار بھی منانے سے روک دیا کہ یہ یا تو نتائج کے اعتبار سے بد چلنی کی طرف لے جاتے ہیں یا عقیدے میں شرک پر منتج ہوتے ہیں۔اور دونوں صورتیں اسلام کو گوارا نہیں۔

رسول مقبولؐ جب مدینہ تشریف لائے تو یہود مدینہ 10 محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ آپؐ نے معلوم کیا کہ یہ کیوں رکھتے ہیں تو بتایا گیا کہ اس دن بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی تھی ۔ آپؐ نے فرمایا میں موسیٰؑ کی تقلید کا زیادہ مستحق ہوں آپؐ نے 10 محرم کا روزہ رکھا مگر اعلان فرما دیا کہ اگر زندہ رہا تو بنی اسرائیل سے اختلاف کرتے ہوئے دو دن کا روزہ رکھوں گا۔ حالانکہ اس روزے کے رکھنے میں کسی کفر، شرک یا بدعت کا شائبہ نہ تھا مگر یہ وہ بنی اسرائیل تھے جو حضرت موسیٰؑ کی اطاعت سے ہمیشہ گریزاں رہے اس لیے آپ نے ان کے اس عمل کی بھی تقلید گوارا نہ کی ۔

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ یعنی یہاں شعائر اسلامی کو فروغ حاصل ہوگا اور مسلمان کسی غیر اسلامی عقیدے، طرز حیات، تہوار یا انداز فکر کو اختیار نہ کرسکیں گے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں مذہب سے وابستگی محض سیاسی نعرہ بن کر رہ گئی اور مذہب اور اس کی اقدار سے گلوخلاصی کے انداز اختیار کیے جانے لگے اور اب حال یہ ہے کہ ہم بڑی دیدہ دلیری سے ہندو مذہب کا تہوار بسنت جو بہار کی دیوی کے شکرانے کے لیے منایا جاتا ہے ، منا رہے ہیں اور اگر منع کیا جائے تو فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔

ویلنٹائن ڈے ایک عیسائی پادری کی بد چلنی کی یادگار مگر پوری ملت اسلامیہ پاکستان اسے منانے کے لیے مری جا رہی ہے۔ گزشتہ سالوں سے عدالت نے اس پر پابندی عائد کی ہے مگر صورتحال آج بھی یہ ہے کہ اس سال بسنت پر ایک نوخیز لڑکا پتنگ کی دھاتی ڈور کے باعث گلا کٹ جانے سے ہلاک ہوگیا ۔کیا آپ کی خوشی دوسروں کی ہلاکت کا باعث ہوسکتی ہے؟ کیا آپ کی خرمستیاں دوسروں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا لائسنس رکھتی ہیں ۔ محترم فواد چوہدری صاحب کو آزادی کی ان حدود کے تعین پر غور بھی کرنا چاہیے ، اسلام کی بات کو جانے دیجیے ۔ کیا عام انسانی قانون کے تحت اس بچے کے والدین کو قتل خطا کے باعث ہی سہی کوئی قصاص ادا کیا ۔ کیا یہ ریاست کے فرائض میں شامل نہیں اور ریاست بھی کیسی ریاست کہ اس کا نام لیتے ہوئے ہمیں تو ڈر محسوس ہوتا ہے مگر آپ اسے ہر وقت وظیفہ لب بنائے ہوئے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے پر اس سال عدالتی پابندی تھی ، اس کا حشر بھی دیکھ لیجیے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس دن کے لیے چار ارب روپے کے پھول برآمد کیے گئے، کروڑوں روپے کے ٹیڈی بیئر منگوائے گئے ۔ اسلام آباد اور کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں تہوار منایا گیا ۔ سی ویو اور دیگر ساحلی تفریح گاہوں اور فارم ہاؤسز میں اس تہوار کو اس کے تمام ’’آداب بے ہودگی‘‘ کے ساتھ منایا گیا اور اسے کوئی نہ روک سکا ۔

اس لیے کہ روکنے کی نہ خواہش ہے نہ ارادہ بس زبان خلق کے نقارے پر مہر سکوت لگانے کے لیے کچھ احکام جاری کر دیے جاتے ہیں جن پر عمل درآمد کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا اور اگر کسی طرف سے ان خرمستیوں کے خلاف آواز اٹھے توکہا جاتا ہے

’’دیکھو یہ فتوے داغ رہا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔